پسند کسی کی نہیں
کوئی بھی شعبہ یا ادارہ ہو تمام لوگ کہتے ہیں جو کچھ ان حالات میں ہو رہا ہو وہ ہونا نہیں چاہیے
KARACHI:
کوئی بھی شعبہ یا ادارہ ہو تمام لوگ کہتے ہیں جو کچھ ان حالات میں ہو رہا ہو وہ ہونا نہیں چاہیے۔ ایسے حالات میں ایک وقت ایسا آتا ہے جس میں تمام لوگ غلط روش سے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ غریب تو پہلے متاثر ہے اس سے اوپر والے حضرات کے لیے وقت جلد یا بدیر ضرور آتا ہے سمجھدار پڑھے لکھے لوگوں کا کہنا ہے اچھائی اختیار کرنے پر کام اچھے ہوسکتے ہیں اور زندگی بے خوف اور مطمئن گزر سکتی ہے۔
اس میں آگے کے لیے کوئی خوف یا سرزنش بھی نہیں، اس امر کا ثبوت نمایاں ہے جو لوگ شروع سے نیکی، ایمان داری، درستگی پر رہ رہے ہیں ان کو کوئی خوف و خطر نہیں۔ اب وہ بات جدا ہے کہ ان کی شرافت کو بداعمال لوگ دیکھ کر زر و دولت، جواہرات، پرس، قیمتی موبائل چھین کر اپنی روزی روٹی پوری کرتے ہوں۔ لیکن خوفزدہ وہ لوگ ضرور رہتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے چوری چکاری چھینا جھپٹی میں پکڑے بھی جاتے ہیں اور کئی سال جیل میں گزارتے ہیں۔
ہزاروں سال سے یہ الفاظ و جملے بالکل اسی طرح ہیں جس طرح آج ہیں لیکن فعال عمل نہ ہوسکا۔ شاید اس کی بنیادی وجہ غربت، بداعتمادی یا فاقہ کشی ہو۔ ایسے لوگ نظر آئے جن کے گھر کھانے کو نہیں، ایسے لوگ بھی تھے ایک وقت کے علاوہ دوسرے وقت کا کچھ نہیں۔ ظاہر ہے ایسے گھر میں بچوں کو کیسی تربیت ملتی جس گھر میں کھانے کو نہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ بچے کو اسکول بھیج دو تو یہ جواب ملتا ہے۔ اتنا چھوٹا بچہ مزدوری کیا کرے گا اگر 12 سال کا ہے تو کسی موٹرسائیکل مکینک، دودھ والے، پرچون والے، بیکری والے اور اس سے چھوٹا تو وہ پلاسٹک کے لفافے جو راستے میں گرے پڑے کباڑ میں مل جائیں ان کو صبح سے شام تک جمع کرتا ہے۔ اس کو فروخت کرنے میں گھر کی روتی نکل آتی ہے۔
بات درست ہے جب گھر کی روٹی وہ ایک بچے لاکر دے گا تو اس کی ماں کو کیا ضرورت ہے پڑھانے کی۔ باپ ہیروئن پیتے پیتے مرچکا ہے اب یہ ایک عورت اور بچہ ہے۔ اسی طرح بہت سے گھر ہیں اور ایسے بھی گھر ہیں جہاں ماں باپ دونوں نہیں بلکہ پڑوسیوں کی دیکھا دیکھی اس پڑوسی لڑکے کے ساتھ سائیکل مکینک کی دکان پر لگا دیا۔ چھوٹے علاقوں میں یہ بہت ملے گا۔ اللہ کے چند نیک بندوں کی نیکی سے تھوڑا نیک عمل جاری ہوا ہے اگر والدین نے اتفاق برتا تو یقینا آیندہ یہ نیکی بڑھے گی۔
کام یہ ہماری حکومت کا ہے جو سیاسی لیڈران وعدے دعوے کر کے ووٹ حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسند اقتدار حاصل ہوتی ہے یہ سرکاری بجٹ میں کوشش کریں۔ میں نے نہیں دیکھا اتنا بڑا شاہ خرچ یا امیر امرا رؤسا اپنے پاس سے ان کے گھر پر روزانہ کچھ دیں آہستہ آہستہ عادت پڑسکتی ہے لڑکے کو جب تنخواہ ملے وہ اس میں سے لے لیں۔ غریبوں کی خدمت کرنا چاہے تو بہت مواقع و راستے ہیں۔ دراصل گھوم پھر کے ساری بات سربراہان پر آتی ہے۔ ان کے بچے تو بڑے بڑے اسکولوں کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اب تو نوبت یہاں تک آچکی ہے پرائمری و سیکنڈری کے علاوہ کالج کی اعلیٰ تعلیم باہر یورپی ممالک میں حاصل کروائی جاتی ہے۔ اب ان لوگوں کو ان غریبوں کی کیا فکر وہ اپنے عیش میں مست ہیں۔ پرانے زمانے میں بچیوں اور بچوں کو مائیں قرآن شریف اور اردو کی کتابیں ضرور پڑھاتی تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ بچے بڑے ہو کر اپنے بچوں کو پڑھایا کرتے۔ صرف انگلش سے ہٹ کر اردو، اردو گرامر، املا، گنتی، جمع، تفریق، تقسیم، ضرب میں حساب ابھی بھی وہ ہنڈی والے حساب یاد ہیں۔
اردو میں مضمون سازی ہیڈ ماسٹر کو چھٹی کی درخواست، دوستوں عزیزوں کو مراسلہ نویسی یہ سب گھر میں ماں بتاتی اور پڑھاتی۔ اب نہ یہ سسٹم رہا اور نہ ہی اسکول۔ ہر سال اسکولوں میں اضافہ کیا جائے کالج بنائے جائیں۔ طلبا کو تعلیم دی جائے اور اساتذہ کو روزگار اس کے علاوہ دیگر اسٹاف کو ملازمت مل سکے۔ سال بہ سال بجٹ بناکر مدرسوں کی تعمیرات ضروری ہیں۔ جب مدرسوں کی تعلیم باقاعدہ ہوگی تو دوسروں کی محتاجی ختم، خیرسگالی نصیب ہوگی۔
دلچسپ بات یہ کہ جن معززین کو ووٹ دیے عہدیدار بنایا، ان سے کوئی رسائی نہیں وہ ان کی جگھیوں میں تو صرف ووٹ کے لیے آتے تھے اس کے بعد ان کا ان کی جھگی کی آبادیوں سے کیا کام۔ ان کے چمچے، چیلے چالے اگر مل جائیں تو وہ صرف دعا کرکے ایسے جاتے ہیں جیسے ان کا کام کل ہوجائے گا۔ وہ غریب روز انتظار کرتا ہے اس کا کام کرنے والا کوئی نہیں آیا۔
گٹر بند ہوئے دس دن گزر چکے ہیں جاکر شکایتیں کیں دیکھنے بھی آئے لیکن افسوس گٹر کھولنے کوئی نہیں آیا، زیادہ آگے بات گئی تو صفائی کرنے والوں نے بڑی معصومیت سے کہا حضور والا! بانس نہیں ہے اور نہ ہی بانس کے پیسے ملے جس کے ذریعے بانس لاتے اور کھپچیاں بناتے جس کے ذریعے گٹر کا پائپ کھولا جاتا۔ سمجھدار لوگ تھوڑے تھوڑے جمع کر کے بانس کی رقم دے دیتے ہیں۔ اتفاق سے ایک سیانہ لڑکا ''مال کٹوری'' میں چلا گیا تو دیکھا بیس پچیس بانس اور دس بارہ کھپچیاں بھی پڑی ہیں۔ وہ پیسے آپس میں بانٹ لیے اور مال منڈی جس میں سرکار نے مال بھیجا اس میں سے کھپچیاں لے لیں۔
بجلی کا بھی حال کچھ کم نہیں وہاں بھی خرچ کچھ لازمی سا ہے۔ اگر بجلی چلی گئی ایک ساتھ کئی گھروں کی گئی ہے تو سمجھ لیں ایک پول سے جو مین ہے اس میں سے جمپر کا تار جل گیا جو ٹوٹ کر نیچے گرا ہے۔ بیسیوں گھروں کی بجلی گئی ہے تو دسیوں گھر شکایات ضرور درج کراتے ہیں۔ کئی بار فون کرنے کہنے کے بعد ایم ٹی ایل (بجلی بنانے والی گاڑی) آئی اسے تو اندازہ ہوتا ہے کون سے والے پول سے جمپر اڑا ہے۔ وہ ادھر جاکر جمپر میں تار ملاکر باندھ دیتے ہیں۔ سارے گھروں میں بجلی آجاتی ہے۔ چھوٹے بچے چیخنے لگتے ہیں بجلی آگئی۔ بجلی آگئی۔ بجلی آگئی۔ جیسے بہت بڑا معرکہ ہو گیا ہو۔
اب گاؤں والے بھی انتظار میں ہوتے ہیں کبھی ایک گھر سے پانی مانگتے ہیں کبھی دوسرے گھر سے۔ کارنامہ سب کو معلوم ہوتا ہے پہلے سے کاغذات جمع کیے ہوتے ہیں وہ سارے کاغذات ان کو دے دیے جاتے ہیں سردیوں میں اگر بجلی والے ریٹنگ کا کام کریں ڈائیگرام بناکر پی ایم ٹی (دو پولوں کے درمیان ٹرانسفارمر) جہاں لوڈ بڑھ گیا ہے وہ یہ سارے ریٹنگ کے ٹرانسفارمر سے لے کر پراثر نئے بڑے گیج میں لگا دیے جائیں تو دو سال کے لیے چھٹی ہوجاتی ہے۔ ایسے کام بھی ہیں جو 5 سال کے لیے حل نہیں ہوتے۔
سوئی گیس والوں میں ابھی معمولی کام آیا ہے یہ اپنی پالیسی کے مطابق میٹر اور میٹر سے نیچے ڈی تک نیا لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شکایات بہت آرہی ہیں اور اسٹاف ان کا معقول اچھا ہے صارفین کو تنگ نہیں کرتا۔
اب اس طرح تو نہ جانے کتنے محکموں کی کہانیاں آجائیں گی پڑھنے والے بور ہوں گے اور محکمے والے ناراض ہوں گے۔ یہاں یہ بھی تو مشکل ہے اگر ان کو ناراض کردیا تو آیندہ کام میں اور مشکل پڑے گی۔ اب یہ تو ایسے کام ہیں سب کے علم میں ہیں یہ ایک رواج بن گیا ہے اگر آپ نے کسی کے ساتھ بدسلوکی یا اس کی خیر خواہی نہ کی تو آیندہ بھی آپ کو پریشانی کا سامنا ہوگا۔
ایک دفعہ اخبار میں دیکھا ایک گٹر کا ڈھکن غائب تھا تو اس کے پاس وزیر اعلیٰ کی تصویر لگا چھوڑی۔ وہ بھی کچھ نہ کرسکے البتہ ایک صاحب نے یہ ضرور کیا جب ڈھکن لگ جاتا ہے تو اس کی تصویر اخبار میں آئی۔ مسائل اتنے ہیں جو بڑھتے جا رہے ہیں اپنے اور اپنے اعزا و اقربا یار دوستوں کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں مسائل بڑھتے چلے گئے۔ اور اب ایسا لگتا ہے یقینا مسائل بڑھیں گے۔
حکومت پر قرض بڑھ رہا ہے اس کے باوجود کام نہیں ہو رہے۔ ہر شخص کو عسکری ادارے سے امید رہتی ہے لیکن سوچیں وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں کام تو ان لوگوں کا ہے جو ووٹ لے کر مسند اقتدار پر آتے ہیں اصولی طور پر بجائے چور بازاری، کمیشن خوری، مار دھاڑ کے عوام کی خدمت کرنا ان کا فرض ہے۔