حقیقی معرفت
اسلام دین فطرت اور رحمت و رافت کا علم بردار ہے
QUETTA:
اسلام دین فطرت اور رحمت و رافت کا علم بردار ہے۔ اس کی تعلیمات امن وسلامتی کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ مسلمان دوسروں کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے پریشانی اور تکلیف کا باعث نہیں بنتا۔ اسلامی اخلاق صفات عالیہ کا مرقع ہیں۔ آپؐ اخلاقی محاسن کا جو نمونہ چھوڑا کوئی بڑے سے بڑا انسان اس کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکا اور نہ ہی پہنچ سکتا ہے۔
انسانی عظمت کا راز اچھے اخلاق کو قرار دیا گیا، آپؐ کی بہت بڑی خوبی نرم مزاجی ہے، مسلمان دوسروں کے لیے مشکلات اور پریشانیاں پیدا نہیں کرتا۔ اس کی ذات سراپا رحمت ہوتی ہے اور اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہتے ہیں۔
مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تو رحمت، شفقت، رافت اور مہربانی کا رویہ رکھتا ہی ہے نیز اس کو ان غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے لیکن آج ہم اپنی معاشرتی ذمے داریوں سے غافل اور اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں لہذا دنیا میں بدنام اور ذلیل و رسوا ہورہے ہیں، غلامی ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔ ہم اپنے عظیم اسلاف کی طرح باکردار ہیں اور نہ ہی اسلام کے ساتھ اتنے مخلص جتنے ہمارے دشمن اسلام دشمنی کے ساتھ مخلص ہیں۔
فی زمانہ کلمہ گو مسلمانوں میں ایک اچھی بھلی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا کلمہ پڑھنا انھیں دین پر عمل کے لیے نہیں ابھارتا، وہ نماز تک کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس طرح دین پر عمل جو ایک فطری اور آسان کام ہے مشکلات و مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک بنیادی رہنمائی تو ہر ایک کو یہ ہے کہ نفل کو فرض پر ترجیح نہ دی جائے، نفل ترک ہو جائے، فرض ترک نہ ہو لیکن ہمارے مسلم معاشرے میں بے شمار ایسے مسلمان ہیں جو ان معمولی ترجیحات سے بھی واقف نہیں نماز عید کے لیے عیدگاہ میں تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آئیں گے لیکن جب اسی دن کی فجر کی نماز میں مسلمان گنتی کی تعداد میں نظر آئیں گے حالانکہ نماز فجر فرض اور نماز عید واجب ہے! شب معراج، شب برأت اور شب قدر میں پوری پوری رات شب بیداری میں مصروف نظر آئیں گے۔
ایسے بھی ہیں جو پوری پوری نعتیہ محافل میں شرکت کے بعد عین اس وقت جب نماز فجر کا وقت قریب ہوتا ہے سونے کے لیے اپنے نرم گرم بستروں میں چلے جاتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو پوری رات جاگ کر عبادت کرتے ہیں لیکن عین نماز فجر کے وقت اتنے تھک کے چور ہوچکے ہوتے ہیں کہ فجر قضا ہوجاتی ہے۔ بیشتر لا علمی میں غلط ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بروز قیامت میرے سب سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والا ہوگا لیکن آج ہماری حالتیں بھی لمحہ فکریہ ہیں۔
ہمارے معاشرے میں نفلی حج اور یکے بعد دیگرے عمرے کا رواج عام ہوچکا ہے جب کہ دوسری جانب معاشرے میں بھوک، غربت و افلاس اور جہالت عام ہے اور دین کے اجتماعی تقاضے پورے کرنے کے لیے وسائل فراہم نہیں ہوپاتے۔ یہ موضوع بھی ترجیحات سے متعلق ہے، زندگی کے ہر ہر قدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہے اور مسلم امہ اپنی ان ہی ترجیحات کا جائزہ لے کر اپنی کھوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کرسکتی ہے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو۔
نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور شخصی یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، سیاسی عمل کے شور و غل اور ابلاغ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر سیرت و کردار کے بنیادی کام سے فارغ کر دیتے ہیں۔
تبدیلی فرد کا اصل معمار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن و سنت سے براہ راست تعلق اﷲ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
اگر ترجیحات پر مسلسل غور و فکر اور تجزیہ و تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوں اور نہ ایک میکانیکی نظام ہی میں تبدیل ہو نیز نہ ہی مذہب کے نام پر اس انتہا پسندی کو فروغ ملے جس نے پوری دنیا میں اسلام کی سچی تصویر پر پردہ ڈال دیا اور اصل خوشنما چہرے کو بدنما اور مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
اگر ہم سب اپنا اپنا محاسبہ کریں، اپنے نفس اور ذات کی اصلاح کریں، اپنے ضمیر کو بیدار کریں، اپنے فرائض میں کام چوری اور غفلت شعاری کے لیے اپنی خواہشوں کو ڈھال نہ بنائیں تو ہمارا ضمیر خود گواہی دے گا کہ اغیار سے زیادہ ہم خود اپنے دشمن ہیں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ ہم خود اپنے پیارے نبیؐ کی مبارک سنتوں اور پاکیزہ طریقوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
ہم جو اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے آنکھیں چرانے کے لیے اپنے ہر نقصان کو یہود و نصاریٰ اور ہنود پر ڈال دیتے ہیں، ہمیں خود رحمۃ اللعالمینؐ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ آخر ہمیں اسلام کی امن وسلامتی پر مبنی تعلیمات پر عمل کرنے سے امریکا نے روک رکھا ہے؟
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، داڑھی، حسن سلوک، بھائی چارہ و مواخات، انفاق فی سبیل اللہ، نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا، امن و سلامتی اور پرسکون ماحول کے قیام میں کردار ادا کرنے سے اسرائیل نے روکا ہے یا ہماری خواتین کو اولاد کی بہتر اخلاقی تربیت، سیرت و کردار کی تعمیر اور پردے کے احکام پر عمل کرنے میں بھارتی سازش رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟ ہمارے گھروں میں آلات فحاشی کون سا دشمن ملک رکھ گیا ہے؟ ہم اپنی اولادوں کو کسی امریکی دباؤ پر اسلام کی زندہ جاویداں تعلیمات سے دور اور محروم رکھتے ہیں؟ ہماری شادیوں پر اسلامی سادگیوں سے ہٹ کر ہندوانہ رسومات بجا لانے کے لیے کب بھارتی ایجنٹ آتے ہیں؟
اکثر معاملات میں تو ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں اور پھر ان کے بھیانک نتائج کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔وہ تہذیب وقوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی، عروج کی منزلیں طے کیں، پچھلے ڈھائی، تین سو سال سے بتدریج روبہ زوال ہے اور اس زوال کی اصل وجہ بغاوت، نافرمانی، بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کرنا ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہمیں خوف، حزن و ملال، مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے، لوگ امریکا کی مثال دیتے ہیں کہ امریکا ترقی کی شاہراہ پر کیسے گامزن ہے؟
امریکا کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت اور ایمانداری کے ساتھ، لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔ ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے لیکن اگر یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی اقوام کو یورپ سے نکال کر دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (Barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا، دنیا کو تہذیب سے روشناس کرانے کا جذبہ اور مقصد انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔
مسلمانوں کے پاس نہ سائنس وٹیکنالوجی تھی، نہ اسلحہ اور وسائل لیکن مقصد سے لگن اور محبت ان پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف 200 سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی جو آج بھی موجود ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان و تقویٰ، صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے، خواہ صحیح بات کے لیے ہو وہ مغلوب ہو گا اور جہاں یہ موجود ہے، خواہ غلط بات کے لیے ہو، وہ غالب ہو گا، پس آج ہمیں بھی اس مقصد اور جذبے کی اشد ضرورت ہے۔
مسلم خوابیدہ اٹھ' ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق' گرم تقاضا تو بھی ہو
اسلام دین فطرت اور رحمت و رافت کا علم بردار ہے۔ اس کی تعلیمات امن وسلامتی کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ مسلمان دوسروں کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے پریشانی اور تکلیف کا باعث نہیں بنتا۔ اسلامی اخلاق صفات عالیہ کا مرقع ہیں۔ آپؐ اخلاقی محاسن کا جو نمونہ چھوڑا کوئی بڑے سے بڑا انسان اس کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکا اور نہ ہی پہنچ سکتا ہے۔
انسانی عظمت کا راز اچھے اخلاق کو قرار دیا گیا، آپؐ کی بہت بڑی خوبی نرم مزاجی ہے، مسلمان دوسروں کے لیے مشکلات اور پریشانیاں پیدا نہیں کرتا۔ اس کی ذات سراپا رحمت ہوتی ہے اور اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہتے ہیں۔
مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تو رحمت، شفقت، رافت اور مہربانی کا رویہ رکھتا ہی ہے نیز اس کو ان غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے لیکن آج ہم اپنی معاشرتی ذمے داریوں سے غافل اور اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں لہذا دنیا میں بدنام اور ذلیل و رسوا ہورہے ہیں، غلامی ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔ ہم اپنے عظیم اسلاف کی طرح باکردار ہیں اور نہ ہی اسلام کے ساتھ اتنے مخلص جتنے ہمارے دشمن اسلام دشمنی کے ساتھ مخلص ہیں۔
فی زمانہ کلمہ گو مسلمانوں میں ایک اچھی بھلی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا کلمہ پڑھنا انھیں دین پر عمل کے لیے نہیں ابھارتا، وہ نماز تک کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس طرح دین پر عمل جو ایک فطری اور آسان کام ہے مشکلات و مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک بنیادی رہنمائی تو ہر ایک کو یہ ہے کہ نفل کو فرض پر ترجیح نہ دی جائے، نفل ترک ہو جائے، فرض ترک نہ ہو لیکن ہمارے مسلم معاشرے میں بے شمار ایسے مسلمان ہیں جو ان معمولی ترجیحات سے بھی واقف نہیں نماز عید کے لیے عیدگاہ میں تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آئیں گے لیکن جب اسی دن کی فجر کی نماز میں مسلمان گنتی کی تعداد میں نظر آئیں گے حالانکہ نماز فجر فرض اور نماز عید واجب ہے! شب معراج، شب برأت اور شب قدر میں پوری پوری رات شب بیداری میں مصروف نظر آئیں گے۔
ایسے بھی ہیں جو پوری پوری نعتیہ محافل میں شرکت کے بعد عین اس وقت جب نماز فجر کا وقت قریب ہوتا ہے سونے کے لیے اپنے نرم گرم بستروں میں چلے جاتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو پوری رات جاگ کر عبادت کرتے ہیں لیکن عین نماز فجر کے وقت اتنے تھک کے چور ہوچکے ہوتے ہیں کہ فجر قضا ہوجاتی ہے۔ بیشتر لا علمی میں غلط ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بروز قیامت میرے سب سے زیادہ قریب اچھے اخلاق والا ہوگا لیکن آج ہماری حالتیں بھی لمحہ فکریہ ہیں۔
ہمارے معاشرے میں نفلی حج اور یکے بعد دیگرے عمرے کا رواج عام ہوچکا ہے جب کہ دوسری جانب معاشرے میں بھوک، غربت و افلاس اور جہالت عام ہے اور دین کے اجتماعی تقاضے پورے کرنے کے لیے وسائل فراہم نہیں ہوپاتے۔ یہ موضوع بھی ترجیحات سے متعلق ہے، زندگی کے ہر ہر قدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہے اور مسلم امہ اپنی ان ہی ترجیحات کا جائزہ لے کر اپنی کھوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کرسکتی ہے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو۔
نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور شخصی یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، سیاسی عمل کے شور و غل اور ابلاغ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر سیرت و کردار کے بنیادی کام سے فارغ کر دیتے ہیں۔
تبدیلی فرد کا اصل معمار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن و سنت سے براہ راست تعلق اﷲ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
اگر ترجیحات پر مسلسل غور و فکر اور تجزیہ و تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوں اور نہ ایک میکانیکی نظام ہی میں تبدیل ہو نیز نہ ہی مذہب کے نام پر اس انتہا پسندی کو فروغ ملے جس نے پوری دنیا میں اسلام کی سچی تصویر پر پردہ ڈال دیا اور اصل خوشنما چہرے کو بدنما اور مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
اگر ہم سب اپنا اپنا محاسبہ کریں، اپنے نفس اور ذات کی اصلاح کریں، اپنے ضمیر کو بیدار کریں، اپنے فرائض میں کام چوری اور غفلت شعاری کے لیے اپنی خواہشوں کو ڈھال نہ بنائیں تو ہمارا ضمیر خود گواہی دے گا کہ اغیار سے زیادہ ہم خود اپنے دشمن ہیں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ ہم خود اپنے پیارے نبیؐ کی مبارک سنتوں اور پاکیزہ طریقوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
ہم جو اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے آنکھیں چرانے کے لیے اپنے ہر نقصان کو یہود و نصاریٰ اور ہنود پر ڈال دیتے ہیں، ہمیں خود رحمۃ اللعالمینؐ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ آخر ہمیں اسلام کی امن وسلامتی پر مبنی تعلیمات پر عمل کرنے سے امریکا نے روک رکھا ہے؟
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، داڑھی، حسن سلوک، بھائی چارہ و مواخات، انفاق فی سبیل اللہ، نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا، امن و سلامتی اور پرسکون ماحول کے قیام میں کردار ادا کرنے سے اسرائیل نے روکا ہے یا ہماری خواتین کو اولاد کی بہتر اخلاقی تربیت، سیرت و کردار کی تعمیر اور پردے کے احکام پر عمل کرنے میں بھارتی سازش رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟ ہمارے گھروں میں آلات فحاشی کون سا دشمن ملک رکھ گیا ہے؟ ہم اپنی اولادوں کو کسی امریکی دباؤ پر اسلام کی زندہ جاویداں تعلیمات سے دور اور محروم رکھتے ہیں؟ ہماری شادیوں پر اسلامی سادگیوں سے ہٹ کر ہندوانہ رسومات بجا لانے کے لیے کب بھارتی ایجنٹ آتے ہیں؟
اکثر معاملات میں تو ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں اور پھر ان کے بھیانک نتائج کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔وہ تہذیب وقوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی، عروج کی منزلیں طے کیں، پچھلے ڈھائی، تین سو سال سے بتدریج روبہ زوال ہے اور اس زوال کی اصل وجہ بغاوت، نافرمانی، بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کرنا ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہمیں خوف، حزن و ملال، مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے، لوگ امریکا کی مثال دیتے ہیں کہ امریکا ترقی کی شاہراہ پر کیسے گامزن ہے؟
امریکا کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت اور ایمانداری کے ساتھ، لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔ ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے لیکن اگر یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی اقوام کو یورپ سے نکال کر دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (Barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا، دنیا کو تہذیب سے روشناس کرانے کا جذبہ اور مقصد انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔
مسلمانوں کے پاس نہ سائنس وٹیکنالوجی تھی، نہ اسلحہ اور وسائل لیکن مقصد سے لگن اور محبت ان پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف 200 سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی جو آج بھی موجود ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان و تقویٰ، صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے، خواہ صحیح بات کے لیے ہو وہ مغلوب ہو گا اور جہاں یہ موجود ہے، خواہ غلط بات کے لیے ہو، وہ غالب ہو گا، پس آج ہمیں بھی اس مقصد اور جذبے کی اشد ضرورت ہے۔
مسلم خوابیدہ اٹھ' ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق' گرم تقاضا تو بھی ہو