زمین کے اطراف موجود خلائی ذرات پر تحقیق
مصنوعی سیاروں کی حفاظت کے نئے طریقے وضع کیے جاسکیں گے
امریکا نے اپنا اولین مصنوعی سیارہ '' ایکسپلورر وَن'' 1958ء میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ اس مصنوعی سیارے سے حاصل ہونے والی معلومات سے طبیعیات داں جیمز وان ایلن نے یہ دریافت کیا تھا کہ خلا میں چہار سُو تاب کاری پھیلی ہوئی ہے۔ زمین بہت زیادہ باردار ذرات کی تاب کاری پر مشتمل پہیے کی ٹیوب نما دو دائروں سے گھری ہوئی ہے۔ اندرونی دائرہ طاقت وَر الیکٹرانوں اور پروٹانوں جب کہ بیرونی دائرہ صرف الیکٹرانوں پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں دائرے وان ایلن ریڈی ایشن بیلٹس (وان ایلن کی تاب کاری کی پٹیاں ) کہلاتے ہیں۔ تقریباً روشنی کی رفتار سے حرکت کرتے یہ ذرات خلا میں مصنوعی سیاروں اور خلانوردوں کے لیے خطرناک ماحول پیدا کردیتے ہیں۔
چند برسوں سے وان ایلن بیلٹس کی سائنسی تفہیم میں خصوصی دل چسپی لی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مواصلاتی سیارے ان بیلٹس میں زیادہ سے زیادہ مدت تک رہیں۔ بالخصوص جی پی ایس سیٹیلائٹس ان پٹیوں یا دائروں کے مرکز میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے وابستہ ماہر ارضی طبیعیات یوری شپرت کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں جدت کی بدولت مصنوعی سیاروں، جہازوں اور دیگر خلائی آلات کی جسامت مختصر تر ہوتی جارہی ہے، اور اسی مناسبت سے ان کے تاب کاری سے متأثر ہونے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔
انسانی ساختہ خلائی آلات کے لیے سب سے خطرناک ذرات تقریباً روشنی کی رفتار سے متحرک الیکٹران ہیں، جو relativistic اور ultra-relativistic الیکٹران کہلاتے ہیں۔ مؤخرالذکر ذرات خاص طور پر خطرناک ہیں اور محفوظ ترین مصنوعی سیاروں میں بھی نفوذ کرسکتے ہیں۔ اسی لیے انھیں ' قاتل الیکٹران' بھی کہا جاتا ہے۔ یوری شپرت کہتے ہیں کہ relativistic الیکٹرانوں سے مصنوعی سیاروںکی حفاظت ممکن ہے تاہم ultra-relativistic الیکٹرانوں سے ان کا بچاؤ عملی طور پر ناممکن ہے۔
خلائی تاب کاری کی دریافت کے بعد ہی سے ان ذرات کی حرکیات کو سمجھنا سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر حالیہ عرصے کے دوران سائنس دانوں نے وان ایلن بیلٹس سے منفی باردار ذرات کے اخراج کو سمجھنے کی متعدد کوششیں کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ electromagnetic ion cyclotron موجوں نے ان ذرات کو خلا میں پھیلا رکھا ہے۔ یہ موجیں آیونوں کے دخول کی وجہ سے جنم لیتی ہیں جو الیکٹرانوں سے بھاری اور بے انتہائی توانائی کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ موجیں خلا میں الیکٹرانوں کو منتشر کرسکتی ہیں تاہم سائنس داں ابھی تک اس بات کی تصدیق میں کام یاب نہیں ہوسکے۔ بہرحال اب تک سائنس دانوں کے پاس الیکٹرانوں کے اخراج کا مضبوط ترین ممکنہ عامل یہ موجیں ہی ہیں۔
2006ء میں شپرت اور اس کے ہم کاروں نے الیکٹرانوں کے اخراج کے سلسلے میں ایک اور مفروضہ پیش کیا۔ یہ مفروضہ دراصل ایک مکینزم تھا۔ سائنس دانوں نے تجویز کیا کہ بین السیاراتی خلا میں داخل ہوتے ہی ننانوے فی صد سے زائد ذرات اچانک غائب ہوگئے تھے، انھیں ارضی مقناطیسی میدان بھی گرفت میں نہیں لے پایا تھا۔ شپرت اور اس کی ٹیم نے مزید تحقیقی مطالعات کیے جو اس مکینزم کی موجودگی کی گواہی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شپرت کے مطابق ان کے تحقیقی مطالعات اور تجربات نے خلائی ماحول سے متعلق ایک بنیادی سوال کا جواب فراہم کردیا ہے، اور اس کی بنیاد پر زمین کے اطراف موجود تاب کار بیلٹوں سے خطرناک تاب کاری صاف کرنے کے نئے طریقے وضع کیے جاسکیں گے۔
چند برسوں سے وان ایلن بیلٹس کی سائنسی تفہیم میں خصوصی دل چسپی لی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی ٹیکنالوجیز اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مواصلاتی سیارے ان بیلٹس میں زیادہ سے زیادہ مدت تک رہیں۔ بالخصوص جی پی ایس سیٹیلائٹس ان پٹیوں یا دائروں کے مرکز میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے وابستہ ماہر ارضی طبیعیات یوری شپرت کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں جدت کی بدولت مصنوعی سیاروں، جہازوں اور دیگر خلائی آلات کی جسامت مختصر تر ہوتی جارہی ہے، اور اسی مناسبت سے ان کے تاب کاری سے متأثر ہونے کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔
انسانی ساختہ خلائی آلات کے لیے سب سے خطرناک ذرات تقریباً روشنی کی رفتار سے متحرک الیکٹران ہیں، جو relativistic اور ultra-relativistic الیکٹران کہلاتے ہیں۔ مؤخرالذکر ذرات خاص طور پر خطرناک ہیں اور محفوظ ترین مصنوعی سیاروں میں بھی نفوذ کرسکتے ہیں۔ اسی لیے انھیں ' قاتل الیکٹران' بھی کہا جاتا ہے۔ یوری شپرت کہتے ہیں کہ relativistic الیکٹرانوں سے مصنوعی سیاروںکی حفاظت ممکن ہے تاہم ultra-relativistic الیکٹرانوں سے ان کا بچاؤ عملی طور پر ناممکن ہے۔
خلائی تاب کاری کی دریافت کے بعد ہی سے ان ذرات کی حرکیات کو سمجھنا سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر سے لے کر حالیہ عرصے کے دوران سائنس دانوں نے وان ایلن بیلٹس سے منفی باردار ذرات کے اخراج کو سمجھنے کی متعدد کوششیں کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ electromagnetic ion cyclotron موجوں نے ان ذرات کو خلا میں پھیلا رکھا ہے۔ یہ موجیں آیونوں کے دخول کی وجہ سے جنم لیتی ہیں جو الیکٹرانوں سے بھاری اور بے انتہائی توانائی کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ موجیں خلا میں الیکٹرانوں کو منتشر کرسکتی ہیں تاہم سائنس داں ابھی تک اس بات کی تصدیق میں کام یاب نہیں ہوسکے۔ بہرحال اب تک سائنس دانوں کے پاس الیکٹرانوں کے اخراج کا مضبوط ترین ممکنہ عامل یہ موجیں ہی ہیں۔
2006ء میں شپرت اور اس کے ہم کاروں نے الیکٹرانوں کے اخراج کے سلسلے میں ایک اور مفروضہ پیش کیا۔ یہ مفروضہ دراصل ایک مکینزم تھا۔ سائنس دانوں نے تجویز کیا کہ بین السیاراتی خلا میں داخل ہوتے ہی ننانوے فی صد سے زائد ذرات اچانک غائب ہوگئے تھے، انھیں ارضی مقناطیسی میدان بھی گرفت میں نہیں لے پایا تھا۔ شپرت اور اس کی ٹیم نے مزید تحقیقی مطالعات کیے جو اس مکینزم کی موجودگی کی گواہی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شپرت کے مطابق ان کے تحقیقی مطالعات اور تجربات نے خلائی ماحول سے متعلق ایک بنیادی سوال کا جواب فراہم کردیا ہے، اور اس کی بنیاد پر زمین کے اطراف موجود تاب کار بیلٹوں سے خطرناک تاب کاری صاف کرنے کے نئے طریقے وضع کیے جاسکیں گے۔