روبوٹ جج کا منصب سنبھالیں گے

ماہرین کے مطابق یہ الگورتھم بین الاقوامی عدالتوںکو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔


غزالہ عامر November 03, 2016
مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں متوقع بہتری کی بدولت وہ اپنے ’دماغ‘ سے بھی زیادہ کام لینے کی اہل ہوجائیں گی۔ فوٹو: فائل

مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی) ٹیکنالوجی کی بدولت سائنس داں روبوٹوں میں انسانوں جیسی ذہنی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

روبوٹ چہرے سے جذبات کا اظہار کرنے، مہمانوں کو خوش آمدید کہنے، اور جزوی طور پر انسانوں سے بات چیت کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ انھیں انسانوں جیسی یہ صلاحیتیں عطا کرنے میں مصنوعی ذہانت کا کردار کلیدی ہے۔ سائنس داں اس ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے خودکار مشینوں کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔

اس ضمن میں پیش رفت کرتے ہوئے انھوں نے ایک ایسا نظام یا الگورتھم تیار کرلیا ہے جو عدالتی مقدمات کے فیصلے کرسکتا ہے۔ ماہرین روبوٹ میں اس الگورتھم کے تجربات بھی کرچکے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر مستقبل میں روبوٹ وکیل اور جج کے فرائض بھی ادا کرسکتے ہیں۔

خودکار مشینوں میں قانونی فیصلے کرنے کی صلاحیت یونیورسٹی کالج لندن، شیفلڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے محققین پر مشتمل ٹیم نے پیدا کی ہے۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ ان کا تیارکردہ الگورتھم انسانی حقوق سے متعلق مقدمات کے فیصلوں کی اسّی فیصد تک درست پیش گوئی کرسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ الگورتھم بین الاقوامی عدالتوںکو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ الگورتھم کی تخلیق کے دوران اس امر کو پیش نظر رکھا گیا کہ یہ جاری مقدمات کی تفصیلات پڑھ فیصلوں کا قبل از وقت اندازہ کرسکے۔ مگر فیصلوں کی پیش گوئی میں الگورتھم عالمی قوانین کے ساتھ ساتھ غیرقانونی حقائق کو بھی مد نظر رکھتا ہے، اور یہ خاصیت مصنوعی ذہانت کی رہین منت ہے۔

دوران تحقیق محققین نے کئی عدالتوں کے مقدمات کی عام دستیاب دستاویزات کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ اس دوران انھیں پتا چلا کہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت کے فیصلوں کا بیشتر انحصار براہ راست قانونی دلائل سے زیادہ دوسرے اور متعلق حقائق پر تھا۔ اس ' دریافت' سے ظاہر ہوتا تھا کہ مذکورہ عدالت کے جج قانونی دنیا میں رائج اصطلاحات کے مطابق روایت پسند کے بجائے حقیقت پسند ہیں۔ محققین کا یہ تجزیہ، قبل ازیں دیگر اہم اعلیٰ ترین عدالتوں بشمول امریکی سپریم کورٹ میں فیصلہ سازی کے عمل پر ہونے والے تحقیقی مطالعات کے نتائج کو تقویت دے رہا تھا۔

اس منفرد الگورتھم کی تخلیق کے لیے ڈاکٹر ویسیلیس اور ان کی ٹیم نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں چلنے والے پانچ سو چوراسی مقدمات کی دستاویزات کا مطالعہ کیا۔ یہ تمام مقدمات یورپی کنوینشن برائے انسانی حقوق سے متعلق آرٹیکل تین، چھے اور آٹھ سے منسلک تھے۔ بعدازاں سائنس دانوں نے قانونی دستاویزات کی تحریروں میں یکسانیت تلاش کرنے کے لیے اے آئی الگورتھم کا استعمال کیا۔

الگورتھم سے حاصل کردہ نتائج ظاہر کررہے تھے کہ عدالتوں کے فیصلوں کی پیش گوئی کرنے کے عمل میں سب سے قابل اعتماد عوامل قانونی دستاویزات میں استعمال کی گئی زبان، موضوعات اور مقدمے کے متن میں بیان کردہ صورت ہائے احوال تھی۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق پچھلے اسٹڈیز میں عدالتی فیصلوں کی پیش گوئی کی بنیاد جرم کی نوعیت، یا پھر ہر جج کے اندازنظر اور پالیسی پوزیشن پر ہوتی تھی، تاہم یہ پہلی بار ہے جب عدالتی متن کا تجزیہ کرتے ہوئے ممکنہ فیصلوں کا اندازہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ویسلیس کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے عدالتی فیصلوں کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر آنے والے وقتوں میں خودکار مشینیں ان مقدمات کی تفصیلات کی بنیاد پر مستقبل میں ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کرسکیں گی۔

علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں متوقع بہتری کی بدولت وہ اپنے 'دماغ' سے بھی زیادہ کام لینے کی اہل ہوجائیں گی، اور صورت حال کا بہتر انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے فیصلے صادر کرسکیں گی۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فی الوقت اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ مشینیں وکلاء اور ججوں کا منصب سنبھال لیں گی البتہ وہ مقدمات کے رُخ کا تعین کرنے میں ضرور معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں