رانی باغ انتظامیہ کی غفلت سے تباہچڑیا گھر بھی اجڑگیا

ٹکٹوں اور پارکنگ فیس سے کروڑوں کی آمدنی کے باوجود کوئی توجہ نہیں دی جارہی

انتظامیہ کی عدم توجہی اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث رانی باغ میںجانوروں کے پنجرے خالی نظر آرہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

ٹاؤن قاسم آباد انتظامیہ کی عدم توجہی کے نتیجے میں چند سال قبل کروڑوں روپے کی لاگت سے ازسر نو تعمیرکیا جانے والا رانی باغ اور چڑیا گھر زبوں حالی کا شکار ہوگیا ہے۔

رانی باغ گھاس سے محروم ہورہا ہے تو انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر بھاری رشوت لیکر بغیر منصوبہ بندی کے مزید کیبن اور دکانیں قائم کر کے انہیں الاٹ کرنے کی وجہ سے باغ کاحسن ماند پڑھ رہا ہے، چڑیا گھر میں جانور بھی تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں 2006 میں میں ہونے والی موسلا دھار برسات کے بعد اجڑنے والے رانی باغ کی 2008 میں اُس وقت کی ضلعی حکومت نے 15 کروڑ روپے کی خطیر لاگت سے از سر نو تزئین و آرائش کی تھی اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے 22 نومبر 2008 کو اسکا افتتاح کیا تھا۔

افتتاح کے موقع پر رانی باغ کے تمام حصوں میں گھاس موجود تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کیاریوں میں خوبصورت پودے بھی لگائے تھے اوران پر کھلنے والے پھولوں کی وجہ سے رانی باغ ایک دلکش منظرپیش کرتا تھا، متصل چڑیا گھر میں 3 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے شیر، ہرن، شتر مرغ، لامبا، لنگور، سیاہ ہرن، زبیرا، پونی گھوڑے سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے مختلف اقسام کے 3 سو سے زائد قیمتی اور نایاب جانور و پرندے بھی موجود تھے۔




اس وقت تعلقہ قاسم آباد کے اصرار پررانی باغ اور چڑیاگھر کا نظم و نسق تعلقہ بلدیہ قاسم آباد کے حوالے کر دیا گیا تھاجبکہ رانی باغ اورچڑیاگھر کی تعریف سن کر سندھ بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد ہرروز رانی باغ اورچڑیا گھر دیکھنے کے لیے آتی تھی جس کے نتیجے میں رانی باغ اور چڑیاگھر سے ٹکٹوں کی فروخت کے ذریعے بلدیہ قاسم آباد کی مالی آمدنی میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوگیا تھا لیکن بلدیہ قاسم آباد نے اپنی تمام تر توجہ مال بنانے پر ہی مرکوز رکھی، جس کے تحت رانی باغ اور چڑیا گھرمیں داخلے کے لیے 2 الگ الگ انٹری ٹکٹ رکھنے کے علاوہ پارکنگ کی بھی الگ فیس رکھی گئی جس کے ذریعے سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی حاصل کرنے کے باوجود رانی باغ کے حسن کو برقراررکھنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں رانی باغ کے مختلف وسیع حصوں میں لگی گھاس غائب ہوگئی ہے اور وہاں صرف پتھریلی زمین ہی دکھائی دے رہی۔

جبکہ دوسری جانب رانی باغ کے مختلف حصوں میں بغیرکسی منصوبہ بندی کے مزید کیبن اور پختہ دکانیں قائم کردی گئی ہیں جبکہ اس کے متعلق ذرائع کاکہنا ہے کہ یہ دکانیں اورکیبن مبینہ طورپر بھاری رشوت لیکر الاٹ کیے گئے ہیں اور انہیں بنانے کاخرچہ بھی الاٹمنٹ حاصل کرنے والوں نے خود برداشت کیا ہے، چند سالوں کے دوران کئی جانور چل بسے اورکئی سال گزرجانے کے باوجود انتظامیہ دوبارا ان جانوروں کا انتظام نہیں کرسکی ہے جس کی وجہ سے یا تو ان جانوروں کے پنجرے خالی ہیں یا پھر مرنے والے ان نایاب جانوروں کے خالی ہونے والے پنجروں کو دیسی پالتو کبوتروں اور بکروں سے بھر دیاگیا ہے جوکہ چڑیا گھر کی حالت زار کی کہانی سنارہے ہیں، یہی نہیں بلدیہ قاسم آبادکی انتظامیہ نے چڑیا گھر کے ایک حصے کو کچرہ گھر میں تبدیل کردیا ہے تو ایک حصے میں خراب ہونے والے گاڑیوں کو بھی نمائش کے لیے کھڑا کردیا ہے جوکہ قاسم آباد بلدیاتی انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ چڑارہی ہیں۔
Load Next Story