ملک میں متفرق حادثات انسانی غفلت کا شاخسانہ

وفاقی وزیر ریلوے نے ٹرین حادثے کی تحقیقات کے لیے فیڈرل انسپکٹر آف ریلویز کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے


Editorial November 04, 2016

ملک کے مختلف علاقوں میں متواتر مختلف قسم کے حادثات پیش آنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں جس میں زیادہ تر حادثات انسانی غفلت کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ جمعرات کو بھی کراچی میں صبح سویرے دو ٹرینوں کے تصادم کے باعث 21 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ 60 سے زائد زخمی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

کراچی کے علاقے لانڈھی میں جمعہ گوٹھ اسٹیشن پر فرید ایکسپریس کھڑی تھی کہ پیچھے سے تیز رفتاری کے ساتھ آنے والی زکریا ایکسپریس نے زور دار ٹکر ماری، جس کے نتیجے میں فرید ایکسپریس کی 3بوگیاں پچک گئیں اور زکریا ایکسپریس کے انجن کو نقصان پہنچا۔ ریلوے ذرایع کا کہنا ہے کہ کراچی ٹرین حادثہ زکریا ایکسپریس کے ڈرائیور کی غفلت کا نتیجہ ہے، زکریا ایکسپریس کے ڈرائیور نے سگنل کو نظر انداز کیا تھا۔

وفاقی وزیر ریلوے نے ٹرین حادثے کی تحقیقات کے لیے فیڈرل انسپکٹر آف ریلویز کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی غفلت کے باعث ہونے والے ان حادثات کی تلافی کوئی بھی تحقیقاتی کمیٹی کرسکتی ہے؟ کیا آج تک ماضی میں ہونے والے حادثات پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹیوں نے کوئی امید افزا کام کیا ہے؟ کیا تحقیقاتی کمیٹیوں کی رپورٹ اور سفارشات پر عملدرآمد کرتے ہوئے حادثات سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم اور لائحہ عمل تیار کیا گیا؟ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر حادثے کے بعد ایک ہلچل تو محسوس ہوتی ہے لیکن وقت کی گرد ہر معاملے کو دبا دیتی ہے۔

ماضی قریب میں بھی ریلوے کے کئی حادثات رونما ہوئے جس میں انسانی غلطیاں اور غفلت ہی کارفرما تھی۔ 2 جولائی 2015 ء کو ملٹری اسپیشل ٹرین کو پل ٹوٹ جانے کے باعث جو حادثہ پیش آیا وہ بھی اوور اسپیڈنگ اور پل کی ناقص تعمیر کے باعث تھا، اس حادثے میں 19 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی طرح 17 نومبر 2015ء کو بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پٹری سے اترنے کے باعث 15 افراد جاں بحق اور ستمبر 2016 ء میں ملتان میں ریل اور مال گاڑی آپس میں ٹکرانے سے 6 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

یہ محض ماضی قریب کے چند بڑے واقعات ہیں جب کہ ریلوے میں درجنوں حادثات اس سے پہلے بھی ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ ٹرین کی آمدو رفت کے لیے مخصوص ٹریک اور ٹائم ٹیبل پہلے سے طے ہوتا ہے جس کے بعد کوئی بھی حادثہ اتفاق ہی ہوسکتا ہے، لیکن مذکورہ واقعات میں انسانی غلطیوں کے پیش نظر ان حادثات کو اتفاقیہ نہیں بلکہ سنگین غفلت قرار دیا جانا چاہیے۔ ٹرین حادثات سے قطع نظر ٹریفک حادثات کی شرح ملک میں بڑھتی جارہی ہے کیونکہ یہاں بے ہنگم ٹریفک کے ساتھ قانون اور ضوابط سے لاعلم ڈرائیوروں کی بھرمار ہے۔

گزشتہ روز ہی کراچی میں دو بڑے ٹریفک حادثات پیش آئے۔ ایک حادثے میں قیوم آباد پر پولیس کے ٹرک نے موٹر سائیکل پر سوار زیر تربیت 2 اہلکار کچل دیے جب کہ دوسرا حادثہ منگھوپیر میں پیش آیا جہاں ہمدرد یونیورسٹی کی بس نے سائیکل سوار کو کچل دیا جب کہ بس بے قابو ہوکر الٹنے سے یونیورسٹی کے 8 طالب علم زخمی ہوگئے۔ اسی طرز کا حادثہ اسلام آباد، جی الیون میں پیش آیا، جس میں یونیورسٹی کی بس کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار جاں بحق جب کہ 30 طالبات زخمی ہوگئیں۔

مذکورہ واقعہ بھی بس کی تیز رفتاری اور ڈرائیور کے کنٹرول سے باہر ہونے کے باعث پیش آیا۔ سگنل بند ہونے کے باوجود یونیورسٹی کی تیز رفتار بس دیگر گاڑیوں کو بچاتے ہوئے موٹر سائیکل سوار کو کچل کر ٹریفک سگنل پر لگے بجلی کے کھمبے سے ٹکرانے کے بعد گرین بیلٹ پر چڑھ گئی۔ لاہور میں دھند کے باعث مختلف ٹریفک حادثات میں 15 افراد جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ مشاہدہ میں یہی بات آئی ہے کہ اکثر ٹریفک حادثات ڈرائیوروں کی غلطیوں اور تیزرفتاری کے باعث پیش آتے ہیں۔

پاکستان میں ٹریفک کے قوانین تو موجود ہیں لیکن رٹ نہ ہونے کے باعث عملدرآمد نظر نہیں آتا نیز ٹریفک پولیس کی فرائض میں کوتاہی اور عوام کی قانون توڑنے کی روش حالات کو مزید سنگین بنارہی ہے۔ صرف ٹریفک پولیس پر کیا موقوف ہر ادارہ ہی اپنی ذمے داریوں سے فرار پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ گڈانی شپ یارڈ میں کٹائی کے لیے لنگر انداز ناکارہ بحری جہاز میں لگنے والی آگ پر 2 روز بعد بھی قابو نہ پایا جاسکا، اب تک 18 مزدور جاں بحق اور 58 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جب کہ مزدور رہنماؤں کے مطابق جہاز کے اندر اب بھی 200 مزدور پھنسے ہوئے ہیں۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ جہاز کے اندر تیل کے ٹینک کو کلین کیے بغیر جہاز کی کٹائی کا کام شروع کیا گیا جس سے یہ خونی حادثہ رونما ہوا۔ واضح رہے گڈانی شپ بریکنگ پر گزشتہ 2 سال سے کوئی بھی کیمیکل انسپکٹر تعینات نہیں ہے، بحری جہازوں کی توڑ پھوڑ سے قبل اس طویل عرصے میں نہ تو حکومتی عمال کو یہ اسامی پر کرنے کا خیال آیا، نہ ہی مزدور تنظیموں نے اس کا مطالبہ کیا، کیمیکل انسپکٹر کی تعیناتی سے یہ حادثہ رونما ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔ اگر تمام تر حکومتیں، ادارے اور عوام اپنا قبلہ درست کریں، اپنی ذمے داریوں کا ادراک اور قوانین کی پاسداری کریں تو انسانی غلطیوں کے باعث پیش آنے والے ان حادثات کی روک تھام ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں