کلاس رومز میں واپسی
مقبوضہ وادی میں ایک اور اسکول کو جلا دیا گیا جس سے گزشتہ دو ماہ میں جلائے جانے والے اسکولوں کی تعداد25 ہو گئی ہے
مقبوضہ وادی میں ایک اور اسکول کو جلا دیا گیا جس سے گزشتہ دو ماہ میں جلائے جانے والے اسکولوں کی تعداد25 ہو گئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متشدد گروپوں کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ چاہتے ہیں لڑکے پتھراؤ کے لیے واپس آئیں لیکن اس سے نوجوانوں کا کیا فائدہ ہو گا؟ میں حال ہی میں سرینگر گیا تھا اور پتھراؤ کرنے والے بعض لڑکوں سے بات کی تھی۔ انھوں نے کہا وہ آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں اور بھارت کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔
میں نے انھیں بتایا کہ وہ کیسے یہ توقع کرتے ہیں کہ بھارت اپنی سرحد پر ایک اور اسلامی ریاست کے قیام کی اجازت دیدے گا؟ ان کا جواب تھا کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے ہمارا مسئلہ نہیں۔ لیکن ان کے مطالبے میں تقسیم پر ایک سوال اٹھتا ہے۔ جب برطانیہ نے برصغیر کی تقسیم کی تو ریاستوں کے حکمرانوں کو یہ اختیار دیدیا گیا کہ وہ دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان جس کے ساتھ چاہیں شامل ہو جائیں۔
سرینگر کا مہاراجہ آزاد رہنا چاہتا تھا لیکن جب بے قاعدہ اور باقاعدہ فوجی بارہ مولا پہنچ گئے تو مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کر لیا لیکن بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے وعدہ کیا کہ جونہی ریاست کے حالات معمول پر آئیں گے وہ استصواب کرا دیں گے۔
کشمیری نوجوانوں کو ممکن ہے ان ساری باتوں کا علم نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ وادی کو 90 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لہٰذا ان کی طرف سے اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش عین فطری ہے۔ میں نے لڑکوں کو بتایا کہ بھارت کی سرحدوں میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت پارلیمنٹ سے لینا پڑے گی لیکن میرے اس موقف نے بظاہر انھیں مطمئن نہیں کیا۔
سری نگر کے عین وسط میں بعض پاکستانی جھنڈے ہر روز لہرائے جا رہے ہیں لیکن اس کا مقصد نئی دہلی حکومت کو زچ کرنا ہے وہ جو چاہتے ہیں وہ اپنا ملک چاہتے ہیں جو کہ ظاہر ہے اسلامی ہو گا۔ نئی دہلی حکومت اس مسئلے پر جاگ اٹھی ہے اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سری نگر پہنچ گئے۔ بظاہر جو انھوں نے دیکھا انھیں پسند نہیں آیا۔ نئی دہلی وادی میں مزید فوجیں بھیجنا چاہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حریت کانفرنس کے لیڈروں نے بھی وزیر داخلہ کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ کس بنیاد پر ملاقات کرتے۔ ریاست کے سابقہ وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے جو نیشنل کانفرنس کے لیڈر ہیں کہا ہے کہ بھارتی رہنماؤں کو حریت لیڈروں کے ساتھ ملاقات کرنی چاہیے نیز پاکستان کے ساتھ مذاکرات بھی کرنے چاہئیں۔ آخر یہ باتیں جو اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد کیوں کر رہے ہیں جب وہ اور ان کا بیٹا عمر عبداللہ اقتدار میں تھے تب انھوں نے اس طرف غور کیوں نہیں کیا۔
بھارتی پارلیمنٹ کو اس ساری صورت حال کا نہایت تفصیل اور باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے کیونکہ وادی میں جو ہو رہا ہے اس سے ہماری پارلیمنٹ کماحقہ آگاہ نہیں۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں سوال اٹھتا ہے لیکن اب صورت حال بہت بگڑ چکی ہے، جب مقبول عام کشمیری رہنما شیخ عبداللہ زندہ تھے تو حالات مختلف تھے۔ بھارت کے ساتھ انھی نے وادی کا الحاق کیا تھا بلکہ انھوں نے تو کشمیری ملیشیا بھی تیار کر لی تھی تاکہ بارہ مولا میں حملہ آوروں سے مقابلہ کیا جائے۔
اگر شیخ عبداللہ کشمیری رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے تھے تو ان کے پیش نظر یہ سوال تھا کہ آیا وہ سیکولر بھارت کے ساتھ شامل ہوں یا اسلامی پاکستان کے ساتھ۔ تو محبوبہ مفتی کی حکومت جو آزادانہ انتخابی عمل کے ذریعے برسراقتدار آئی تھی وہ کیوں عوام کو اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکی۔ اس کا کہنا تھا کہ محض تھوڑے سے شرپسند مصیبت پیدا کر رہے ہیں جب کہ اکثریت خاموش ہے۔ نئی دہلی حکومت کو اس بات کا احساس نہیں کہ نریندر مودی نے شیخ عبداللہ کے اس چارٹر کو کہ ریاست کو چار محکموں کے علاوہ باقی تمام معاملات میں مکمل خود مختاری دی جائے گی یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔
کشمیر کے الحاق کے موقع پر پنڈت نہرو نے جتنے وعدے شیخ عبداللہ سے کیے تھے نریندرا مودی نے ان سب کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اب وادی پر صرف نئی دہلی حکومت کی مرضی ہی چلتی ہے۔ وادی کے عوام کی مرضی اور حقوق کا قطعاً کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ دہلی کو احساس کرنا چاہیے کہ سری نگر اس سے قریب آنے کے بجائے اور زیادہ دور جا رہا ہے۔ شیخ عبداللہ نے لوگوں کی امیدوں کو زندہ رکھا ہوا تھا اور وہ نئی دہلی حکومت کو خواہ مخواہ کی مداخلت کی قطعاً اجازت نہیں دیتے تھے۔
امور خارجہ' دفاع اور مواصلات مرکزی حکومت کے پاس تھے۔ محبوبہ مفتی کی حکومت بھی ایسا کر سکتی تھی لیکن چونکہ وہ بی جے پی کی پشت پناہی سے برسراقتدار آئی ہیں لہذا وہ نئی دہلی کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ نئی دہلی کو چاہیے کہ وہ محبوبہ مفتی کو ممکنہ حد تک آزادی دے لیکن چونکہ بی جے پی حکومت کی طنابیں آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہیں لہٰذا وہ کشمیر کو دوسری بھارتی ریاستوں سے مختاف خیال نہیں کرتی۔
یہ پارٹی وادی کی خود مختار حیثیت کے خلاف ہے جب کہ پنڈت نہرو کا فلسفہ یہ تھا کہ ملک کے بعض علاقوں کو اپنا آئین تیار کرنے اور علیحدہ جھنڈا رکھنے کا حق ہونا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ شیخ عبداللہ نے بھارت کے ساتھ الحاق قبول کیا تھا۔ ریاستی آئین ساز اسمبلی نے سب سے پہلا کام الحاق کی منظوری دینے کا کیا اور یہ کہا کہ اس کام کو چیلنج نہیں کیا جائے گا لیکن یہ بات صرف کاغذ پر لکھی رہ گئی ہے اور وادی کے نوجوانوں نے اپنی الگ راہ اختیار کر لی ہے۔
اسکولوں کو آگ لگا کر نوجوان کشمیری اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن کیا وہ ان جلائے جانے والوں اسکولوں کا دورہ کر کے یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تو تعلیم اور تربیت کے ادارے ہیں اب انھیں تباہ کر کے کوئلوں اور راکھ میں تبدیل کر کے تعلیم کی کیا خدمت ہو سکتی ہے۔
یہ ایک الم ناک منظر ہے جس سے طلبا کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ انھیں احساس ہونا چاہیے کہ تعلیم کے سوا ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ بھارت بہت وسیع ملک ہے جس میں نوجوانوں کے لیے بے شمار مواقع ہیں اور تعلیم وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے نوجوان اچھی سے اچھی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پتھراؤ کے ذریعے انھیں کوئی روز گار نہیں مل سکتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)