تحریک انصاف کا چیلنج اور انجام
عمران خان نے تقریباً20/25 ایام سے قبل اسلام آباد کی بندش کا اعلان کیا تھا
عمران خان نے تقریباً20/25 ایام سے قبل اسلام آباد کی بندش کا اعلان کیا تھا۔ ظاہر ہے حکومت کو بھی جوابی کارروائی کے کافی مواقعے مل گئے، اسی لیے 21 اکتوبر کے کالم میں واضح طور پر میں نے حکومت کے سخت رویے کی پیش گوئی کی تھی، سو وہ 27 اکتوبر کو ہی نواز لیگ نے شروع کردیا۔ پنجاب حکومت نے سختی کی بھی حد کردی، بجائے اس کے کہ عمران خان اسلام آباد بند کرواتے، یہ کام خود صاحب اقتدار پارٹی نے شروع کردیا۔
اسلام آباد اور پنڈی کو کنٹینر سٹی بنادیا اور اسی روز زبردست آنسو گیس دونوں شہروں میں پھینکی گئی۔ 30 اکتوبر کو لال حویلی گھیراؤ میں رہی اور عمران خان بنی گالا میں سوئے اور ان کے شیدائی گھر سے باہر سڑک پر رات گزارتے رہے۔ ظاہر ہے عمران خان کوئی سوشلسٹ لیڈر تو نہیں جو باہر آکر ان کارکنوں کے ساتھ رات گزارتے۔ ویسے بھی سیکیورٹی رسک تھا، اس لیے کارکنوں نے ان کو واپس گھر بھیج دیا ہوگا۔
خیر اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے کارکنوں کا یہ پہلا سیاسی امتحان تھا، جس میں وہ کامیاب رہے اور شہر بہ شہر مزاحمت ہوتی رہی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ البتہ ایک متنازعہ خبر پر پرویز رشید کو فارغ کردیا گیا، وہ ماضی میں کامریڈوں کے ساتھی رہ چکے ہیں اور رقم بنانے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ بہرصورت تھے تو انھی لوگوں کے کمزور ساتھی اور عوام سے کٹ کر وہ وقت گزارتے رہے۔ سو یہ چیپٹر بھی تمام ہوا۔
اس سے بھی اہم چیپٹر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اٹک تک آئے تو ان کی گاڑی کو ہارون آباد کے پل سے قبل ہی روک دیا گیا، جیسے وہ کسی اور ملک کے باشندے ہیں اور زبردستی پنجاب میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ عجیب منطق تھی۔ پاکستان کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بھی اجنبی بنا رہا۔ نفاق کا پہلا بیج یوں بویا گیا کہ دنیا ہوئی حیران اور خٹک صاحب کو رات بسر کرنے کے لیے سڑک ہی ملی۔ پروٹوکول تو دور کی بات عام انسانی اصولوں کی پابندی بھی نہ کی گئی۔
پل کے اردگرد اتنی شیلنگ کی گئی کہ میدان میں جو جھاڑیاں تھیں ان میں بھی آگ لگ گئی اور یہ شیلنگ اتنی شدید تھی کہ ہوا کے رخ کا بدلنا تھا کہ شیل پھینکنے والوں کو بھی اپنی آنکھیں دھونی پڑیں۔ تقریباً تین گھنٹے کی جدوجہد اور شیلنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے پرویز خٹک کا قافلہ پنجاب میں داخل ہوگیا۔یہ ہزاروں لوگوں پر مشتمل جانباز کارکنوں کا اژدھام تھا اور وفاقی حکومت کی حکمت عملی۔ تقریباً 9:30 بجے 31 اکتوبر کو یہ واقعہ رونما ہوا۔ یہ واقعہ پی ایم ایل این کے لیے ایک بہت بڑے صدمے کا مقام تھا کیونکہ فضا میں تین ہیلی کاپٹر بھی پولیس کے ہمراہ نگرانی کر رہے تھے۔
پرویز خٹک کا قافلہ کنٹینر ہٹا کر اور ریت کا ملبہ ہٹا کر آگے بڑھا جس سے یکم نومبر کی صورت حال مزید عمران خان کے حق میں ہوگئی۔ ویسے تو پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کے چند لیڈران نواز شریف کے خلاف زبانی کلامی گفتگو کر رہے ہیں، مگر یہ باتیں محض بیان بازی تک محدود ہیں، البتہ علامہ طاہر القادری صاحب کے بیانات سنجیدہ ہیں اور وہ واقعی عمران خان کی تحریک میں اپنے کارکنان کو شرکت کے لیے کسی حد تک کہہ رہے ہیں، مگر بقول ان کے ابھی ان کی آمد متوقع نہیں ہے۔
بہرصورت کے پی کے اور پنجاب کی سرحد پر جو واقعہ ہوا وہ واقعی پاکستان کے وجود کے لیے خوشگوار نہ تھا، اگر حالات بگڑتے تو خدانخواستہ یہ دو صوبوں کے مابین جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔ رات 12 بجے کے قریب پی ٹی آئی کے پی کے کا قافلہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گیا اور ان کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت سخت کارروائی کے لیے تیاری کر رہی ہے گویا ایسا لگتا ہے کہ پوری رات قافلے آتے اور جاتے رہیں گے۔
ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی آواز پی ٹی آئی کے حق میں بلند کی۔ پی ٹی آئی نے جدوجہد سے یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی پی ایم ایل این کے مدمقابل کی پارٹی ہے اور صورتحال اس طرف جارہی ہے جو اسلام آباد پر پورا کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس طرح (ن) لیگ کی عالمی طور پر پوزیشن کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
جب 31 اکتوبر 12 بجے کے قریب صورتحال اس قدر کشیدہ ہے اور پی ٹی آئی کے کارکن اتنے پرجوش ہیں تو صبح سویرے صورت حال کس قدر ولولہ انگیز ہوگی، کارکنوں کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے 1968 کے وہ کارکن دوبارہ نکل آئے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کو تیار تھے، لہٰذا ایسے کارکنوں کو شکست دینا آسان نہ ہوگا۔ مگر ان کارکنوں کے دل کا اندازہ عمران خان کو نہ تھا کیونکہ وہ بنی گالا میں شب گزار رہے تھے اور کارکن ویرانے اور جنگل میں۔ یہی فرق ہوتا ہے انقلابی رہنما اور آسودہ حال لیڈران کا۔
لیڈروں نے اس قدر بلند حوصلہ کیا کہ وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنے گھر سے نکلے اور شب برہان انٹرچینج کے اردگرد گزاری، اس میں سب سے زیادہ تضحیک پرویز خٹک کی ہوئی جوکے پی کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کو پروٹوکول تو دور کی بات ایک سیاستدان کی عزت بھی نہ دی گئی۔ پوری 31 اکتوبر کی رات یوں ہی گزری اور سرفروشی میں ان کا قافلہ رہا، مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ یکم کی صبح کو عمران خان سیاست کا یو ٹرن لے لیں گے۔
ایسے موقع پر مجھے لینن کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ محنت کش کی لیڈر شپ پر یقین کرنا بھی بہتر ہے چونکہ موجودہ تحریک میں متوسط طبقات کے نوجوان موجود تھے اور وہ دوسروں کے لیے قربانیاں دے رہے تھے ان کو ایک زک لگ گئی اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ لوگ تحریک سے منحرف ہوجائیں اور کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ عمران خان کی اس آواز پر شیخ رشید نے بہت زیادہ قربانی دی اور ان کے عمل سے یہ لگتا ہے کہ ان کو بہت زیادہ صدمہ اٹھانا پڑا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تحریکوں میں وہ لوگ آتے ہیں جو عام طریقوں سے تبدیلی کی امید نہیں مانتے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے تھی کہ عمران خان کا مقصد موجودہ حکومت کا خاتمہ تھا مگر اپنی حکومت کا کوئی منشور نہ تھا کہ وہ آکر کس قسم کی حکومت قائم کریں گے۔ ان کی تقریر میں اس بات کا بار بار اعلان کیا گیا ہے کہ برطانیہ کا خزانہ اتنا اہم اور زیادہ ہے کہ دنیا کے 50 مسلم ممالک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہٰذا عام آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ برطانیہ کا خزانہ ہند پر قبضہ کرنے کے بعد بلند ہوا۔
100 برس کی حکمرانی اور ان دنوں کی یاد جب یہ مشہور تھا کہ برطانیہ کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتا لہٰذا اب تک عمران خان ایک غیر جانبدار ٹی او آر پر پانامہ لیکس کا فیصلہ کیونکر مان لیں گے اور اگر عدلیہ کے ٹی او آرز کو قبول کرنا تھا تو تحریک کو اس قدر آگے کیونکر بڑھایا۔ مانا کہ اس تحریک میں خون کے نذرانے کو زیادہ نہ پیش کیا، محض ایک چند یوم کا بچہ دم گھٹنے سے جان سے گیا، ہزاروں جوان لڑکے سیکڑوں عورتیں اس تحریک میں پھنس گئے، خواتین آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں کھاتی رہیں۔ تو 2 نومبر کو کس بات پر یوم تشکر منایا جا رہا ہے؟
واقعی اگر یوم تشکر منانا تھا تو ضرور مناتے، اگر کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں نہ ہوتا جب کہ ایسے شواہد عیاں نہیں ہیں، لہٰذا صورت حال اب ایسی ہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی کی آواز پر عوام کا لبیک کہنا مشکل نظر آتا ہے۔ البتہ شیخ رشید کا عوام الناس میں مقبول ہونا واضح نظر آتا ہے بقیہ پارٹیاں بھی اپنا حجم کھو بیٹھی ہیں کیونکہ وہ محض آوازوں کی سیاست پر یقین رکھتی ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے زیادہ کارکن گومگو کی کیفیت میں ہیں اور افسردہ ہیں حزب مخالف کا یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی کوئی بڑا شو کرنے کے قابل نہیں رہ چکی تھی۔
اسلام آباد اور پنڈی کو کنٹینر سٹی بنادیا اور اسی روز زبردست آنسو گیس دونوں شہروں میں پھینکی گئی۔ 30 اکتوبر کو لال حویلی گھیراؤ میں رہی اور عمران خان بنی گالا میں سوئے اور ان کے شیدائی گھر سے باہر سڑک پر رات گزارتے رہے۔ ظاہر ہے عمران خان کوئی سوشلسٹ لیڈر تو نہیں جو باہر آکر ان کارکنوں کے ساتھ رات گزارتے۔ ویسے بھی سیکیورٹی رسک تھا، اس لیے کارکنوں نے ان کو واپس گھر بھیج دیا ہوگا۔
خیر اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے کارکنوں کا یہ پہلا سیاسی امتحان تھا، جس میں وہ کامیاب رہے اور شہر بہ شہر مزاحمت ہوتی رہی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ البتہ ایک متنازعہ خبر پر پرویز رشید کو فارغ کردیا گیا، وہ ماضی میں کامریڈوں کے ساتھی رہ چکے ہیں اور رقم بنانے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ بہرصورت تھے تو انھی لوگوں کے کمزور ساتھی اور عوام سے کٹ کر وہ وقت گزارتے رہے۔ سو یہ چیپٹر بھی تمام ہوا۔
اس سے بھی اہم چیپٹر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اٹک تک آئے تو ان کی گاڑی کو ہارون آباد کے پل سے قبل ہی روک دیا گیا، جیسے وہ کسی اور ملک کے باشندے ہیں اور زبردستی پنجاب میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ عجیب منطق تھی۔ پاکستان کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بھی اجنبی بنا رہا۔ نفاق کا پہلا بیج یوں بویا گیا کہ دنیا ہوئی حیران اور خٹک صاحب کو رات بسر کرنے کے لیے سڑک ہی ملی۔ پروٹوکول تو دور کی بات عام انسانی اصولوں کی پابندی بھی نہ کی گئی۔
پل کے اردگرد اتنی شیلنگ کی گئی کہ میدان میں جو جھاڑیاں تھیں ان میں بھی آگ لگ گئی اور یہ شیلنگ اتنی شدید تھی کہ ہوا کے رخ کا بدلنا تھا کہ شیل پھینکنے والوں کو بھی اپنی آنکھیں دھونی پڑیں۔ تقریباً تین گھنٹے کی جدوجہد اور شیلنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے پرویز خٹک کا قافلہ پنجاب میں داخل ہوگیا۔یہ ہزاروں لوگوں پر مشتمل جانباز کارکنوں کا اژدھام تھا اور وفاقی حکومت کی حکمت عملی۔ تقریباً 9:30 بجے 31 اکتوبر کو یہ واقعہ رونما ہوا۔ یہ واقعہ پی ایم ایل این کے لیے ایک بہت بڑے صدمے کا مقام تھا کیونکہ فضا میں تین ہیلی کاپٹر بھی پولیس کے ہمراہ نگرانی کر رہے تھے۔
پرویز خٹک کا قافلہ کنٹینر ہٹا کر اور ریت کا ملبہ ہٹا کر آگے بڑھا جس سے یکم نومبر کی صورت حال مزید عمران خان کے حق میں ہوگئی۔ ویسے تو پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کے چند لیڈران نواز شریف کے خلاف زبانی کلامی گفتگو کر رہے ہیں، مگر یہ باتیں محض بیان بازی تک محدود ہیں، البتہ علامہ طاہر القادری صاحب کے بیانات سنجیدہ ہیں اور وہ واقعی عمران خان کی تحریک میں اپنے کارکنان کو شرکت کے لیے کسی حد تک کہہ رہے ہیں، مگر بقول ان کے ابھی ان کی آمد متوقع نہیں ہے۔
بہرصورت کے پی کے اور پنجاب کی سرحد پر جو واقعہ ہوا وہ واقعی پاکستان کے وجود کے لیے خوشگوار نہ تھا، اگر حالات بگڑتے تو خدانخواستہ یہ دو صوبوں کے مابین جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو رہی تھی۔ رات 12 بجے کے قریب پی ٹی آئی کے پی کے کا قافلہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گیا اور ان کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت سخت کارروائی کے لیے تیاری کر رہی ہے گویا ایسا لگتا ہے کہ پوری رات قافلے آتے اور جاتے رہیں گے۔
ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی آواز پی ٹی آئی کے حق میں بلند کی۔ پی ٹی آئی نے جدوجہد سے یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی پی ایم ایل این کے مدمقابل کی پارٹی ہے اور صورتحال اس طرف جارہی ہے جو اسلام آباد پر پورا کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس طرح (ن) لیگ کی عالمی طور پر پوزیشن کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
جب 31 اکتوبر 12 بجے کے قریب صورتحال اس قدر کشیدہ ہے اور پی ٹی آئی کے کارکن اتنے پرجوش ہیں تو صبح سویرے صورت حال کس قدر ولولہ انگیز ہوگی، کارکنوں کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے 1968 کے وہ کارکن دوبارہ نکل آئے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کو تیار تھے، لہٰذا ایسے کارکنوں کو شکست دینا آسان نہ ہوگا۔ مگر ان کارکنوں کے دل کا اندازہ عمران خان کو نہ تھا کیونکہ وہ بنی گالا میں شب گزار رہے تھے اور کارکن ویرانے اور جنگل میں۔ یہی فرق ہوتا ہے انقلابی رہنما اور آسودہ حال لیڈران کا۔
لیڈروں نے اس قدر بلند حوصلہ کیا کہ وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنے گھر سے نکلے اور شب برہان انٹرچینج کے اردگرد گزاری، اس میں سب سے زیادہ تضحیک پرویز خٹک کی ہوئی جوکے پی کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کو پروٹوکول تو دور کی بات ایک سیاستدان کی عزت بھی نہ دی گئی۔ پوری 31 اکتوبر کی رات یوں ہی گزری اور سرفروشی میں ان کا قافلہ رہا، مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ یکم کی صبح کو عمران خان سیاست کا یو ٹرن لے لیں گے۔
ایسے موقع پر مجھے لینن کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ محنت کش کی لیڈر شپ پر یقین کرنا بھی بہتر ہے چونکہ موجودہ تحریک میں متوسط طبقات کے نوجوان موجود تھے اور وہ دوسروں کے لیے قربانیاں دے رہے تھے ان کو ایک زک لگ گئی اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ لوگ تحریک سے منحرف ہوجائیں اور کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔ عمران خان کی اس آواز پر شیخ رشید نے بہت زیادہ قربانی دی اور ان کے عمل سے یہ لگتا ہے کہ ان کو بہت زیادہ صدمہ اٹھانا پڑا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تحریکوں میں وہ لوگ آتے ہیں جو عام طریقوں سے تبدیلی کی امید نہیں مانتے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے تھی کہ عمران خان کا مقصد موجودہ حکومت کا خاتمہ تھا مگر اپنی حکومت کا کوئی منشور نہ تھا کہ وہ آکر کس قسم کی حکومت قائم کریں گے۔ ان کی تقریر میں اس بات کا بار بار اعلان کیا گیا ہے کہ برطانیہ کا خزانہ اتنا اہم اور زیادہ ہے کہ دنیا کے 50 مسلم ممالک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہٰذا عام آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ برطانیہ کا خزانہ ہند پر قبضہ کرنے کے بعد بلند ہوا۔
100 برس کی حکمرانی اور ان دنوں کی یاد جب یہ مشہور تھا کہ برطانیہ کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتا لہٰذا اب تک عمران خان ایک غیر جانبدار ٹی او آر پر پانامہ لیکس کا فیصلہ کیونکر مان لیں گے اور اگر عدلیہ کے ٹی او آرز کو قبول کرنا تھا تو تحریک کو اس قدر آگے کیونکر بڑھایا۔ مانا کہ اس تحریک میں خون کے نذرانے کو زیادہ نہ پیش کیا، محض ایک چند یوم کا بچہ دم گھٹنے سے جان سے گیا، ہزاروں جوان لڑکے سیکڑوں عورتیں اس تحریک میں پھنس گئے، خواتین آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں کھاتی رہیں۔ تو 2 نومبر کو کس بات پر یوم تشکر منایا جا رہا ہے؟
واقعی اگر یوم تشکر منانا تھا تو ضرور مناتے، اگر کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں نہ ہوتا جب کہ ایسے شواہد عیاں نہیں ہیں، لہٰذا صورت حال اب ایسی ہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی کی آواز پر عوام کا لبیک کہنا مشکل نظر آتا ہے۔ البتہ شیخ رشید کا عوام الناس میں مقبول ہونا واضح نظر آتا ہے بقیہ پارٹیاں بھی اپنا حجم کھو بیٹھی ہیں کیونکہ وہ محض آوازوں کی سیاست پر یقین رکھتی ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے زیادہ کارکن گومگو کی کیفیت میں ہیں اور افسردہ ہیں حزب مخالف کا یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی کوئی بڑا شو کرنے کے قابل نہیں رہ چکی تھی۔