پانچ خوش گوار دن
بھارت کی جیوری کے سربراہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جب کہ پاکستانی جیوری کے سربراہ محترم مشتاق احمد یوسفی قرار پائے
دوحہ (قطر) میں پانچ خوش گوار دن گزار کر آج ہی لوٹا ہوں جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم ''ریگستان میں بہار'' میں عرض کیا تھا کہ اس شہر نما ملک میں میرا آنا جانا گزشتہ تقریباً تیس برس سے ہے اور یہاں گزارے ہوئے دنوں کی یادیں معیار اور تعداد دونوں اعتبار سے ایک قیمتی سرمایہ ہیں برادرم عزیز عدیل اکبر کی تنظیم کے ترتیب دیے گئے دو پروگراموں سے قطع نظر باقی کے تمام دورے مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کی وساطت سے ہی ہوئے جن میں سے دو اس حوالے سے اہم اور نمایاں ہیں کہ 2001ء میں بطور شاعر اس مجلس نے میرے لیے جشن کا اہتمام کیا اور اب 2016ء میں بطور نثر نگار مجھے عالمی ادبی ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔
ایک عزیز اور بے تکلف دوست نے اس صورت حال پر یوں بھی تبصرہ کیا کہ ''جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی'' لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان سے باہر جتنی بھی ادبی تنظیمیں قائم ہوئی ہیں ان میں سب سے زیادہ تسلسل' وقار اور عمدگی کے ساتھ کام کرنے والوں میں اس مجلس کا نمبر سب سے پہلا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مختلف اوقات میں اردو کی مختلف بستیوں میں چند بہت عمدہ تقریبات اور ایوارڈ وغیرہ ہوئے مگر کہیں بھی یہ سلسلہ اس باقاعدگی کے ساتھ نہیں چل پایا اس کی بنیاد ایک ایسے ''دیوانے'' ملک مصیب الرحمن نے رکھی جو سرتاپا ادب کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا اور اپنی وفات 2006ء تک مجلس کے سب معاملات اسی کا درد سر تھے۔
موجودہ چیئرمین محمد عتیق نے جو دوحہ بینک کے افسر اعلیٰ تھے اس دور میں ان کی بھرپور اعانت کی لیکن عملی طور پر سارے انتظامات ملک مصیب ہی کرتے تھے البتہ گزشتہ دس برسوں میں محمد عتیق صاحب نے اس کے کام کو جس عمدگی' مہارت' وقار اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھایا ہے ایک اعتبار سے وہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ یہ معاملات ایک انگریزی محاورے کے مطابق ان کا ''چائے کا کپ'' نہیں تھے۔
کچھ مقامی ادب دوستوں نے وقتاً فوقتاً نے ان کی معاونت کی جن میں فرقان پراچہ' امین موتی والا' جاوید ہمایوں' فہیم الدین' فرتاش سید' اعجاز حیدر اور شوکت علی ناز وغیرہ کے نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں جب کہ پاکستان چیپٹر کے ذمے دار اور رابطہ کار ملک داؤد احمد نے اپنے فرنٹ سے انھیں ہر ممکن آسانی مہیا کی۔ جہاں تک عالمی ادبی ایوارڈ کا تعلق ہے یہ ہر سال دو ادیبوں کو دیا جاتا ہے جن میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے اور دوسرے کا بھارت سے ہوتا ہے اور ان کا چناؤ دونوں ملکوں میں قائم جیوریاں اپنے طور پر کرتی ہیں۔
بھارت کی جیوری کے سربراہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جب کہ پاکستانی جیوری کے سربراہ محترم مشتاق احمد یوسفی قرار پائے۔ نارنگ صاحب بدستور یہ ذمے داری نبھا رہے ہیں (سوائے اس ایک برس کے جب خود ان کو اس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا) البتہ پاکستانی جیوری کے تین سربراہوں میں سے مشتاق احمد یوسفی صاحب چند برس قبل اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اس عہدے سے دست کش ہو گئے ان کے بعد کچھ عرصے کے لیے یہ ذمے داری مختار مسعود صاحب نے نبھائی مگر ان کی صحت کے معاملات بھی تسلسل کی راہ میں دیوار بن گئے جب کہ ان کے بعد آنے والے انتظار حسین چند ماہ قبل انتقال فرما گئے اور اب یہ ذمے داری ڈاکٹر خورشید رضوی نبھا رہے ہیں۔
ایک عرصے تک مہمانوں کو شیزان ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا تھا اور مشاعرے کی تقریب شیرٹن ہوٹل کے وسیع و عریض اور خوب صورت ہال میں ہوا کرتی تھی مگر مختلف وجوہات کی بنا پر اس برس دونوں وینیو ہی تبدیل ہو گئے رہائش کا معاملہ تو مناسب رہا مگر مشاعرہ گاہ میں وسعت کی کمی (کہ اس ہال میں 800 سیٹیں تھیں جب کہ شیرٹن میں 1200 تک کی گنجائش تھی) اسٹیج کی نسبتاً کم چوڑائی اور آڈیو سسٹم سے متعلق بعض مسائل کی وجہ سے کچھ باتیں توجہ طلب ہیں۔
مشاعرے سے پہلی رات ایوارڈ کی تقریب اور چیئرمین کی طرف سے ایک ڈنر ہوتا ہے اس بار اس کا اہتمام شاعروں کی رہائش گاہ یعنی سفائر ہوٹل کے ہال ہی میں کیا گیا تھا۔ تقریب ہمیشہ کی طرح بہت شاندار اور متاثر کن رہی پاکستان کے ایوارڈ یافتہ یعنی مجھ پر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے تعارفی تقریر کی جب کہ بھارتی ایوارڈ یافتہ جاوید اختر پر صدر تقریب گوپی چند نارنگ نے اپنی مخصوص گل افشانی گفتار کے جوہر دکھائے جاوید اختر کی بیگم مشہور اداکارہ اور کیفی اعظمی مرحوم کی صاحبزادی شبانہ اعظمی اپنے شوٹنگ شیڈیول کی وجہ سے اس تقریب میں بروقت نہ پہنچ سکیں البتہ اگلے دو تین دن ان کا ساتھ رہا۔
پہلی ملاقات عتیق صاحب کے لنچ پر دوسری مشاعرہ گاہ میں اور تیسری ایم ایس بخاری کے لنچ پر ہوئی جہاں انھوں نے میری فرمائش پر فیض صاحب کی نظم ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے'' کی کچھ لائنیں بڑے خوب صورت ترنم میں سنائیں۔ اسی محفل میں برادرم پیر زادہ قاسم نے بھی اپنے سدا بہار ترنم میں تین غزلیں سنائیں جن کا خوشگوار تاثر ابھی تک ساتھ چل رہا ہے۔ میں شبانہ اعظمی سے اس سے قبل بھی امریکا کے دورے میں مل چکا تھا مگر میری بیگم سے ان کی یہ پہلی ملاقات تھی۔
نارنگ صاحب کی بیگم منورما بھابھی سے بھی کئی برس بعد ملنا ہوا سو سب نے ان ملاقاتوں سے خوب لطف اٹھایا البتہ میری بیگم کی یہ شکایت اپنی جگہ رہی کہ ہمارا بیشتر وقت تقریبات اور کھانوں ہی میں نکل گیا اور انھیں اور برادرم داؤد ملک کی بیگم نبیلہ بھابھی کو شاپنگ اور شہر دیکھنے کا بہت ہی کم موقع مل سکا۔
میری بیگم کی فرسٹ اور میری سیکنڈ کزن عزیزہ طلعت ان کے میاں شہزاد اور بچوں سے ان کے گھر کھانے پر بہت پر لطف ملاقات رہی۔ ان کے علاوہ برادرم اور بیگم محمد خان' محمود بھائی اور ان کی بیگم اور عدیل اکبر اور ان کی تنظیم کے ساتھیوں نے لنچ اور ڈنرز کا اہتمام کیا' وہاں کے قدیم ترین پاکستانی تعلیمی ادارے پاک شمع اسکول کی نئی اور خوب صورت عمارت میں بھی کچھ وقت گزرا جہاں بچوں سے باتیں کر کے بہت اچھا لگا۔
پرانے دوستوں میں سے صرف قاضی اصغر اور عزیزی عزیز نبیل سے ہی سرسری ملاقات ہو پائی کہ اس بار بیشتر پرانے لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ان محفلوں میں شامل نہ ہو سکے خاص طور پر عبدالحمید مفتاح' رشید نیاز' راجہ ظفر' انور بھائی اور راشد ممتاز کی کمی بہت محسوس ہوئی اور ان سب پر مستزاد برادرم مصیب الرحمن کی عدم موجودگی تھی کہ اب ان سے صرف یادوں ہی میں ملاقات ہو سکتی ہے۔ لاہور سے بیگم اور داؤد ملک کے علاوہ ایوب خاور اور خالد مسعود خان ہمارے ہم سفر تھے مگر واپسی پر آخرالذکر وہ اس لیے ساتھ نہیں تھے کہ وہ دو دن قبل باقی تمام شرکا کے ساتھ واپس جا چکے تھے۔
پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے کچھ افراد سے مختلف تقریبات میں ملاقات رہی لیکن وہاں کے سفیر صاحب اپنی نامعلوم گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے وقت نہ نکال سکے جب کہ بھارتی سفیر اور ان کی بیگم سارا وقت مشاعرے میں موجود رہے برادرم اعزاز چوہدری سیکریٹری وزارت خارجہ سے درخواست ہے کہ وہ اس طرح کے حضرات کو سمجھائیں کہ یہ ان کے کام اور ذمے داریوں کا حصہ ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بیشتر سفیر اور قونصل جنرل حضرات و خواتین اپنی اس ذمے داری کو بہت اچھی طرح سے نبھاتے ہیں لیکن اس طرح کے اکا دکا و اوقات بعض اوقات بہت شرمندگی اور پریشانی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر دوحہ میں یہ پانچ دن بہت اچھے گزرے اور اپنے پردیس میں مقیم ہم وطنوں اور احباب سے مل کربہت اچھا لگا۔