کراچی لاوارث کیوں
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی وزیر اعظم سے ملک بھر کا وزیر اعظم بننے کا کہہ رہے ہیں
WASHINGTON:
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم بنیں اور تمام وسائل صرف پنجاب اور خصوصاً لاہور پر استعمال اور باقی تین صوبوں کو نظرانداز نہ کریں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی پی پی کے چیئرمین اور سندھ حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ کراچی کو بھی اپنا سمجھیں اورصوبائی وسائل اور سرکاری ملازمتیں اندرون سندھ کے ساتھ شہر کراچی کے لیے بھی مختص کریں جو ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے مگر کراچی والوں کو سرکاری ملازمتیں نہیں مل رہیں اور شہر حکومتی عدم توجہی کے سبب تباہ حالی کا شکار ہے۔
یہ درست ہے کہ ملک میں اگرکہیں ترقی ہو رہی ہے تو وہ لاہور اور پنجاب میں ہو رہی ہے کیونکہ لاہور میاں صاحبان کا اپنا شہر اور پنجاب ان کا اپنا صوبہ ہے جس نے مسلم لیگ (ن) کو 2013ء میں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا تھا اور ان دونوں حکومتوں کی توجہ پنجاب اور لاہور پر ہی مرکوز ہے اور باقی جگہوں پر خانہ پری ضرور ہوئی ہے ترقی نہیں ہوئی اور اسی وجہ سے وزیر اعظم سے پورے ملک کا وزیر اعظم اور شہباز شریف سے پورے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے لیے کہا جاتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی وزیر اعظم سے ملک بھر کا وزیر اعظم بننے کا کہہ رہے ہیں مگر بلاول زرداری اور خورشید شاہ اپنے وزیر اعلیٰ سندھ سے نہیں کہہ رہے کہ وہ بھی اندرون سندھ کی بجائے کراچی سمیت پورے سندھ کے وزیر اعلیٰ بنیں۔
پی پی کے چیئرمین نے اپنی کراچی کی حالیہ کامیاب ریلی پر دعویٰ کیا ہے کہ اب کراچی بھی پیپلز پارٹی کا ہے جو کہنے کی حد تک تو درست ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں اور کراچی ماضی میں بھی کبھی پیپلز پارٹی کا نہیں تھا اور اگر ایمانداری کے نام پر کراچی کبھی جماعت اسلامی نے اپنا قرار دیا اور اب تین عشروں سے حق پرستوں کا دعویٰ چلا آ رہا ہے کہ کراچی ان کا ہے کیونکہ کراچی کا مینڈیٹ مسلسل ان کے پاس چلا آ رہا ہے، مگر متحدہ کے مخالفین پوچھتے ہیں کہ کراچی کی نمایندگی کرنے والوں نے کراچی کو کیا دیا ہے۔
کراچی کی بلدیاتی حکمرانی تین بار جماعت اسلامی کے پاس رہی اور دو مرتبہ متحدہ کو ملی اور وہ بھی جماعت اسلامی کے مقابلے میں مضبوط اور بااختیار مگر عوام کی اکثریت کو کچھ نہیں ملا اور جو بھی ملا وہ مفاد پرستوں کو ملا جو ککھ سے اربوں پتی ہو گئے اور پس ماندہ علاقوں سے نکل کر مہنگے پوش علاقوں میں جا بسے جس کی تصدیق خود متحدہ کے بانی بھی کرچکے ہیں۔
سٹی حکومت کے دو ادوار ہیں جو ہوا اس کا اعتراف گورنر سندھ کرتے ہوئے نعمت اللہ خان کو کریڈٹ دے چکے ہیں مگر اب وہ بھول گئے کہ 2009ء تک وہ مصطفیٰ کمال کی اور مصطفیٰ کمال ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ سابق ضلع دور پیپلز پارٹی کے پہلے چار اور بعد میں دو ٹاؤن ناظم تھے اور پی پی کی منصوبہ بندی سے ضلع ساؤتھ اور ضلع ملیر کے علاوہ کراچی دیہی کی نمایندگی کرنے والی ضلع کونسل کراچی کی بلدیاتی سربراہی اب پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ سینٹرل، شرقی اور کورنگی متحدہ کے پاس اور ضلع غربی کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
پیپلز پارٹی نے چار دہائی قبل سندھ میں جو کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا، اس سے ہی شہری سندھ اور دیہی سندھ کی تفریق پڑی تھی جس میں دیہی کا ساٹھ اور شہری علاقوں کا چالیس فیصد کوٹہ طے ہوا تھا جس کا اطلاق دیہی سندھ میں مکمل ہوا مگر شہری علاقوں میں عمل نہیں ہوا کیونکہ شہری علاقوں میں آباد دیہی علاقے والوں کو کراچی کے ڈومیسائل پر سرکاری نوکریاں دی گئیں اور کراچی والوں کو نظرانداز کیا جاتا رہا، جس کی وجہ سے ایم کیو ایم وجود میں آئی اور الیکشن میں کامیابیوں کے نتیجے میں شہری علاقوں کی نمایندہ جماعت قرار پائی اور 1988ء کے بعد سے 2013ء تک ہر حکومت میں شامل رہی اور سرکاری ملازمتیں اپنے شہیدوں کے ورثا اور اپنے حلف یافتہ کارکنوں کو دیں جو محدود تھیں جب کہ بیروزگاروں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو مسلسل بڑھتی گئی اور کراچی والوں کا احساس محرومی شدید ہوتا گیا۔
1988ء کے بعد پیپلز پارٹی کی تینوں حکومتوں میں کراچی کو اپنا نہیں سمجھا گیا اور انھیں ایم کیو ایم کے کھاتے میں تصور کر کے ملازمتیں نہیں دی گئیں۔ کچھ معقول وجوہات کے باعث اور ماضی میں اندرون سندھ ہونے والے لسانی جھگڑوں کے باعث پیپلز پارٹی اور اردو بولنے والوں کے درمیان جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی تھیں انھیں دور کرنے پر پی پی نے کوئی توجہ نہیں دی اور پی پی دور میں جنرل نصیر اللہ کے غیر منصفانہ آپریشن نے پی پی کے خلاف نفرتوں میں اضافہ کیا۔
پی پی میں کراچی کے نظریاتی طور پر جو اردو بولنے والے تھے وہ اپنے مفادات میں مصروف رہے جو کم تعداد میں تھے انھوں نے ہی اپنے ہم زبانوں کو پی پی کے قریب لانے کی کوئی کوشش نہیں کی جس کا فائدہ متحدہ کو ہوا۔ پیپلز پارٹی اردو بولنے والوں کو متحدہ کا حمایتی سمجھتی رہی جب کہ ایسا نہیں تھا۔ سب بولنے والے متحدہ کے حامی نہیں تھے اور دیگر پارٹیوں میں بھی موجود تھے۔
متحدہ جس طرح بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی رہی اس کا سب کو پتہ ہے مگر حقائق نظرانداز ہوتے رہے اور پی پی نے کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک جاری رکھا جس کا فائدہ 2013ء میں تحریک انصاف کو ہوا اور پیپلز پارٹی متحدہ سے نالاں ان لوگوں کو بھی اپنا بنا سکی جنھوں نے متحدہ کے حلقوں میں اپنے ووٹ متحدہ کو نہیں دیے تھے۔
آصف علی زرداری کو یہ تو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں سندھ میں کوئی لسانی فساد نہیں ہوا جب کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں سندھ میں لسانی فسادات اور نقل مکانی ہوئی جس سے دیہی اور سندھ میں خلیج وسیع ہوئی اور شہری علاقوں میں احساس محرومی بڑھتا گیا جسے ختم کرنے پر آصف زرداری دور میں بھی توجہ نہیں دی گئی۔ متحدہ پی پی کی کبھی حلیف کبھی حریف بن کر حکومت میں آتی جاتی رہی اور متحدہ والے بھی کمائی میں مصروف رہے جس سے متحدہ کی مقبولیت پر فرق پڑا۔
یہ حقیقت ہے کہ سندھی اور اردو بولنے والے سندھ کے مستقل باسی ہیں اور سب کو سندھ میں مرنا جینا ہے۔ کراچی میں رہنے والے سندھیوں کے تو اندرون سندھ اپنے گوٹھ ہیں جب کہ کراچی کے اردو بولنے والوں کا کراچی کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے مگر سندھ کی دعویدار پیپلز پارٹی نے کراچی پر توجہ نہیں دی۔ ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا گیا کراچی والوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش ہی نہیں کی جب کہ پچیس سالوں سے سب مل جل کر رہ رہے ہیں کوئی لسانی تفریق نہیں ہے مگر پیپلز پارٹی لسانی تفریق چھوڑنے پر تیار نہیں جس کا فائدہ متحدہ کو ملتا ہے اور کراچی والے لاوارث بنے ہوئے ہیں۔
منتخب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے جس طرح پی پی حکومت نے حصے بخرے کیے ہیں اور بلدیہ کو توڑ کر اپنا کنٹرول بڑھایا ہے اس کا کراچی پر اچھا اثر نہیں ہوا۔ لیاری ملیر اور دیہی علاقوں کو نوازنا اور باقی علاقوں کو نظرانداز کرنا کراچی دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ان علاقوں میں صرف اردو بولنے والے ہی نہیں، سب رہتے ہیں اور سب لاوارث بنا دیے گئے ہیں۔
بلاول زرداری کی ریلی کراچی کی نمایندہ ریلی نہیں تھی پی پی کی ریلی تھی۔ کراچی والوں کو اپنا بنانے کے لیے اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیر اعلیٰ کراچی والوں کے بھی حقیقی وزیر اعلیٰ اور وارث بن جائیں تو موجودہ سیاسی صورتحال بدل سکتی ہے۔