کچھ معروضات گدھوں کے دفاع میں

گدھے وقت پڑنے پر مسلح فرشتوں سے راستہ کترا سکتے ہیں

sajid.ali@express.com.pk

NEW DEHLI:
معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے جانوروں کے ذریعے بار برداری کی حوصلہ شکنی اورگھوڑے اور گدھا گاڑیوں پر ان جانوروں کی استعداد سے زیادہ سامان لادنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس مقصد سے یہ طے کیا ہے کہ ایسے گھوڑے گاڑیوں اورگدھے گاڑیوں کے مالکان کو جو اپنی گاڑیوں پر ٹنوں وزنی لوہے کے سریے لادتے ہیں۔ اس کام کے لیے متبادل کاروبار کے طور پر آسان قرضوں کی اسکیم کے تحت چھوٹے ٹرک فراہم کردیے جائیں گے جو لوہے کے سریوں اور ایسے ہی دوسرے انتہائی بھاری اور وزنی سازوسامان کی مال برداری کے لیے استعمال ہوسکیں گے۔

اس نیک کام کی طرف حکومت کی توجہ ایسے رحم دل شہریوں نے دلائی ہے جو روزانہ اپنے شہروں کی سڑکوں پر جانوروں پر ہونے والا یہ ظلم اور استحصال دیکھتے ہیں اور ان کے دل خوف اور شرمندگی کے احساس سے کانپ اٹھتے ہیں وہ خود کو بھی اس جرم میں شریک کار سمجھتے ہیں کیونکہ گدھوں اورگھوڑوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک کر انھیں اس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنانا خود ہمارے دین میں بھی کسی طرح جائز نہیں ہے۔

یہاں ہم گدھوں کے بارے میں قارئین کی معلومات کے لیے ایک مشہور مصنف جیمز گورمین کے تحریرکردہ ایک مضمون کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں جسے تحریر کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں ہمیں مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ایک وقت وہ بھی تھا۔

تقریباً پانچ ہزار سال پہلے ایک ایسی سائٹ پر جہاں ابتدائی دور کے مصری بادشاہ مدفون تھے، قریب ہی بڑے اہتمام سے اینٹوں سے تعمیر کی گئی قبروں میں دس گدھے بھی دفنا دیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر آثار قدیمہ فیونا مارشل کا کہنا تھا کہ ان گدھوں کو خاصا متبرک مقام دیا گیا کیونکہ صحارا کی تجارت میں اپنے کردار کی وجہ سے انھیں خاصی اہمیت حاصل تھی۔

بدقسمتی سے گدھوں کے انتہائی جذباتی حامی بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے محبوب جانوروں کو دنیا کے بیشتر حصوں میں بہت کم عزت اور وقعت حاصل ہے۔ حال ہی میں اس سلسلے میں کورنیل یونیورسٹی ویٹرنری اسکول نیویارک میں چوتھا سالانہ ڈنکی ویلفیئر سمپوزیم منعقد ہوا جس میں جانوروں کے معالجین ''گدھوں کو ریسکیو کرنے والوں'' اور ''ڈنکی ڈیفینڈرز'' نے شرکت کی اور اس جانور کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا جو انسانی احترام کے لحاظ سے سب سے نیچے آتا ہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے اس شعبے کے ماہر ایرک ڈیوس نے کہا کہ گدھے بدقسمتی سے کسی شمار قطار میں نہیں ہیں اور کمتروں میں بھی سب سے کمترگردانے جاتے ہیں۔ مسٹر ڈیوس جنھوں نے یہ سمپوزیم شروع کیا دنیا کے مختلف علاقوں میں جاکر بے یارومددگار گدھوں کا مفت علاج اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔ گدھوں پر اکثر و بیشتر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے اور بدترین صورتوں میں گیلائن اور گوشت کے حصول کے لیے ان کے گلوں پر چھری تک پھیری جاتی ہے۔

خوش قسمتی سے جیساکہ سمپوزیم میں دعویٰ کیا گیا کہ ان جانوروں کے اچھے خاصے دوست اور ہمدرد بھی ہیں، خود اس کانفرنس میں 77 کے لگ بھگ گدھوں کے پرستاروں نے شرکت کی اور گدھوں کے بارے میں بہت سے غلط تاثرات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ مثلاً آپ نے سنا ہوگا کہ گدھے سرکش اورضدی ہوتے ہیں، مگر بین ہارٹ نے جو برطانیہ کی ڈنکی سنکچری میں ٹرینر کے طور پر کام کرتے ہیں یہ بات کہی کہ جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ گدھے ضدی ہوتے ہیں اسے ضرور کسی گدھے نے بے وقوف بنادیا ہوگا۔


ہاں وہ محتاط ضرور ہوتے ہیں کچھ کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں اس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد افریقی جنگی گدھے ''گلّوں'' کے جانور نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی اپنی اپنی الگ دنیا ہوتی تھی ہر ایک الگ الگ اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرتا تھا کہ اسے کہاں جانا اور کب کھانا پینا ہے۔ بھاگنا ہے یا لڑنا ہے گدھوں نے اپنی یہ سمجھداری ابھی تک کچھ نہ کچھ برقرار رکھی ہے۔

چنانچہ اگر آپ کسی گدھے کو زمین پر پڑنے والے کسی ایسے سائے سے گزارنے کی کوشش کریں جو پہاڑی چوٹی سے ملتا جلتا ہو تو وہ اپنی جگہ ساکت ہوجائے گا یہی وہ حرکت ہے جو بالام کے گدھے نے بائبل میں کی تھی جس نے اپنے آقا کے کہنے سننے کے باوجود تین مرتبہ آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ بائبل میں سانپ کے علاوہ گدھا واحد جانور ہے جسے بولنے کا موقع دیا گیا ہے جب وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم مجھے تین مرتبہ مارنے کی کوشش کرچکے ہو۔

اصل میں وہ گدھا سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے فرشتے سے بچ رہا تھا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور جو بالام کو بھی مار سکتا تھا۔ اگرچہ گدھے وقت پڑنے پر مسلح فرشتوں سے راستہ کترا سکتے ہیں اور خطرے کی بو سونگھ کر بھاگ بھی سکتے ہیں۔ مگر جیساکہ مارک مائیرز نے جو ٹیکساس میں پیس فل ویلی ڈنکی ریسکیو کا ادارہ چلاتے ہیں دعویٰ کیا کہ یہ گدھوں کا معمول کا وطیرہ نہیں ہے ایک اچھا گدھا کھڑے ہوکر لڑنا پسند کرتا ہے۔

مسٹر مارک سمپوزیم میں کچھ گدھے بھی لائے تھے تاکہ لوگ انھیں گود لے سکیں۔ انھوں نے اور بعض دوسروں نے کہا کہ گدھے وقت پڑنے پر کتوں، (Coyotes) اور لومڑیوں پر حملے بھی کرسکتے ہیں کم ازکم ایک رپورٹ ایسی ہے جب ایک بہادر گدھے نے ایک پہاڑی شیر پر حملہ کردیا تھا اسی لیے گدھوں کو بھیڑ بکریوں اور ایسے ہی دوسرے جانوروں کی حفاظت پر بھی مامورکیا جاتا ہے۔

انسانوں سے گدھوں کی وابستگی کی تاریخ بھی خاصی پرانی ہے۔ ڈاکٹر مارشل کا کہنا ہے کہ یہ اونٹ نہیں بلکہ گدھے ہیں جنھوں نے صحارا کے دروازے کھولے تھے اور مصر اور میسو پوٹومیا کے درمیان تجارت میں مدد دی تھی۔ اسی لیے دس گدھوں کو ایک بادشاہ کے پائینتی یا سرہانے دفنایا گیا۔ اونٹوں کے قافلے تو تین ہزار سال پہلے چلنا شروع ہوئے جب کہ گدھوں کو تو انسانوں نے چھ ہزار سال پہلے ہی پالنا شروع کردیا تھا اس کے بعد سے گدھے عمارتوں کے پتھر، غذائی اشیا، کاروباری ساز و سامان، اسلحہ اور لوگوں کی باربرداری کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔

یقیناً وہ اپنے کزن جانوروں کی طرح ''ایکسائٹنگ'' نہیں ہوتے۔ مشہور اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ گدھوں کی صرف دو ''رفتاریں'' ہوتی ہیں سست رفتار اور اس سے بھی زیادہ سست رفتار۔ مگر باوقار گھوڑوں اور شریف گدھوں کی عزت و وقعت میں نظر آنے والی خلیج انسان کی پیدا کردہ ہے، افریقی جنگلی گدھے جن کے دنیا میں شاید چھ سو نمونے رہ گئے ہیں۔ شاندار (میگنی فیشنٹ) متاثرکن اور تیز و طرار ہوتے ہیں جیساکہ کوئی اور گھوڑے نما جانور ہوسکتا ہے۔ لیڈی مارشل نے کہا کہ شروع کے گھوڑے بھی چھوٹے قد کے تھے جیسے کوئی بڑی ٹنکی ٹانگوں پر رکھ دی گئی ہو۔ پھر لوگوں نے انھیں کھلا پلاکر لمبی ٹانگوں والا بنایا اور چھلانگ لگانا سکھائی۔

یہ بات بڑی غنیمت ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں بہت سے ادارے اور تنظیمیں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والے گدھوں کو نجات دلانے کے لیے کام کر رہی ہیں جن میں ڈنکی سنگچری انگلینڈ اور ایکشن فار ہارسز اینڈ ڈنکیز شامل ہیں جو ایجوکیشن اور ویٹرنری کیئر کو سپورٹ کرتی ہیں۔

مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سے گدھوں کو پالتو یا کام کرنے والے جانوروں کی طرح نہیں رکھا جاتا بلکہ گوشت اور کھالوں کے لیے انھیں ذبح کردیا جاتا ہے۔ نائیجیریا کے جانوروں کے ایک ڈاکٹر فلپ مشیلیا نے سمپوزیم میں افریقہ میں گدھوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کی کہانی سنائی وہاں انصاف اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے گدھوں کو گوشت اور کھالوں کے لیے سلاٹر کردیا جاتا ہے یہ کھالیں چین بھی جاتی ہیں جہاں ان کھالوں سے حاصل ہونے والی جیلاٹن جیسی شے دوائیں بنانے میں استعمال ہوتی ہے کیونکہ ہزاروں لاکھوں گدھے اس مذموم کاروبار کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ برکینا، فاسو اور نائیجیریا نے اس سال گدھوں کی برآمد پر پابندی لگادی ہے۔

حال ہی میں ایک صبح سات بجے ڈاکٹر ڈیوس سے فون پر بات کرنے کا اتفاق ہوا وہ اسی وقت ان پانچ گدھوں کو کھلا پلاکر فارغ ہوئے تھے جو انھوں نے اور ان کی بیگم نے پال رکھے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسے لوگ جن کے پاس نہ گدھے ہیں اور نہ ان کے بارے میں معلومات وہ بھلا گدھوں کا خیال کیا خاک کریں گے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہماری انسانی تہذیب نے اسی لیے ترقی کی کہ سامان ڈھونے اور تاجروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے گدھے موجود تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم گدھوں کے اس احسان کا بدلہ چکائیں۔
Load Next Story