احتساب کا موسم
دنیا کے کروڑوں لوگ آنے والے لمحے کے لیے اس قدر بے چین ہوتے ہیں
یہ دنیا کا ہر انسان سوچتا ہے کہ آیندہ کس قسم کے حالات پیش آئیں گے،آدمی خواہ مصیبت میں گرفتار ہو یا آرام دہ کمرے میں لیٹا ہو، وہ آنے والے وقت کے لیے بے چین رہتا ہے، آرام سے رہ کر بھی آرام سے نہیں رہ سکتا،کبھی اٹھ کر بیٹھتا ہے،کبھی بیٹھ کر لیٹتا ہے، پھر اٹھ کر ٹہلنے لگتا ہے، آنے والا وقت کیسا ہو گا؟ اچھا ہوگا یا برا ہو گا؟
دنیا کے کروڑوں لوگ آنے والے لمحے کے لیے اس قدر بے چین ہوتے ہیں، اس قدر تڑپتے ہیں اور اندرہی اندر پریشان ہوتے ہیں اور جب وہ آنیوالا وقت آ جاتا ہے پھر دوسرے آنے والے وقت کے لیے پریشان ہونے لگتے ہیں، اسی طرح کی بے چینی ان دنوں مملکت خداداد پاکستان کے عوام میں پائی جا رہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی انتشار جمہوریت کی صحت کے لیے ضروری ہے مگر جب یہ انتشار نظام میں نظر آئے تو خرابی کی صورت بنتی ہے۔ اس وقت ہمارا نظام تبدیلی کی آہٹ پر بہت گھبرایا ہوا لگتا ہے اور زیادہ گھبراہٹ ہمارے سیاسی ناخدائوں میں نظر آتی ہے۔
الف لیلوی داستان کی طرح دراز ہونے والا پانامہ اسکینڈل اپنے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیراعظم کے احتساب کے نام پر شروع کی جانیوالی تحریک انصاف کی احتجاجی مہم حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں آج تک احتساب کا نظام قائم نہیں ہو سکا۔
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ احتساب کا نظام نہ ہونا ہے۔ یہ دہشتگردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ دہشتگردی اس لیے پروان چڑھی ہے کہ ملک میں احتساب کا نظام نہیں ہے، کرپشن، لوٹ مار اور بیرونی حکمرانی نے اشرافیہ کے ایسے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو خود کو احتساب سے ماورا سمجھتے ہیں۔ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں وہ احتساب کا نظام قائم ہی نہیں ہونے دیتے۔
قانون صرف کمزورطبقات کو مزید کچلنے کا ہتھیار بن گیا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم کس قدرخطرناک صورتحال سے دوچار ہیں، اس صورتحال نے ہماری بقا کا سوال پیدا کر دیا ہے۔ جمہوریت کو اس عہد کا سب سے بہتر نظام سمجھا جاتا ہے مگر جس جمہوریت میں عام لوگوں کو ان کے حقوق نہ ملیں تو ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ؟
جمہوریت گڈگورننس کا نام ہے، کرپشن، لوٹ مار اور چوروں کی مفاہمت کا نام نہیں، جہاں کوئی نظام انسانیت کی بھلائی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا وہاں وہ نظام بدل دیا جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے خاص طور پر گزشتہ 15 سال کے دوران اس ملک کو کرپشن، لوٹ مار اور بری حکمرانی کے ذریعے کھوکھلا کر دیا ہے، ملکی وغیر ملکی کرنسی میں کئی ہزار ارب کی رقوم ملک سے باہر منتقل ہو چکی ہیں، جو کرپشن اور لوٹ مار سے حاصل کی گئیں، عام آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں اور وہ تقریباً ہر سیاسی جماعت میں ہیں۔
سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہرکوئی احتساب سے بچنا چاہتا ہے، جو حکومت میں ہے وہ اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اور جو اپوزیشن میں ہے وہ اپنے احتساب کو جمہوریت کا نقصان قرار دیتا ہے۔ کوئی اپنی عوامی مقبولیت اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر یہ تاثر دے رہا ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ڈالا گیا تو سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔
کہیں احتساب کے نام پر لوٹ مار ہو رہی ہے تو اور کہیں کرپشن کے خلاف مہم کی آڑ میں کرپشن کی جا رہی ہے۔ غرض اس ملک میں بلا امتیاز اور بلاتفریق احتساب کا نظام نہیں بن سکا ہے۔ جو لوگ سیاست، عہدے، حیثیت، مرتبے، اختیار اور لوگوں میں عزت و احترام کو دولت کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں اور ایک یا کسی دوسری وجہ سے بلاامتیاز احتساب کے نظام کو کمزورکرتے ہیں، انھیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنی نسلوں اور خود اپنے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں۔
جب موجودہ سیاسی نظام پر تنقید ہو، اس میں اصلاح کی بات ہو،کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی جائے تو ہمارے بہت سے دانشوروں، سیاستدانوں کو اس کے پیچھے آمریت کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔
اصلاحات لانا،گند صاف کرنا، حالانکہ خود سیاستدانوں کے مفاد میں ہے، اس سے سیاسی نظام کی کریڈیبلٹی میں اضافہ ہو گا، مگر ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جاتا، پاکستانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاستدانوں نے دیانتداری کے ساتھ سیاسی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہو، یہ بات تو مکمل واضح ہو چکی ہے کہ موجودہ نظام بری طرح گل سڑ چکا ہے، ظلم اور استحصال اس کی رگ رگ میں سما چکا ہے، قانون کی حکمرانی قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے، اب معاملات زیادہ دیر چلائے نہیں جا سکتے۔
ہم اچھی طرح جان چکے ہیں کہ دہشتگردی اورکرپشن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، کرپشن کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے، ظلم، ناانصافی دہشتگردی کی ایک بڑی وجہ ہے، موجودہ حکمران، سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ کو کوئی دلچسپی نہیں کہ کرپشن کو روکنے کے لیے کچھ کریں، شفاف احتساب کی روایت ڈال سکیں، ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے نہ ہی ان سے یہ توقع رکھنی چاہیے۔ وجہ بھی بڑی واضح اور صاف ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن اور سیاست مکس ہو چکی ہے۔
سیاستدان کرپشن کو تحفظ دیتے اور خود کرپشن کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہیں، وہ کیوں احتساب کا کوئی مضبوط ادارہ بنائیں گے کہ ایسے کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہو گا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑے بڑے ظالم اور جابر حکمرانوں اور دولت مند لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں، تاریخ ان لوگوں سے عبارت نہیں جو طاقت اور دولت کے حصول کے لیے ظلم و جبر اور ناانصافی کا سہارا لیتے ہیں، تاریخ ان لوگوں سے عبارت ہے جنہوں نے انصاف کیا اور لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے قربانیاں دیں، پاکستان کے لوگ احتساب اور انصاف کے نظام سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں بلاامتیاز احتساب کا نظام قائم نہیں ہوتا وہاں لوگ خود احتساب کے لیے نکل آتے ہیں اور انقلاب برپا کرتے ہیں۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی وجہ سے احتساب سے بچ نکلے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ لوگ اب حقیقی احتساب چاہتے ہیں، وہ حکمرانوں، سیاستدانوں، بیورو کریسی، عدلیہ، میڈیا، تاجروں، صنعتکاروں، مذہبی پیشوائوں، خوف و دہشت کے نام پر راج کرنیوالوں سب کا احتساب چاہتے ہیں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا ہیرو وہی ہوگا جو لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا اور ہر طرح کی کرپشن کرنے والوں کا احتساب کریگا، بلا امتیاز احتساب سے ہی اس ملک، اس کے ریاستی اداروں، جمہوریت اور سیاست کی بقاء ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور مقتدر حلقے قوم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے احتساب کا ایسا جامع نظام بنائیں جو سب کا یکساں احاطہ کرے اور جس پر سب کو اتفاق ہو کیونکہ جب تک احتساب مکمل طور پر آزاد اور مضبوط نہیں ہوتا نہ غربت ختم ہو گی، نہ سیاست کا تالاب گندی مچھلیوں سے پاک ہو گا، نہ عام شہری کو انصاف ملے گا، نہ لوگوں کا حکومتوں پر اعتماد بحال ہو گا اور نہ ہی لاقانونیت کے سیلاب کے سامنے بند باندھا جا سکے گا۔ بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہو چکا ہے، پاکستان میں مدتوں سے ابلتے کرپشن کے گٹر کی صفائی کا وقت آ چکا ہے، ایک ایک حرف، ایک ایک ہندسہ، ایک ایک سال، ایک ایک تاریخ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کی گواہی دینگے۔
دنیا کے کروڑوں لوگ آنے والے لمحے کے لیے اس قدر بے چین ہوتے ہیں، اس قدر تڑپتے ہیں اور اندرہی اندر پریشان ہوتے ہیں اور جب وہ آنیوالا وقت آ جاتا ہے پھر دوسرے آنے والے وقت کے لیے پریشان ہونے لگتے ہیں، اسی طرح کی بے چینی ان دنوں مملکت خداداد پاکستان کے عوام میں پائی جا رہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی انتشار جمہوریت کی صحت کے لیے ضروری ہے مگر جب یہ انتشار نظام میں نظر آئے تو خرابی کی صورت بنتی ہے۔ اس وقت ہمارا نظام تبدیلی کی آہٹ پر بہت گھبرایا ہوا لگتا ہے اور زیادہ گھبراہٹ ہمارے سیاسی ناخدائوں میں نظر آتی ہے۔
الف لیلوی داستان کی طرح دراز ہونے والا پانامہ اسکینڈل اپنے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیراعظم کے احتساب کے نام پر شروع کی جانیوالی تحریک انصاف کی احتجاجی مہم حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں آج تک احتساب کا نظام قائم نہیں ہو سکا۔
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ احتساب کا نظام نہ ہونا ہے۔ یہ دہشتگردی سے بھی بڑا مسئلہ ہے کیونکہ دہشتگردی اس لیے پروان چڑھی ہے کہ ملک میں احتساب کا نظام نہیں ہے، کرپشن، لوٹ مار اور بیرونی حکمرانی نے اشرافیہ کے ایسے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو خود کو احتساب سے ماورا سمجھتے ہیں۔ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں وہ احتساب کا نظام قائم ہی نہیں ہونے دیتے۔
قانون صرف کمزورطبقات کو مزید کچلنے کا ہتھیار بن گیا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم کس قدرخطرناک صورتحال سے دوچار ہیں، اس صورتحال نے ہماری بقا کا سوال پیدا کر دیا ہے۔ جمہوریت کو اس عہد کا سب سے بہتر نظام سمجھا جاتا ہے مگر جس جمہوریت میں عام لوگوں کو ان کے حقوق نہ ملیں تو ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ؟
جمہوریت گڈگورننس کا نام ہے، کرپشن، لوٹ مار اور چوروں کی مفاہمت کا نام نہیں، جہاں کوئی نظام انسانیت کی بھلائی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا وہاں وہ نظام بدل دیا جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے خاص طور پر گزشتہ 15 سال کے دوران اس ملک کو کرپشن، لوٹ مار اور بری حکمرانی کے ذریعے کھوکھلا کر دیا ہے، ملکی وغیر ملکی کرنسی میں کئی ہزار ارب کی رقوم ملک سے باہر منتقل ہو چکی ہیں، جو کرپشن اور لوٹ مار سے حاصل کی گئیں، عام آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں اور وہ تقریباً ہر سیاسی جماعت میں ہیں۔
سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہرکوئی احتساب سے بچنا چاہتا ہے، جو حکومت میں ہے وہ اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اور جو اپوزیشن میں ہے وہ اپنے احتساب کو جمہوریت کا نقصان قرار دیتا ہے۔ کوئی اپنی عوامی مقبولیت اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر یہ تاثر دے رہا ہے کہ اگر اس پر ہاتھ ڈالا گیا تو سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔
کہیں احتساب کے نام پر لوٹ مار ہو رہی ہے تو اور کہیں کرپشن کے خلاف مہم کی آڑ میں کرپشن کی جا رہی ہے۔ غرض اس ملک میں بلا امتیاز اور بلاتفریق احتساب کا نظام نہیں بن سکا ہے۔ جو لوگ سیاست، عہدے، حیثیت، مرتبے، اختیار اور لوگوں میں عزت و احترام کو دولت کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں اور ایک یا کسی دوسری وجہ سے بلاامتیاز احتساب کے نظام کو کمزورکرتے ہیں، انھیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک، اپنی قوم، اپنی نسلوں اور خود اپنے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں۔
جب موجودہ سیاسی نظام پر تنقید ہو، اس میں اصلاح کی بات ہو،کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی جائے تو ہمارے بہت سے دانشوروں، سیاستدانوں کو اس کے پیچھے آمریت کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے۔
اصلاحات لانا،گند صاف کرنا، حالانکہ خود سیاستدانوں کے مفاد میں ہے، اس سے سیاسی نظام کی کریڈیبلٹی میں اضافہ ہو گا، مگر ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جاتا، پاکستانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاستدانوں نے دیانتداری کے ساتھ سیاسی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہو، یہ بات تو مکمل واضح ہو چکی ہے کہ موجودہ نظام بری طرح گل سڑ چکا ہے، ظلم اور استحصال اس کی رگ رگ میں سما چکا ہے، قانون کی حکمرانی قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے، اب معاملات زیادہ دیر چلائے نہیں جا سکتے۔
ہم اچھی طرح جان چکے ہیں کہ دہشتگردی اورکرپشن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، کرپشن کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے، ظلم، ناانصافی دہشتگردی کی ایک بڑی وجہ ہے، موجودہ حکمران، سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ کو کوئی دلچسپی نہیں کہ کرپشن کو روکنے کے لیے کچھ کریں، شفاف احتساب کی روایت ڈال سکیں، ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے نہ ہی ان سے یہ توقع رکھنی چاہیے۔ وجہ بھی بڑی واضح اور صاف ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن اور سیاست مکس ہو چکی ہے۔
سیاستدان کرپشن کو تحفظ دیتے اور خود کرپشن کی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہیں، وہ کیوں احتساب کا کوئی مضبوط ادارہ بنائیں گے کہ ایسے کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہو گا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑے بڑے ظالم اور جابر حکمرانوں اور دولت مند لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں، تاریخ ان لوگوں سے عبارت نہیں جو طاقت اور دولت کے حصول کے لیے ظلم و جبر اور ناانصافی کا سہارا لیتے ہیں، تاریخ ان لوگوں سے عبارت ہے جنہوں نے انصاف کیا اور لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے قربانیاں دیں، پاکستان کے لوگ احتساب اور انصاف کے نظام سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں بلاامتیاز احتساب کا نظام قائم نہیں ہوتا وہاں لوگ خود احتساب کے لیے نکل آتے ہیں اور انقلاب برپا کرتے ہیں۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی وجہ سے احتساب سے بچ نکلے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ لوگ اب حقیقی احتساب چاہتے ہیں، وہ حکمرانوں، سیاستدانوں، بیورو کریسی، عدلیہ، میڈیا، تاجروں، صنعتکاروں، مذہبی پیشوائوں، خوف و دہشت کے نام پر راج کرنیوالوں سب کا احتساب چاہتے ہیں اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا ہیرو وہی ہوگا جو لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا اور ہر طرح کی کرپشن کرنے والوں کا احتساب کریگا، بلا امتیاز احتساب سے ہی اس ملک، اس کے ریاستی اداروں، جمہوریت اور سیاست کی بقاء ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور مقتدر حلقے قوم کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے احتساب کا ایسا جامع نظام بنائیں جو سب کا یکساں احاطہ کرے اور جس پر سب کو اتفاق ہو کیونکہ جب تک احتساب مکمل طور پر آزاد اور مضبوط نہیں ہوتا نہ غربت ختم ہو گی، نہ سیاست کا تالاب گندی مچھلیوں سے پاک ہو گا، نہ عام شہری کو انصاف ملے گا، نہ لوگوں کا حکومتوں پر اعتماد بحال ہو گا اور نہ ہی لاقانونیت کے سیلاب کے سامنے بند باندھا جا سکے گا۔ بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہو چکا ہے، پاکستان میں مدتوں سے ابلتے کرپشن کے گٹر کی صفائی کا وقت آ چکا ہے، ایک ایک حرف، ایک ایک ہندسہ، ایک ایک سال، ایک ایک تاریخ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کی گواہی دینگے۔