والد کی تکریم

اسلام نے والدین کی عزت و توقیر کا حکم دیا ہے اور والدین سے مراد ماں اور باپ دونوں ہیں

جس گھر میں والدین ہوں، وہ گھر رحمت خداوندی کا آشیانہ ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

باپ ایک عظیم محافظ ہے جو ساری زندگی اپنے خاندان کی حفاظت کرتا اور اپنی اولاد کا سب سے بڑا خیر خواہ اور سچا دوست ہے، پھر کیا و جہ ہے کہ اس کی تکریم کے بارے میں کم لکھا جاتا اور رتبے میں اسے کم سمجھا جاتا ہے۔ ماں کے لیے تو سبھی دعا کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے۔ ماں کا پیار تو سب کو نظر آتا ہے کہ وہ عظیم ترین ہستی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ والد کا رتبہ اور خدمات کم ہیں اور اسے نظرانداز کردینا چاہیے۔ ماں کی طرح باپ کو بھی اپنی اولاد سے پیار ہوتا ہے۔

والد کی قدر کرنی چاہیے۔ باپ کی کمائی اور ورثے کی تو اولاد حق دار بنتی ہے، مگر اس کے دیگر تجربات اور اصولوں سے کم ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔ حالاں کہ باپ ایک ایسی کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں۔ اپنے والد کو خود سے دور مت کریں بل کہ اس کے تجربات سے سیکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نئی نسل والدین سے خود کو زیادہ عقل مند خیال کرتی ہے۔

اکثر والد ایسے دیکھے ہیں جن کو یہ گلہ ہے کہ اولاد نافرمان ہے، کہنا نہیں مانتی، جہاں سے روکیں وہیں جاتی ہے، مخالفین سے تعلقات رکھتی ہے اور جن کو ہم عزیز رکھتے ہیں ان سے دور رہتی ہے، جن سے ہم کو الفت ہے ان کا احترام نہیں کرتی وغیرہ۔ والد کا احترام کریں تاکہ آپ کی اولاد بھی آپ کا احترام کرے۔ والد کی عزت کرو تا کہ اس سے فیض یاب ہو سکو۔ والد کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی باتیں نہ سننی پڑیں۔ اپنے والد کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولو ورنہ اﷲ پاک تم کو نیچا دکھا دے گا۔ والد کے آنسو تمہارے دکھ اور تکلیف سے نہ گریں ورنہ اﷲ پاک تم کو جنت سے محروم کردے گا۔

جس شدت سے بچے ماں کو یاد رکھتے ہیں اور جیسے تحائف اولاد کی جانب سے والدہ کو ملتے ہیں ویسا جوش و خروش اور اس طرح کے تحائف بہت کم والد کے حصے میں آتے ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں زیادہ اپنے والد سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہیں۔ ہم اپنے پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں کہ والد کی نسبت والدہ کی زیادہ عزت کی جاتی ہے اور والدہ کا یہ حق ہے کہ اس سے محبت کی جائے لیکن والد کو بھی وہی احترام اور پیار ملنا چاہیے کہ وہ بھی اس کا حق دار ہوتا ہے۔

ہم یہاں والد کی شان میں چند اقوال بیان کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ والد جو کہ جنت کا دروازہ ہے اس بارے میں کم لکھا اور بتایا جاتا ہے۔ جب اسلامی تعلیمات کا ذکر ہوتا ہے تب بھی زیادہ والدہ کی خدمت پر زور دیا جاتا ہے حالاں کہ قرآن پاک کی آیات کا مفہوم ہے کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان کو اُف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو، بل کہ ان سے نرمی سے بات کرو اور اپنے بازئوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا کے رکھو اور ان کے لیے یوں دعا کرو۔

اے میرے رب تو ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں مجھ پر رحمت اور شفقت کی۔

والدین سے مراد صرف ماں نہیں ہوتی بل کہ اس سے مراد ماں اور باپ دونوں ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث میں زیادہ تر والدین کا ذکر آیا ہے یعنی ماں اور باپ دونوں کا۔ اسلام میں والد کے حقوق و احترام پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے حقوق پورے کریں۔ ان کے ادب و خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔ بچوں کو والد کی قدر اس وقت محسوس ہوتی ہے، جب وہ اس دنیا سے پردہ کر جاتا ہے۔ آقا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا، جو اپنے والد کی عزت نہیں کرتا وہ میرا امتی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم آج اپنے والد کی عزت و احترام نہیں کریں گے تو کل آنے والی نسل ہمیں بھی عزت سے محروم رکھے گی۔

جس گھر میں والدین ہوں، وہ گھر رحمت خداوندی کا آشیانہ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی دعائوں سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ مسلمانوں کا ہر لمحہ ماں باپ کے لیے وقف کیا گیا ہے حتی کہ عمر بھر کی عبادت و ریاضت اور نیکیاں والدین کی رضا سے مشروط ہیں۔ موجودہ دور نفسانفسی کا ہے اس میں اب ہم سب اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ ہم دین اسلام کے فرائض سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک والدین سے حسن سلوک بھی ہے۔


والدین کو اولاد ان کے گھر سے ہی نکال رہی ہے یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے اور اس بے حسی و ظلم پر ذرا بھی شرم سار نہیں ہے۔ موجودہ عہد میں والدین سے بدسلوکی، بدزبانی، طعنے، دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے اور ان کی دل جوئی کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔

مغرب میں تو اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کرا دیتی ہے۔ لیکن مغرب کی پیروی میں ایسا اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان جو کہ ایک اسلامی ملک ہے اس میں بھی اولڈ ہوم بن چکے ہیں، جہاں بوڑھے والدین سسک رہے ہیں۔ ان والدین کی حالت زار ہم اکثر ٹی وی چینلز پر دیکھتے اور اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء، اساتذہ اور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا وغیرہ پر حقوق العباد پر زیادہ سے زیادہ کام کیا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اپنے اسلامی فرائض کو جان سکے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ آخرت کے حساب کتاب کا احساس دلایا جائے یہی دانائی ہے کہ آخرت کا خوف ہو۔ والدین سے بدسلوکی گناہ کبیرہ ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔

والدہ کی طرح والد بھی ایک ذمہ دار انسان ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے اولاد کی پرورش کرتا ہے۔ والد دن رات اپنی اولاد کی پرورش کے لیے محنت کرتا ہے، اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لیے آجر کی غلامی کرتا ہے، اپنی اولاد کے لیے تلخ ترش باتیں سنتا ہے اور سارا دن جو کما کر لاتا ہے وہ اپنے بچوں پر خرچ کر دیتا ہے۔ والدہ کی طرح والد بھی اپنے بچوں کے روشن اور تاب ناک مستقبل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ والد ایثار و قربانی کا مجسم ہوتا ہے اور اپنی اولاد کے لیے سراپا دعا بھی۔

جب اولاد والدین کی بخشش کے لیے دعا کرنا چھوڑ دے تو اس کا رزق روک لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ رزق میں برکت نہیں رہتی، رزق ہوتا ہے مگر کمی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اس میں برکت نہیں ہوتی، ہوس بڑھ جاتی ہے۔ بد نصیب ہے وہ شخص جو اپنے والدین کی خدمت کرکے ان کی دعا نہیں لیتا اور دوسرے لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ میرے لیے دعا کرو۔ باپ ایک رحمت خداوندی ہے جو سدا ایک چادر کی طرح سر پر تنی رہتی ہے۔ جب کوئی اپنے والدین سے سختی سے بات کرتا اور اونچی آواز سے ان کو جھڑکتا ہے تو اس وقت اﷲ اور اس کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ تمہاری نماز، روزہ، حج، زکوۃ کس کام کا جب تم سے تمہارے والدین ہی خوش نہ ہوں۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ناک خاک آلود ہوئی، وہ ذلیل ہوا ( یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی) لوگوں نے پوچھا اے رسول اﷲ ﷺ کون ذلیل ہوا۔۔۔۔ ؟

آپؐ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم)

 
Load Next Story