دھند کے باعث الم ناک اموات
مختلف شہروں میں شدید دھند کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں 40 افراد جاں بحق، سیکڑوں زخمی ہو گئے
لاہور سمیت مختلف شہروں میں دوسرے روز بھی اسموگ (گرد آلود دھند) اور کہر کا راج رہا جس کے باعث مختلف شہروں میں شدید دھند کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں 40 افراد جاں بحق، سیکڑوں زخمی ہو گئے۔
موٹر وے کے مختلف سیکشنز کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا جب کہ لاہور ایئرپورٹ پر 38 پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہوا، پروازیں منسوخ کی گئیں۔ حد نگاہ کم ہونے پر صبح 3 سے 8 بجے تک فلائٹ آپریشن معطل کرنا پڑ گیا جس کی وجہ سے شہریوں اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا، گرد آلود دھند کو ماہرین نے فطری مظہر قرار دینے کے بجائے صنعتی یونٹوں، کارخانوں، موٹر گاڑیوں اور کوئلہ سے نکلنے والی گیسوں اور دھوئیں کا نتیجہ قرار دیا ہے جب کہ ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی نے مسئلہ کی سنگینی میں بہت اضافہ کیا ہے، میڈیا کے مطابق گزشتہ 5 سال سے ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے، گزشتہ ماہ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ سے تحریری استدعا کی ہے کہ ماحولیات کے بگاڑ کی روک تھام کے لیے حکم جاری کرے۔
اسموگ (گرد آلود) دھند کا ایک سبب آکسیجن بھری فضا میں صاف ستھری ہوا کا فقدان بھی ہے، جب بارش ہوتی ہے، اس کے بعد سورج نکلتا ہے تو موسم خوشگوار ہو جاتا ہے، گرد بیٹھ جاتی ہے، دھند چھٹتی ہے مگر سخت سردی اور خشک موسم میں شہریوں کے لیے دھند میں لپٹی شاہراہوں پر نکل آنا مشکل ہو گیا ہے جب کہ گزشتہ روز الم ناک روڈ حادثات نے حکام کی آنکھیں کھول دی ہیں۔
بہر حال مسئلہ صرف لاہور کا نہیں بلکہ دھند سے دیگر شہر بھی متاثر ہوتے ہیں، تاہم موسمیاتی ماہرین کے مطابق دسمبر سے پہلے لاہور میں دھند چھانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور سورج کی کرنیں دھند میں چھپ جاتی ہیں۔
واضح رہے لاہور اور نئی دہلی کو 2014ء کی ایک سروے رپورٹ میں دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں کا اعزاز حاصل ہوا ہے ، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آلودگی اور دھند کے باعث اب لاہور لاہور نہیں ہے، محکمہ موسمیات کے سربراہ ڈاکٹر قمرالزماں چوہدری کا کہنا ہے کہ آلودگی پیدا کرنے والے زہریلے کیمیائی عوامل مشرقی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کوئلہ بیسڈ صنعتیں ہیں جب کہ شہروں میں فیکٹریوں اور کارخانوں نے صورتحال خراب کر دی ہے۔
حقیقت میں دھند پاکستان کے تمام شہروں کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، مضرت رساں گیسز، گرد اور دھوئیں میں شامل سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ انسانی صحت خاص طور پر پھیپھڑوں، آنکھوں اور دل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ صائب مشورہ ہے کہ دھند سے بچنے کی موثر تدابیر اختیار کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔