افغانستان نیٹو بمباری سے 30 شہری جاں بحق
نیٹو کی انٹیلی جنس رپورٹس اتنی ناقص ہیں کہ انھیں طالبان اور عام شہریوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا
افغانستان میں طالبان کے حملے میں 2 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے جس کا بدلہ لینے کے لیے نیٹو فورسز نے صوبہ قندوز میں بمباری کر دی جس میں بچوں اور خواتین سمیت 30 شہری جاں بحق اور 25 زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین نے قندوز شہر میں بچوں، خواتین سمیت 16 لاشوں کے ساتھ گورنر ہاؤس کے باہر مظاہرہ کیا۔ مرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد بھی شامل ہیں۔
صوبائی ترجمان کے مطابق اتحادی فورسز اور افغان فوج نے مشترکہ طور پر طالبان کے خلاف آپریشن کیا۔ افغانستان ایک عرصے سے شورش زدہ علاقہ ہے جہاں شدت پسند طالبان کے خلاف مشترکہ افواج برسرپیکار ہیں۔ طالبان کی کارروائیاں لائق تعزیر ہیں لیکن عام نہتے شہریوں پر نیٹو افواج کی جانب سے بمباری زیادہ قابل مذمت فعل ہے۔
نیٹو افواج کی بمباری سے متاثر ہونے والوں میں اکثر کی حالت نازک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ مرنے والے بچوں میں سے ایک کی عمر صرف 3ماہ تھی۔ کیا اس معصوم کی موت پر نیٹو فورسز کوئی وضاحت کر سکیں گی؟ جب نیٹو افواج نے بمباری کی تو شہری اپنے گھروں میں سوئے ہوئے تھے۔ نہتے عام شہریوں کو ہلاک کرنا کسی بھی جنگ میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس سے قبل بھی رہائشی علاقوں میں فائرنگ اور بمباری کے واقعات میں کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے جس کی ہر فورم پر مذمت کی گئی لیکن حیرت ہے کہ نیٹو کی انٹیلی جنس رپورٹس اتنی ناقص ہیں کہ انھیں طالبان اور عام شہریوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ نیٹو کے ترجمان نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ بمباری شہر کے نواح میں اس وقت کی گئی جب پتہ چلا کہ اتحادی فورسز طالبان کی فائرنگ کے نشانے پر ہیں۔ انھوں نے ہلاکتوں کے حوالے سے تحقیقات کی بات بھی کی۔ لیکن کیا تحقیقات سے ان معصوم شہریوں کی موت کی تلافی ممکن ہے؟
واضح رہے بمباری سے قبل قندوز کے نواح میں طالبان کے حملے میں 2 امریکی اور 3 افغان فوجی مارے گئے، حملہ اس وقت ہوا جب امریکی فوجی طالبان کے خلاف آپریشن کے دوران افغان فورسز کی مدد کر رہے تھے۔ نیٹو افواج کی افغانستان سے انخلا کے لیے دسمبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس دوران نہ تو طالبان نے پسپائی اختیار کی نہ ہی عنقریب اس انخلا کی ابتدا ہوتی نظر آتی ہے۔ نیٹو فورسز اپنے حملوں میں طالبان اور عام شہریوں میں فرق ضرور محسوس کریں۔