گھنٹیاں کس کے لیے بجتی ہیں
جب بھی وہ کسی مصیبت میں پھنستے ہیں تو وہ بڑی کامیابی سے وقت حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں اور اتنی تاخیر پیدا کرتے ہیں
جب بھی وہ کسی مصیبت میں پھنستے ہیں تو وہ بڑی کامیابی سے وقت حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں اور اتنی تاخیر پیدا کرتے ہیں کہ معاملہ فطری طور پر طاق نسیاں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ کئی مہینوں تک کے حیض بیض کے باوجود حکومت پانامہ گیٹ انکشافات کو کھڈے لائن لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جب کہ سپریم کورٹ نے یکم نومبر کو متعلقہ پٹیشنز کی سماعت شروع کر دی جن میں مسلح افواج کے خلاف من گھڑت خبر کا معاملہ بھی شامل تھا۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے ہیں، جنہوں نے ذاتی طور پر پیش رفت کرتے ہوئے اسلام آباد میں پیدا ہونے والی خانہ جنگی کی صورت حال کو تحلیل کر دیا اور پانامہ گیٹ سکینڈل پر تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن مقرر کر دیا ہے جس کو تحقیقات کے مکمل اختیارات حاصل ہیں جو دیگر افراد سمیت وزیراعظم اور ان کی فیملی سے بھی تحقیقات کرے گا نیز مخالف پارٹیوں سے ٹی او آرز کے بارے میں 3 نومبر تک تجاویز طلب کر لی ہیں۔
بنچ نے اعلان کیا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا تاکہ جلد از جلد فیصلہ ہو سکے لیکن جب 3 نومبر کو پارٹیاں تجاویز نہ دے سکیں تو سپریم کورٹ نے انھیں پیر 7 نومبر تک کا وقت دیدیا نیز وزیراعظم کے تین بچوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اس تاریخ تک اپنے جوابات جمع کرا دیں۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ وزیراعظم کی ''لیگل ٹیم'' پیر کو بھی تاخیری حربے استعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔
دونوں اطراف جیتنے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ عمران خان نے اپنی کامیابی کا جشن منانے کے لیے ایک ریلی کا اہتمام کیا۔ اب دیکھنے کی یہ بات ہے کہ حکومت اس صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے ن لیگ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس کے جواب میں عمران خان پر حملے تیز کر دیے گئے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ وزیراعظم کی یہ اخلاقی ذمے داری تھی کہ وہ اپنے تئیں احتساب کے لیے پیش کرتے اور خود کو الزامات سے بری الذمہ قرار دلواتے۔
ایک امریکی صدر کو ایک قابل احترام ریٹائرڈ جنرل نے نصیحت کی تھی کہ اپنی عزت بچانے کے لیے ویتنام جاؤ اور جیت کا اعلان کر کے فوراً واپس آ جاؤ تا کہ بھرم قائم رہ سکے۔ اب جو ٹی او آرز سپریم کورٹ تیار کرے گی جس سے ن لیگ اور اپوزیشن کے ٹی او آرز کا ڈیڈلاک دور ہو جائے گا۔ اس میں ثبوت کی ذمے داری ان پر ہے جو پانامہ گیٹ میں ملوث ہیں۔ انھیں پوری وضاحت کرنا پڑے گی اور بتانا پڑے گا کہ رقوم پاکستان سے باہر کس طرح منتقل ہوئیں۔
فاضل جج حضرات نے نیب کی کارکردگی کے بارے میں منفی ریمارکس دیے ہیں کہ وہ قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن (5) 9 کے تحت ایکشن نہیں لے سکی جو کہ کسی بھی سرکاری افسر کے خلاف ناجائز دولت اکٹھی کرنے کی صورت میں لیا جانا چاہیے اور یوں نیب اپنے آئینی اختیارات استعمال کرنے میں بھی ناکام رہی۔
31 اکتوبر کو صوابی انٹرچینج پر جو واقعہ پیش آیا وہ وفاق کے لیے بہت خطرناک تھا۔ اس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ریت کے بھرے ہوئے کنٹینر پی ٹی آئی کے قافلے کو روکنے کے لیے لگا دیے گئے۔ جس قافلے کی قیادت کے پی کے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کر رہے تھے اور انھیں پنجاب پولیس اور ایف سی کے دستوں نے شدید آنسو گیس کا نشانہ بنایا۔
کے پی کے کے وزیراعلیٰ نے جو کہا اس سے ان کے شدید غصے کے لیے اظہار ہوتا ہے جس سے ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک مضمرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ اگر وفاق کے وزیراعظم' ان کے وزرا یا دوسرے حکام کو کسی صوبے میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جائے تو کیا ہو گا؟
تحریف شدہ خبر کے بارے میں جو پی ایم آفس سے کہا گیا کہ اس خبر کا تعلق این ایس سی اور این اے پی کے اجلاس سے متعلق تھا جسے قومی سلامتی کے منافی قرار دیا گیا۔ اس کا ملبہ پرویز رشید پر ڈالا گیا اور انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور آزادانہ تحقیقات کی ہدایت کر دی گئی ہے، تاہم باور کیا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر اس خبر کے مصنف نہیں تھے البتہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس خبر کو پاکستان کے خلاف اپنے پراپیگنڈے کے لیے تواتر کے ساتھ استعمال کیا۔ گویا مودی پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
گوا میں ہونے والے ''برکس'' کے اجلاس میں مودی نے پاکستان پر دہشت گردی کی پرورش کا الزام لگایا لیکن کانفرنس کے شرکاء میں چین اور برازیل کے علاوہ روس نے بھی بھارت کی حمایت سے انکار کر دیا حالانکہ اس کے بھارت کے ساتھ بڑے قدیم اور طویل تعلقات ہیں۔ دراصل بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظالمانہ اور پر تشدد واقعات سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
جون2015ء میں بھارتی وزیراعظم مودی نے ڈھاکا میں پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی اور اسی سال دسمبر میں کابل میں اسی حرکت کو دہرایا اور امریکی صدر اوباما' چینی صدر شی اور دیگر عالمی رہنماؤں جن میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمنی کی چانسلر میرکل بھی شامل تھیں ان پر زور دیا کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیدیا جائے۔ لیکن دوسری طرف دسمبر 2015ء میں کابل سے واپسی پر وہ اچانک لاہور میں اتر آئے اور وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی ایک شادی میں اچانک شرکت کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ شریف فیملی بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے جب کہ ہماری سرحدوں کے قریب رہنے والے شہریوں پر بھارتی فوج کی روزانہ گولہ باری سے بے شمار لوگ شہید ہو رہے ہیں۔
پاکستان نے عالمی رائے عامہ کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ایک 35-30 رکنی ٹیم باہر بھیجی ہے جب کہ متنازعہ خبر کے نتیجے میں وزیراطلاعات کی برطرفی کو بعض حلقے قربانی کا بکرا قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔