زبان کا ارتقا
زبان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی انسان کی اپنی تاریخ
زبان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی انسان کی اپنی تاریخ ۔ تقریبا پچاس لاکھ سال قبل بن مانس نما انسان نے اپنے وجود کے وقت سے زبان کا استعمال شروع کیا۔ ہاں مگراس کے طور طریقے الگ الگ تھے۔ پہلے انسان voice language یعنی 'آوازکی زبان' استعمال کرتا تھا۔ یعنی ہا ، ہو،آہ وغیرہ وغیرہ۔آج بھی اس کی باقیات موجود ہیں۔
جب خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں توہم آج بھی ہا، ہو کی آ واز لگاتے ہیں۔ بعد ازاں جب آوازیں دور تک نہیں پہنچتی تھیں توپھرsignal languageیعنی ''اشاروں کی زبان'' وجود میں آئی اور یہ زبان کافی عرصے تک چلتی رہی ، پھر جب گھپ اندھیرے میں اشارے بھی نہیں پہنچتے تھے توانسانوں نے غوروفکرشروع کیا۔اپنی سوچ کو تفصیل میں بیان کرنے کے لیے تصاویرکا سہارا لیا گیا ۔ان تصاویرکو یکجا کرکے معنی میں تبدیل کردیاگیا۔
آثار قدیمہ کی کھدائی سے ایسی پتھرکی چھڑیاں ملی ہیں جن پر تسلسل میں تصویریں بنی ہوئی ہیں ۔مثال کے طور پر ہرن اورمچھلی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب کھانا کھانا ہے۔ انھیں pictographical language یعنی' تصاویرکی زبان'کہاجاتا ہے ۔ مشرق بعید کی بیشتر زبانیں آج بھی تصویرکی شکل میں لکھی پڑھی جاتی ہیں۔
چین اور جاپان میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں ۔مثال کے طور پر ایک تصویر بنالی، اسے ایک قومیت کا آدمی مرغی پڑھے گا، دوسری قومیت کا ککڑ اور تیسری قومیت کا کچھ اور ۔ چینی زبان کو مینڈرین کہا جاتا ہے ۔اب تصویرکی زبان استعمال کر نے سے ہر قومیت کا آدمی اپنی اپنی زبان میں پڑھتا ہے ، ہاں مگر اکثریت چائینز بولتی ہے۔
جاپان میں بھی تصویری زبان استعمال ہوتی ہے، ان کے ہزاروں حروف ہوتے ہیں۔ دنیا بھرکے حروف تہجی تصاویرکی زبان سے ہی منتقل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پرگائے کی سینگ کو الٹ لیں تو انگریزی کا A بن جاتا ہے، دونوں آنکھوں کو سیدھا کرلیں تو انگریزی کا B بن جاتا ہے، ہونٹ کوگھما لیں تو انگریزی کا C بن جاتا ہے۔ اس طرح سے دنیا کی ساری زبانوں نے تصاویرکی زبانوں سے حروف تہجی کی جانب سفرکیا ہے۔
برصغیرکی زبانوں پر سنسکرت کا غلبہ ہے ۔اس لیے یورپ سے بنگال تک ایک ہی قسم کے حروف تہجی ہے ۔ مثال کے طور پرKLMN،ک ل م ن ،کو لو مو نو۔ ہم نے انگریزی ، عربی اور بنگلہ کی مثالیں دی ہیں ۔ رومن حروف تہجی سے قبل یونانی حروف تہجی سے لکھا جاتا تھا۔ جیسا کہ الفا، بیٹا،گاما، ڈیلٹا۔بعد ازاں الفا سے اے، بیٹا سے بی،گاما سے سی اور ڈیلٹا سے ڈی لکھا جانے لگا۔ گ کو ج بھی پڑھا جایا ہے ، ج کو ترکی زبان میں س کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔اس لیے عربی، فارسی،اردو پشتو اور سندھی میں پہلے ا ب ج د کی ترتیب میں لکھا جاتا تھا بعد میں سہولت کے لیے ا ب پ ت کی ترتیب میں لکھا جا نے لگا۔
رومن حروف تہجی جسے اے بی سی ڈی میں لکھا جاتا ہے، پورے یورپ، روس، وسطیٰ ایشیا،شمالی اورجنوبی امریکا، ترکی، نائیجیریا، انڈونیشیا، فلپائن اور بہت سے افریقی ممالک میں ان ہی سے لکھاجا تا ہے۔ ا ب ج د سے عالم عرب، ایران،افغا نستان اور پاکستان میں لکھا جاتا ہے۔ ک کھ گ گھ سے پورا ہندوستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا کی آدھی آبادی اور بنگلہ دیش میں لکھا جاتا ہے، جب کہ جنوبی بھارت، سری لنکا کی بڑی اکثریت، برما، کمبوڈیا، لاؤس، ملائیشیاکی ایک اچھی آبادی دڑا بین حروف تہجی میں لکھتی ہے۔ دنیا کے معروف علم لسانیات اور ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ آج سے پچاس برس قبل دنیا میں آٹھ ہزار چھ سو زبانیں تھیں جو اب معدوم ہوکر چھ ہزارچار سو زبانیں رہ گئی ہیں۔
دنیا میں اس وقت سات ایسی زبانیں ہیں جو دوسری زبانوں میں ضم ہورہی ہیں اور وہ ہیں انگریزی، اسپینش، روسی، میڈیرین، انڈونیشین، ہندی یا اردو اور سوہالی۔ زبان صرف اظہار را ئے کا ذریعہ ہے۔ انسان کسی نہ کسی طور پر اپنے خیالات اورخواہشات کا ظہار زبانوں کے ذریعے کرتا ہے ۔زبانیں کوئی سرجوڑکر بیٹھنے سے نہیں بنیں بلکہ یہ تا ریخی ارتقاء میں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں ۔
عالمی سامراج یعنی سرمایہ داری نے لڑاؤ اورحکومت کرو کے فار مولے پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے عوام کو زبان، قو میت، رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پرتقسیم کیا ہے اور اسی اندھی حب الوطنی، قوم پرستی، خطہ پرستی، لسانی اور نسل پرستی کی بنیاد پرآج بھی بہت سارے لوگ لڑ رہے ہیں ۔ یہ کام عالمی سامراج سمجھ بوجھ سے اور منصوبہ بندی سے کرواتا ہے تاکہ لوگ سامراجی سازشوں کو اور طبقاتی استحصال کو بھول کر آپس میں ہی الجھے رہیں ۔ ہمارے برصغیرکی بہتر مثال دی جاسکتی ہے۔
بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تقسیم میں ساٹھ لا کھ لوگ جان سے جاتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ تینوں ملکوں میں دنیا میں سب سے زیادہ غربت ہے، اس دنیا میں روزانہ اسی کروڑ انسان رات کو کھانا کھائے بغیر سوجاتے ہیں، جن میں چالیس فیصد جنوبی ایشیا کے ہیں اوران میں سے اسی فیصد برصغیرکے ہیں ۔ اس جدید دور میں بھی دنیا لسانی بنیادوں پر تقسیم ہے ۔کون سا ایسا خطہ ، ملک یا صو بہ لسا نی بنیادوں پہ تقسیم نہیں ہے ۔دنیا کو متحد صرف اورصرف دنیا کے محنت کش اور پیداواری قوتیں کرسکتی ہیں۔
اٹھارہ سوچھیاسی میں شکاگو کے مزدوروں نے کام کے اوقات آٹھ گھنٹے کروانے کے لیے ہڑتال کی کال دی تھی جس پر دنیا بھرکے مزدوروں نے لبیک کہا تھا،انیس سو انیس میں جب سوویت یونین پر بیس سامرا جی ملکوں نے حملہ کردیا تھا توکمیونسٹ انٹرنیشنل کے کال پر دنیا بھرکے محنت کشوں نے ہڑتال کردی تھی ، نتیجتا سامراجی حملہ روک کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔
چند سال قبل وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے اٹھاسی ملکوں کے نو سو شہروں میں''ہم ننانوے فیصد ہیں'' کا نعرہ دیکر مزدورطبقے کی عالمگیریت کو ثابت کردیا ۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کے کمیونسٹ اتحاد نے ہڑتال کی کال دی جس میں اٹھارہ کروڑ انسا نوں نے شرکت کی ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف مزدور طبقہ ہی ہے جو دنیا بھرکے عوام کو بلا رنگ ونسل اور لسانی بنیادوں سے بالا تر ہوکر انسانی برادری کی بنیاد پر متحدکرسکتا ہے۔
جب خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں توہم آج بھی ہا، ہو کی آ واز لگاتے ہیں۔ بعد ازاں جب آوازیں دور تک نہیں پہنچتی تھیں توپھرsignal languageیعنی ''اشاروں کی زبان'' وجود میں آئی اور یہ زبان کافی عرصے تک چلتی رہی ، پھر جب گھپ اندھیرے میں اشارے بھی نہیں پہنچتے تھے توانسانوں نے غوروفکرشروع کیا۔اپنی سوچ کو تفصیل میں بیان کرنے کے لیے تصاویرکا سہارا لیا گیا ۔ان تصاویرکو یکجا کرکے معنی میں تبدیل کردیاگیا۔
آثار قدیمہ کی کھدائی سے ایسی پتھرکی چھڑیاں ملی ہیں جن پر تسلسل میں تصویریں بنی ہوئی ہیں ۔مثال کے طور پر ہرن اورمچھلی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب کھانا کھانا ہے۔ انھیں pictographical language یعنی' تصاویرکی زبان'کہاجاتا ہے ۔ مشرق بعید کی بیشتر زبانیں آج بھی تصویرکی شکل میں لکھی پڑھی جاتی ہیں۔
چین اور جاپان میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں ۔مثال کے طور پر ایک تصویر بنالی، اسے ایک قومیت کا آدمی مرغی پڑھے گا، دوسری قومیت کا ککڑ اور تیسری قومیت کا کچھ اور ۔ چینی زبان کو مینڈرین کہا جاتا ہے ۔اب تصویرکی زبان استعمال کر نے سے ہر قومیت کا آدمی اپنی اپنی زبان میں پڑھتا ہے ، ہاں مگر اکثریت چائینز بولتی ہے۔
جاپان میں بھی تصویری زبان استعمال ہوتی ہے، ان کے ہزاروں حروف ہوتے ہیں۔ دنیا بھرکے حروف تہجی تصاویرکی زبان سے ہی منتقل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پرگائے کی سینگ کو الٹ لیں تو انگریزی کا A بن جاتا ہے، دونوں آنکھوں کو سیدھا کرلیں تو انگریزی کا B بن جاتا ہے، ہونٹ کوگھما لیں تو انگریزی کا C بن جاتا ہے۔ اس طرح سے دنیا کی ساری زبانوں نے تصاویرکی زبانوں سے حروف تہجی کی جانب سفرکیا ہے۔
برصغیرکی زبانوں پر سنسکرت کا غلبہ ہے ۔اس لیے یورپ سے بنگال تک ایک ہی قسم کے حروف تہجی ہے ۔ مثال کے طور پرKLMN،ک ل م ن ،کو لو مو نو۔ ہم نے انگریزی ، عربی اور بنگلہ کی مثالیں دی ہیں ۔ رومن حروف تہجی سے قبل یونانی حروف تہجی سے لکھا جاتا تھا۔ جیسا کہ الفا، بیٹا،گاما، ڈیلٹا۔بعد ازاں الفا سے اے، بیٹا سے بی،گاما سے سی اور ڈیلٹا سے ڈی لکھا جانے لگا۔ گ کو ج بھی پڑھا جایا ہے ، ج کو ترکی زبان میں س کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔اس لیے عربی، فارسی،اردو پشتو اور سندھی میں پہلے ا ب ج د کی ترتیب میں لکھا جاتا تھا بعد میں سہولت کے لیے ا ب پ ت کی ترتیب میں لکھا جا نے لگا۔
رومن حروف تہجی جسے اے بی سی ڈی میں لکھا جاتا ہے، پورے یورپ، روس، وسطیٰ ایشیا،شمالی اورجنوبی امریکا، ترکی، نائیجیریا، انڈونیشیا، فلپائن اور بہت سے افریقی ممالک میں ان ہی سے لکھاجا تا ہے۔ ا ب ج د سے عالم عرب، ایران،افغا نستان اور پاکستان میں لکھا جاتا ہے۔ ک کھ گ گھ سے پورا ہندوستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا کی آدھی آبادی اور بنگلہ دیش میں لکھا جاتا ہے، جب کہ جنوبی بھارت، سری لنکا کی بڑی اکثریت، برما، کمبوڈیا، لاؤس، ملائیشیاکی ایک اچھی آبادی دڑا بین حروف تہجی میں لکھتی ہے۔ دنیا کے معروف علم لسانیات اور ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ آج سے پچاس برس قبل دنیا میں آٹھ ہزار چھ سو زبانیں تھیں جو اب معدوم ہوکر چھ ہزارچار سو زبانیں رہ گئی ہیں۔
دنیا میں اس وقت سات ایسی زبانیں ہیں جو دوسری زبانوں میں ضم ہورہی ہیں اور وہ ہیں انگریزی، اسپینش، روسی، میڈیرین، انڈونیشین، ہندی یا اردو اور سوہالی۔ زبان صرف اظہار را ئے کا ذریعہ ہے۔ انسان کسی نہ کسی طور پر اپنے خیالات اورخواہشات کا ظہار زبانوں کے ذریعے کرتا ہے ۔زبانیں کوئی سرجوڑکر بیٹھنے سے نہیں بنیں بلکہ یہ تا ریخی ارتقاء میں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں ۔
عالمی سامراج یعنی سرمایہ داری نے لڑاؤ اورحکومت کرو کے فار مولے پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے عوام کو زبان، قو میت، رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پرتقسیم کیا ہے اور اسی اندھی حب الوطنی، قوم پرستی، خطہ پرستی، لسانی اور نسل پرستی کی بنیاد پرآج بھی بہت سارے لوگ لڑ رہے ہیں ۔ یہ کام عالمی سامراج سمجھ بوجھ سے اور منصوبہ بندی سے کرواتا ہے تاکہ لوگ سامراجی سازشوں کو اور طبقاتی استحصال کو بھول کر آپس میں ہی الجھے رہیں ۔ ہمارے برصغیرکی بہتر مثال دی جاسکتی ہے۔
بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تقسیم میں ساٹھ لا کھ لوگ جان سے جاتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ تینوں ملکوں میں دنیا میں سب سے زیادہ غربت ہے، اس دنیا میں روزانہ اسی کروڑ انسان رات کو کھانا کھائے بغیر سوجاتے ہیں، جن میں چالیس فیصد جنوبی ایشیا کے ہیں اوران میں سے اسی فیصد برصغیرکے ہیں ۔ اس جدید دور میں بھی دنیا لسانی بنیادوں پر تقسیم ہے ۔کون سا ایسا خطہ ، ملک یا صو بہ لسا نی بنیادوں پہ تقسیم نہیں ہے ۔دنیا کو متحد صرف اورصرف دنیا کے محنت کش اور پیداواری قوتیں کرسکتی ہیں۔
اٹھارہ سوچھیاسی میں شکاگو کے مزدوروں نے کام کے اوقات آٹھ گھنٹے کروانے کے لیے ہڑتال کی کال دی تھی جس پر دنیا بھرکے مزدوروں نے لبیک کہا تھا،انیس سو انیس میں جب سوویت یونین پر بیس سامرا جی ملکوں نے حملہ کردیا تھا توکمیونسٹ انٹرنیشنل کے کال پر دنیا بھرکے محنت کشوں نے ہڑتال کردی تھی ، نتیجتا سامراجی حملہ روک کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔
چند سال قبل وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے اٹھاسی ملکوں کے نو سو شہروں میں''ہم ننانوے فیصد ہیں'' کا نعرہ دیکر مزدورطبقے کی عالمگیریت کو ثابت کردیا ۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کے کمیونسٹ اتحاد نے ہڑتال کی کال دی جس میں اٹھارہ کروڑ انسا نوں نے شرکت کی ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف مزدور طبقہ ہی ہے جو دنیا بھرکے عوام کو بلا رنگ ونسل اور لسانی بنیادوں سے بالا تر ہوکر انسانی برادری کی بنیاد پر متحدکرسکتا ہے۔