تُو بھی تو دلدار نہیں
یہ ظالم ملکی ترقی کے دشمن ہیں، ملک آج 2013 سے کہیں بہتر ہے
میرے مضمون کا عنوان دراصل ایک معروف شعر کا ادھورا مصرعہ ہے، جو تکمیل کا اِذن چاہتا ہے۔ لہٰذا مکمل کرتے ہیں۔
ہم وفادار نہیں...تُو بھی تو دلدار نہیں
دوستو! آج ملکی فضا الزام، جوابی الزام، شکوک و شبہات، اندیشوں، وسوسوں سے گرد آلود ہے۔ جس میں تبدیلی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ تو کہیں اٹل رہنے کے ارادے۔ کوئی کہتا ہے اسے پکڑ لو یہ چور ہے، حساب تو دینا پڑے گا، 40 سالوں سے ملک کو لوٹ رہا ہے ملک کے کھربوں روپے منی لانڈرنگ سے بیرون ملک بھیج دیے توکوئی فریاد کناں ہے۔
یہ ظالم ملکی ترقی کے دشمن ہیں، ملک آج 2013 سے کہیں بہتر ہے، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ قریب ہے، پاک چین راہداری سے ملک میں ترقی کا انقلاب آجائے گا، ان سے ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔ جواب آتا ہے ہم پاک چین راہداری کے خلاف ہیں، ان سے کرپشن کا حساب لو،کہتے ہیں راہداری خطرے میں آجائے گی اور بھائی حساب لاؤ جان نہیں چھوٹے گی، ادھر 2013 سے پہلے والوں کی آواز آتی ہے۔ ''آواز دے کہاں ہے' دنیا ابھی تک جواں ہے''۔ ملک میں باقی کیا رکھا ہے عوام نے درد چھپا رکھا ہے۔
ہم آرہے ہیں، تم ذرا مال جمع کرو، اپنا شہید بھی تیار ہے، مولانا نے تڑکا لگایا، جوکرنا ہے جلدی کرلو، قیامت آنے والی ہے، علامہ بولے کفن پہن لوں، برخوردار نے کہا آپ کی کئی دن سے طبیعت ناساز ہے۔
ذرا بہتر ہو لینے دیجیے۔ بھائی والوں نے کہا پرانا واپس لو، نیا صوبہ دو،ان دنوں فضا عجب طرح رنگدار ہے، ٹی وی آن کرتے ہی بین کرنے کی آوازیں آتی ہیں، ارے شہید کردیا ظالموں نے ایک حکومتی وزیر کو شہید کردیا، کس عمر میں قربانی لی، ارے اس عمر میں تو قربانی قبول بھی نہ ہوتی کسی نے ذرا نہ سوچا پیرانہ سالی کا تو خیال کیا ہوتا۔ لیکن بھائیو! اس رنگارنگ فضا کے ایک طرف بڑی گہری گھٹا ہے۔
سرمئی، کالی گھٹا، جہاں بجلیاں کڑک رہی ہیں۔ بادل گرج رہے ہیں، ایک طوفان باد وباراں کی آمد آمد ہے۔ کسی نے سرگوشی میں پوچھا، خبر لیک کرنے والا کون ہے؟ جواب دھیرے سے دیا گیا۔ بہت طاقتور آدمی۔ سوال ہوا امریکا سے بھی زیادہ؟ جواب نہیں لیکن تعلق وہیں سے ہے۔ سوال اب کیا ہوگا؟ جواب میموگیٹ یاد ہے؟ بس اس کے اریب قریب۔ سوال لیکن میں نے تو سنا ہے بھائی کی طرح (مائنس ون) ہو رہا ہے۔ جواب ممکن ہے، نیا کون؟ نثار۔ جواب امکان ہے۔ قدردانو! یہ اپنا ملک پاکستان ہے جہاں پاک لوگ رہتے بستے ہیں۔
شیخ مجیب نے الیکشن جیت لیا کسی نے بیان دیا ملک توڑ دے گا، حکومت مت دینا۔ اسے بھنک مل گئی اس نے کہا ہم ملک کیوں توڑے گا ہم تو جیتا ہے ہم پاکستان کو مضبوط کرے گا۔ کسی نے نہیں سنا آپس میں بات ہوئی بنگلہ بند ہو۔اوہ مچھلی کی باس آتی ہے۔ بھوکا الگ ہے تو کیا کریں ارے کہہ دو اپنے محلے میں رہے جو بنانا ہے بنالے ادھر جھانک کر بھی نہ دیکھے۔ وہ بھی پاگل تھا۔ جھانک کر ہی نہ دیا۔
عزیز ہم وطنو! دنیا میں جو رنگ ایجاد بھی نہیں ہوئے ان سے ہماری ہوا معطر ہے۔ پاکستان ہر 10 سال بعد بنتا ہے، نیا ہوتا ہے نئے کپڑے پہنتا ہے اس کی تزئین وآرائش کی جاتی ہے اور خوش قسمتی سے 10 سال پورے ہونے کو آئے تو باد بہاری بھی چلنے کو تیار، ہندو نئے نئے ہیں مسلمان نئے نئے، اسلام آباد بند، راستے جام، اسپتال، اسکولز، عدالتیں Lock Down۔ کبھی کبھی انڈیا کی احمقانہ چالوں پر ہنسی آتی ہے، خوامخواہ شور مچاتا ہے اربوں ڈالرز کے ہتھیار، لڑاکا طیارے خریدتا ہے، پاگل ہے، ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ انچ برابر ہم کو چوٹ نہیں دے سکتا۔
بھیا سیدھا ایٹم بومب دے ماریں گے۔ وہ بھی بعد کو، پہلے تو سسرے کو اتنے طعنے دیں گے کہ انسان ہوا تو شرم سے ڈوب مرے گا۔ زیادہ اینٹھا تو سارے چینل بند۔ لے کر لے بیٹا! شرارتیں۔ نہیں دیکھتے تیرا Life Ok، Nigin۔ جا اب تو خود دیکھ اپنے ڈرامے۔ یار! وہ نہ مان رہے، کہتے ہیں قربانی چھوٹی ہے۔ ذرا بڑی دو۔ تو اب اور کس کی دیں؟ ثنا اللہ چلے گا؟ اونہہ نہیں...تو... سوچ کر بتائیں گے۔
فی الحال گاڑی چلنے دو۔
لیکن اسے تو پٹہ ڈالو۔ جب دیکھو گالی دیتا ہے۔ اوئے...ابے تبے سے بات کرتا ہے۔ بات بات پر حساب...ارے حساب کیا ہم ساتھ لے کر گھوم رہے ہیں۔ خزانے کے وزیر کو بولو وہ تیز ہے دے دے گا۔ لیکن راز کیسے کھلا یہ پتا کرو، کس نے کھولا؟ کون کون اور ہے؟
بھئی! مجھ سے تو قسم لے لو۔ چھوٹا بھائی ہوں لیکن اللہ نے اتنی عقل دی ہے سب سے بنا کر رکھتا ہوں OK Carry On۔
لے بھئی! وہ(کراچی کا معروف سیاستدان) بھی گیا دھرنے میں، پارٹی جوائن کر رہا ہے۔
تو کیا ہوا ایم کیو ایم میں بھی تو گیا تھا، جب بھی بہت وعدے کر رہا تھا، ایک سیٹ کا آدمی نہیں رہ گیا، باتیں آسمان کی۔ یہ میڈیا والے بھی... اللہ نمٹے ان سے۔ آدمی کا کیا بنادیتے ہیں، یعنی آج اس سیاستدان کی باتیں سن کر یہ لگ رہا تھا جیسے پاکستان کا سب سے اہم اور طاقتور انسان یہی ہے۔
ہاں یہ تو ہے، خبر تو بیچنی پڑتی ہے ناں۔ وہ بھی کیا کریں ورنہ کدھر سے کھائیں، کاروبار تو مسلم لیگ ن کے زمانے میں ہوتا نہیں۔ یہ بتا یہ کرتا کیا ہے؟ جو اس دور حکومت میں ٹکے کا دھندا باقی نہیں رہ جاتا۔ سب ختم، جس کو دیکھو رو رہا ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔
یار! یہ دراصل خود بہت بڑا بزنس ٹائیٹینک ہے۔ اس کی کم از کم 50 بڑی فیکٹریز ہیں، اب تُو چائنا راہداری کو لے لے۔ اس میں جو بھی کچھ تعمیر ہوگا اس کا میٹریل کدھر سے جائے گا۔ دیکھ ناں، سب سے بڑی اسٹیل مل، میاں کی، شوگر مل، کاٹن ملز، چکن فوڈ، سی فوڈ، سریا انڈسٹری، سب مقامی انڈسٹریز کیں تو چائنا پیک میں جو تعمیر ہوا، مال تو ادھر سے ہی جائے گا ناں۔ تجارتی منصوبہ بندی اس انداز میں کی جاتی ہے جس سے ترقی ہو۔ ہو کہیں پر بھی۔ ارے مزدوری تو عوام کو ملے گی ناں۔
تو پھر عمران خان کو کیا تکلیف؟
حکومت مخالف سیاستدان کو کوئیپریشانی نہیں۔ بس تھوڑی ترنگ ہے جھوم جاتا ہے، گھوم جاتا ہے۔ پھر کہاں جاتا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ جیسے آج کل غصے میں ہے، فون اس کو بھی آیا ہوگا کہ تھوڑا گھر سے نکل کر چہل قدمی کرو، ورنہ وزن بڑھ جائے گا۔ فون کس کا ہوگا؟
دیکھو...اتنا مت سوچو۔ کہانی لکھی ہوئی ہے۔ بدلے گی تو جب...جب دھرنے میں آدمی زیادہ آجائیں۔ یعنی غیر متوقع۔ 10 لاکھ نہ ہوں2 لاکھ بھی آگئے تو امکان ہے۔
تو کہہ رہا ہے دونوں کا Relation ہے؟
میں نہیں بول رہا، مجھے مت مروا۔ یہ پاکستان ہے۔ پاک لوگوں کا استھان۔ میرے بھائی! یہ سب میرے ذہن کی اختراع ہے۔ دماغ ان دنوں کام نہیں کرتا صحیح سے۔ کاروبار ہے نہیں، موجودہ حکمرانوں کے زمانے میں دھندا بیٹھ جاتا ہے۔ کیا کریں دماغ میں عجیب طرح کے خیالات آتے ہیں۔ آہ...
ہم وفادار نہیں تُو بھی تو دلدار نہیں