ترکی میں اپوزیشن جماعت کے 2 کرد رہنما 11 ارکان پارلیمنٹ گرفتار سوشل میڈیا پر بھی پابندی عائد
پولیس نے کرد اپوزیشن جماعت پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے2اہم رہنماؤں اور ان کے11ارکان پارلیمنٹ کو گرفتارکیا، 4کے وارنٹ جاری
ISLAMABAD:
ترک حکام نے کردنواز پارٹی کے2اہم مرکزی لیڈروں اور کئی ارکانِ پارلیمنٹ کو حراست میں لے لیا،ان کی حراست کے چند گھنٹوں بعد ہی کرد علاقے دیار بکر میں ایک پولیس آفس کے باہر کار بم دھماکے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت8 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے، حکام نے ترکی میں سوشل میڈیا سائٹس ٹویٹر اور واٹس ایپ تک عوام کی رسائی پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
ترک وزارت داخلہ کے مطابق مختلف پولیس چھاپوں کے دوران کرد نواز اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے 2 اہم ترین رہنماؤں صلاح الدین ڈیمیرٹاس اور خاتون رہنما فیگن یکسیکڈا اور ان کے 11ارکان پارلیمنٹ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ 4 دیگر رہنماؤں کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
یہ گرفتاریاں کرد آبادی کیخلاف انقرہ حکومت کے کریک ڈاؤن کو وسعت دینے کے بعد کی گئیں۔کرد نواز پارٹی کے سربراہ صلاح الدین ڈیمیرٹاس کو پولیس نے گزشتہ صبح ان کے گھر پر نظربند کر دیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی ترک پارلیمنٹ میں 59 نشستیں ہیں اور کردوں کی مرکزی نمائندہ جماعت ہے۔ پولیس کے چھاپوں اور گرفتاریوں کی لائیو وڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کی گئیں۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں یکسیکڈا کو اپنی گرفتاری کیخلاف زبانی احتجاج کرتے بھی سنا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسی انٹرنیٹ سوشل میڈیا سروسز تک عام رسائی بھی بند کردی گئی اور صارفین کا کہنا تھا کہ وہ ان تک رسائی کیلئے وی پی این کا استعمال کر رہے ہیں جو اس طرح کی بندش کو بائی پاس کر دیتے ہیں' صارفین کو فیس بک استعمال کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کے چند گھنٹوں کرد شہر دیارباقر میں ایک پولیس عمارت کے باہر کار بم دھماکا ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق اور100 سے زائد زخمی ہوگئے جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکہ دیار باقر میں پولیس سٹیشن کے قریب ہوا، دھماکہ اتنا شدید تھا کہ آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
دوسری جانب ترک وزیراعظم علی بن یلدرم نے واقعے میں 8افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکہ کرد باغیوں کی کارروائی ہے جس میں پولیس سٹیشن کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیارباقر کے گورنر دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ بظاہر کار بم دھماکہ معلوم ہوتا ہے جو ''علیحدگی پسند دہشتگرد تنظیم'' کی طرف سے کیا گیا، ترک حکومت یہ الفاظ کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ترک حکام نے کردنواز پارٹی کے2اہم مرکزی لیڈروں اور کئی ارکانِ پارلیمنٹ کو حراست میں لے لیا،ان کی حراست کے چند گھنٹوں بعد ہی کرد علاقے دیار بکر میں ایک پولیس آفس کے باہر کار بم دھماکے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت8 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے، حکام نے ترکی میں سوشل میڈیا سائٹس ٹویٹر اور واٹس ایپ تک عوام کی رسائی پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
ترک وزارت داخلہ کے مطابق مختلف پولیس چھاپوں کے دوران کرد نواز اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے 2 اہم ترین رہنماؤں صلاح الدین ڈیمیرٹاس اور خاتون رہنما فیگن یکسیکڈا اور ان کے 11ارکان پارلیمنٹ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ 4 دیگر رہنماؤں کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
یہ گرفتاریاں کرد آبادی کیخلاف انقرہ حکومت کے کریک ڈاؤن کو وسعت دینے کے بعد کی گئیں۔کرد نواز پارٹی کے سربراہ صلاح الدین ڈیمیرٹاس کو پولیس نے گزشتہ صبح ان کے گھر پر نظربند کر دیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی ترک پارلیمنٹ میں 59 نشستیں ہیں اور کردوں کی مرکزی نمائندہ جماعت ہے۔ پولیس کے چھاپوں اور گرفتاریوں کی لائیو وڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کی گئیں۔ ایسی ہی ایک وڈیو میں یکسیکڈا کو اپنی گرفتاری کیخلاف زبانی احتجاج کرتے بھی سنا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسی انٹرنیٹ سوشل میڈیا سروسز تک عام رسائی بھی بند کردی گئی اور صارفین کا کہنا تھا کہ وہ ان تک رسائی کیلئے وی پی این کا استعمال کر رہے ہیں جو اس طرح کی بندش کو بائی پاس کر دیتے ہیں' صارفین کو فیس بک استعمال کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کے چند گھنٹوں کرد شہر دیارباقر میں ایک پولیس عمارت کے باہر کار بم دھماکا ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق اور100 سے زائد زخمی ہوگئے جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکہ دیار باقر میں پولیس سٹیشن کے قریب ہوا، دھماکہ اتنا شدید تھا کہ آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
دوسری جانب ترک وزیراعظم علی بن یلدرم نے واقعے میں 8افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکہ کرد باغیوں کی کارروائی ہے جس میں پولیس سٹیشن کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیارباقر کے گورنر دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ بظاہر کار بم دھماکہ معلوم ہوتا ہے جو ''علیحدگی پسند دہشتگرد تنظیم'' کی طرف سے کیا گیا، ترک حکومت یہ الفاظ کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کے لیے استعمال کرتی ہے۔