جمہوری نظام اور وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار
کوئی صدر یا وزیراعظم قانون کو ’’اوور رول‘‘ نہیں کر سکتا، اس پر دنیا کے سیاسی و عدالتی فورم پر طویل بحثیں ہو چکی ہیں
لاہور:
سپریم کورٹ نے ٹیکس میں اضافہ کرنے اور استثنیٰ دینے کے بارے وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار کو کالعدم کرنے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی نظر ثانی پٹیشن خارج کر دی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نظر ثانی پٹیشن خارج کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ آئین میں وفاقی حکومت کی تعریف نہیں، وفاقی حکومت کابینہ کو کہا جائے گا جو وزیر اعظم اور وفاقی وزراء پر مشتمل ہے، وزیر اعظم یا کوئی وزیر تنہا وفاقی حکومت نہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا آئین میں وزیر اعظم کی سولو فلائٹ کی گنجائش نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے سولو فلائٹ کا جو بلیغ اشارہ دیا ہے وہ ایک پابہ زنجیر چیف ایگزیکٹو کا نہیں ہے بلکہ اسے یاد دلایا گیا ہے کہ وزیراعظم امور مملکت کی انجام دہی میں اپنی وفاقی کابینہ کو خوشدلی کے ساتھ لے کر چلنے کا پابند ہے۔
جمہوریت یوں بھی نہ کسی فرد واحد کی حکومت ہوتی ہے اور نہ عدالتی آمریت۔ جمہوریت کی تعریف وہی ہے جو ابراہم لنکن نے کی تھی، لہذا وزیراعظم ان معنوں میں جمہور کی نمائندگی پر مامور حکومت کے حوالہ سے قومی خوشحالی، ملکی سلامتی، معیشت و امور خارجہ کے معاملات کی نگرانی کرتے ہوئے ایک اچھی اور ڈلیور کرنے والی عوام دوست انتظامیہ کا سربراہ ہے اور اسے اپنے فیصلوں میں کابینہ کو شریک کرنا چاہیے کیونکہ عدم مشاورت سے داخلی سیاسی کشمکش کو راستہ ملتا ہے، وزراء پھر سینہ گزٹ بے اعتباری، رنجشوں، گروہ بندیوں اور ناراضگیوں میں الجھ کر حکومت کی کارکردگی کے لیے سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔
عدلیہ کا وزیراعظم کو بدیہی طور پر یہ صائب مشورہ ہے جس کا عکس اس امریکی نظام میں ملتا ہے جس کے تحت گزشتہ دنوں امریکی کانگریس نے سعودی حکومت کے خلاف بل پر صدر اوباما کے ویٹو کو مسترد کیا تھا، سینٹ میں بھی اس بل کے خلاف 97 اور حق میں صرف ایک ووٹ آیا۔ وہائٹ ہاؤس نے اسے سینٹ کی طرف سے کئی عشروں کی روایت کے برعکس ایک شرمناک ''ایمبیرسمنٹ'' سے تعبیر کیا جب کہ ویٹو کے استرداد سے اوباما کو سخت صدمہ ہوا، مگر بات وہی آئین و قانون کی پیروی کی ہے جو شفافیت کا تقاضہ کرتی ہے۔
کوئی صدر یا وزیراعظم قانون کو ''اوور رول'' نہیں کر سکتا، اس پر دنیا کے سیاسی و عدالتی فورم پر طویل بحثیں ہو چکی ہیں، پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ کی بالادستی پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، برطانیہ اگرچہ پارلیمانی طرز حکومت سے منسلک ہے تاہم سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر پر صدارتی نظام کی انداز میں حکومت کرنے کا الزام لگا، انہیں برطانوی میڈیا نے آئرن لیڈی کا خطاب دیا جب کہ دوسرے وزیراعظم ٹونی بلیئر تھے جنھوں نے اپنے عوام کو نظر انداز کرتے ہوئے برطانیہ کو عراق جنگ میں الجھا دیا اور وزارت عظمیٰ کے کوچے سے رسوا ہو کر نکلے۔
یہ حقائق در اصل شفاف اور اختیارات کے ذمے دارانہ استعمال پر مبنی طرز حکمرانی کی حساس نزاکتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے لیے اختیارات کے استعمال میں برتی جانے والی آئینی احتیاط خود انہیں قانونی موشگافیوں اور الجھنوں سے بچاتی ہے۔
مذکورہ بالا مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے موبائل فون پر ٹیکس میں اضافہ کے فیصلے کو اس بنیاد پر کالعدم کیا تھا کہ اس میں کابینہ کو نظر انداز کیا گیا، عدالت نے قرار دیا تھا کہ کابینہ کی پیشگی منظوری کے بغیر کوئی بھی مالیاتی بل یا ایس آر او کو آئینی حیثیت حاصل نہیں، وزیر اعظم کو اس بارے میں صوابدیدی اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ مستقبل میں اس طرح کے فیصلے کابینہ کی پیشگی منظوری سے مشروط کیے گئے تھے، اس فیصلے کو وفاقی حکومت نے چیلنج کیا تھا، چنانچہ جمعے کو جب سماعت ہوئی تو سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ مضبوط حکومت کے لیے مضبوط وزیر اعظم ضروری ہے، فوری اور غیر معمولی نوعیت کے معاملات میں وزیر اعظم کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اور قواعد کے مطابق وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار کے تحت ایس آر او جاری کیا جا سکتا ہے جس کی بعد میں منظوری حاصل کی جاتی ہے تاہم اس کے باوجود جب سیاسی کشیدگی عروج پر ہو، اپوزیشن کیسز لے کر عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئی ہو تو انتخابی مہم کے طور پر اسے نیچا دکھانے کے لیے قومی خزانہ لٹانے کی کسی کو اجازت نہیں ملنی چاہیے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمانی طرز حکومت میں مالیاتی بلوں کی منظوری کابینہ سے لینی لازمی ہے، فیصلے وفاقی حکومت کرتی ہے کوئی ایک شخص نہیں۔ انھوں نے کہا کہ قواعد قانون کے پابند ہوتے ہیں اور قانون آئین کا، اگر قواعد آئین کی روح سے متصادم ہوں تو وہ کالعدم ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ اگر اس دلیل کو مانا جائے تو پھر تو وزیر اعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر جو چاہے کر سکتا ہے؟
یہی سوال آئندہ کے طرز حکمرانی کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملکی سیاست کے کئی مہ و سال پارلیمنٹ سے رجوع کیے بغیر بے شمار امور ہنگامی بنیادوں پر طے کیے گئے، آج سیاست اسی غیر جمہوری انداز حکومت کی زخم خوردہ ہے اس لیے حکمراں آئین و قانون سے مطابقت پیدا کرنے کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ شفاف حکمرانی تب ہی یقینی ہو گی۔ بصورت دیگر اسے جمہوری حکمرانی کا اینٹی تھیسس تصور کیا جائے گا اور اسے شخصی حکمرانی کا نام دیا جائے گا جس طرح کنگ لوئیس چہاردہم نے کا مشہور دعویٰ تھا کہ ''میں بذاتِ خود ریاست ہوں''۔