ایک صائب مشورہ
سیاستدانوں کو اپنے الفاظ و بیان میں ذاتیات سے گریز کر کے سیاسی امور کو اولیت دینی چاہیے
لاہور:
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اعتزاز احسن کے بِل کے مطابق پانامہ پیپرز پر جمہوری احتساب ہونا چاہیے ورنہ جوڈیشل کمیشن اور حکومت نہیں چل سکے گی، نواز شریف نے کبھی بھی کسی اسکینڈل کا جواب قوم کو نہیں دیا، جمہوریت بچانی ہے تو شیر کی قربانی دینا ہو گی۔ وہ جمعے کو سندھ کے علاقے ڈہرکی میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اصولی بات جو بلاول بھٹو کے پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اب جب کہ پانامہ ایشو کا معاملہ سپریم کورٹ کے روبرو ہے اور عدالت عظمیٰ فریقین کو باور کرا رہی ہے کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو عدلیہ خود ٹرمز آف ریفرنس تیار کرے گی، اس لیے موجودہ صورت حال میں کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جو پانامہ گیٹ اسکینڈل کی جاری سماعت کے حوالے سے کسی قسم کا ابہام یا کنفیوژن پیدا کرے۔
بلاشبہ پانامہ گیٹ اسکینڈل دنیا کا بڑا اسکینڈل ہے اور اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے لیکن اس اسکینڈل کے لیے جمہوری احتساب کا نعرہ معاملات کو ابہام کا شکار کر سکتا ہے۔ اس موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کو اس اسکینڈل کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں جاری تحقیقات میں ممد و معاون بننا چاہیے تا کہ یہ اسکینڈل اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے۔ بلاول کا یہ کہنا قابل تعریف ہے کہ وہ ملک میں ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں حکمرانوں کا بھی احتساب ہو سکے۔
بے شک پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ بااختیار ریاستی مشینری، منتخب نمائندوں اور حکمرانوں کی جوابدہی کا فول پروف نظام تشکیل دیا جانا چاہیے۔ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے بغیر حکمرانوں کا احتساب ممکن نہیں ہے لہٰذا اس وقت سپریم کورٹ پانامہ گیٹ کی جو سماعت کر رہی ہے اسے بامعنی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں اب سیاست دان اپنی بیان بازی میں روایتی اقدار کو پس پشت ڈالنا شروع ہو گئے ہیں۔
پہلے کارکن سطح کی سیاسی شخصیات ذاتی بیان بازی کرلیتے تھے لیکن اب قائدین کے لب ولہجے میں بھی گراوٹ در آئی ہے۔ ذاتی الزام تراشیوں سے بات نکل کر ایک دوسرے کے والدین کے عیوب و اوصاف کی نشاندہی تک پہنچ رہی ہے۔ یہ اچھی روایت نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے الفاظ و بیان میں ذاتیات سے گریز کر کے سیاسی امور کو اولیت دینی چاہیے کیونہ سیاستدان کا شیوہ ایشوز پر بات کرنا ہوتا ہے۔