بلوچستان کا درد و غم
ہم چلغوزے اور نمکین پستے کھاتے اور اس شہر کے بارے میں سوچتے جو کراچی سے سیکڑوں میل دور تھا
لاہور:
کوئٹہ کا نام پہلی مرتبہ ساڑھے تین چار برس کی عمر میں اس وقت کان میں پڑا جب چوتھی منزل پر بنا ہوا ہمارا پینٹ ہاؤس یخ بستہ ہو گیا۔ امی نے بتایا کہ یہ کوئٹہ سے آنیوالی ہوائیں ہیں جو کراچی کے معتدل موسم کو اچانک سرد کر دیتی ہیں سوئیٹر اور شال میں لپٹے ہوئے ہونے کے باوجود کمروں میں انگیٹھیاں جلتیں اور ان کی ہلکی ہلکی تپش فضا کو گرم کر دیتی۔
ہم چلغوزے اور نمکین پستے کھاتے اور اس شہر کے بارے میں سوچتے جو کراچی سے سیکڑوں میل دور تھا اس کے باوجود وہاں سے چلنے والی خنک ہواؤں کا رخ ہماری طرف ہوتا تو چند دنوں کے لیے سہی ہم بھی سردی کا لطف اٹھاتے۔
پھر ایک رات ہمارے رشتے کے ایک چچا آ پہنچے۔ ان کی عرصہ دراز سے کوئی خیر خبر نہیں تھی، قریبی رشتے دار انھیں رو پیٹ کر بیٹھ گئے تھے اور اب وہ کسی ناول کے کردار کی طرح اچانک آ گئے تھے اور بتا رہے تھے کہ جب وہ تشدد کی وجہ سے گھر چھوڑ کر بمبئی جانے کے لیے نکلے تو کسی غلط ٹرین میں بیٹھے او ر کوئٹہ جا پہنچے۔ وہاں ایک بلوچ خاندان نے انھیں پناہ دی۔ وہ نوشکی لے جائے گئے اور اب وہیں رہتے تھے۔ ان کی شادی ہو چکی تھی اور بلوچستان ہماری رشتہ داریوں کے دائرے میں شامل ہو گیا تھا۔
ہماری چچی بلوچ تھیں۔ وہ شاید صرف ایک یا دو مرتبہ کراچی آئیں اور ان کی گرم جوش محبت آج بھی یاد ہے لیکن غم روزگار نے ان رشتوں کے ساتھ تعلق خاطر کی پرورش کا موقع نہیں دیا اور یہ رشتہ داریاں بڑوں کی رخصت کے ساتھ ہی پس منظر میں چلی گئیں۔ سیاست سے وابستگی ہوئی تو بلوچستان اور کوئٹہ ذہن کے نقشے پر مظلومیت کے حوالے سے اُبھرے۔ ہمارے یہاں سیاست کے کئی رنگ تھے۔
ایک وہ سیاست تھی جس میں راوی چین لکھتا تھا، اور دوسری وہ سیاست جو عہد شکنی، وعدہ خلافی اور بے گناہوں کے لہو سے تربتر تھی۔ خان آف قلات اور ان کے ساتھی سرداروں کی سیاسی بے چینی کو بہانہ بنا کر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل اسکندر مرزا نے 8 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ یوں اپنی موت کے پروانے پر انھوں نے آپ دستخط کر دیے۔ خان آف قلات کو معزول کیے جانے کے بعد بلوچستان میں نفرت اور بغاوت کی آگ سلگ اٹھی۔
اکتوبر 1958ء میں جب حکومت پاکستان نے خان آف قلات کو معزول کیا تھا تب ہی سے بلوچستان میں حکومت پاکستان کے خلاف باغیانہ جذبات عروج پر تھے۔ اسی زمانے میں زرک زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے 90 سالہ سردار نو روز خان زرک زئی نے زہری کے مقام میر بھاٹ کو اپنا مستقر بنا کر حکومت کے خلاف گوریلا کارروائیوں کا آغاز کیا۔
مارشل لا حکومت کے لیے یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی۔ اس نے قرآن کا واسطہ دے کر چند قبائلی سرداروں کو نواب صاحب کے پاس بھیجا اور انھیں ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے وعدے پر ہتھیار ڈالنے کے لیے آمادہ کیا۔ قرآن کو بیچ میں لانے کے بعد 20 مئی 1959ء کو نواب نوروز خان اپنے ساتھیوں سمیت فوجی حکام سے ملنے کے لیے چلے گئے جنھوں نے انھیں گرفتار کر کے رسوائے زمانہ قلی کیمپ میں نظر بند کر دیا۔
مارشل لا کی عدالت میں نواب نوروز خان اور ان کے ساتھیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلا اور یکم اپریل 1960ء کو نواب نوروز خان کے بیٹے میر ٹبے خان زرک زئی اور چھ دیگر افراد (میر ولی محمد، میر بہاول خان، میر سبزل خان، مستی خان، غلام رسول اور میر جمال خان نیچاری) کو موت کی سزا سنادی گئی۔
15 جولائی 1960ء کو ان نوجوانوں کو سولی دے دی گئی جب کہ نوروز خان اور ان کے تین ساتھیوں کو عمر قید کی سزا دی گئی، دو برس بعد نوروز خان اس قید کے دوران، قیدِ حیات سے چھوٹ گئے اور صرف بلوچستان ہی نہیں پاکستان کے ہر انصاف پسند شخص کے سینے میں داغ چھوڑ گئے۔
بلوچستان کا عجب عالم ہے۔ یہاں کبھی ہزارہ وال برادری کے سیکڑوں نوجوان اور بچے ذبح کر دیے جاتے ہیں اور کوئی ان کا ماتم دار نہیں ہوتا۔ بلوچستان میں اس قتل و غارت کی فہرست اتنی طویل ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ بلوچستان میں زیر زمین لگی ہوئی اس آگ کی ابتدا نو روز خان کے بیٹوں اور ساتھیوں کی سولی سے ہوئی تھی اور جس کی انتہا نواب سردار اکبر خان بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر ہوئی۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے وسیع اور معدنیات سے مالامال سب سے امیر صوبہ ہے، اس کے باوجود یہاں کے دہقان، کسان اور مزدور کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کے بارے میں بلوچی کے عظیم شاعر گل خان نصیر نے لکھا:
زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے... خشک و چٹیل دشتِ ناپیدا کنار... اور اس میں جھونپڑیوں کی قطار... کڑکڑاتی دھوپ، تپتا ریگ زار... ہر طرف چھایا ہوا گرد و غبار... چند جانیں نیم عریاں بے قرار... صاحبانِ جاہ و دولت کے شکار... سر چھپائے جھگیوں میں اشکبار... موت کا کرتے ہیں اپنی انتظار... لوگ کہتے ہیں کہ یہ تقدیر ہے... زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے۔
نیم عریاں فاقہ کش مزدور ہے... پیٹ بھر سکتا نہیں مجبور ہے... خانماں برباد ہے، رنجور ہے... محنتِ پیہم سے چکنا چور ہے... محنت اس کی سعی نامشکور ہے... زندگی اس کی سدا بے نور ہے... زیست کی آسائشوں سے دور ہے... ناتواں ہے اس لیے مقہور ہے... ناتوانی کی یہی تفسیر ہے... زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے۔
کڑکڑاتی دھوپ میں ننگا کسان ... ہل چلاتا ہے ضعیف و ناتوان... کاٹتا بوتا ہے لیکن رائیگان... لوٹتے ہیں اس کا حاصل مالکان... خود نہیں ملتی ہے اس کو نیم جان... دوسروں کے سامنے رکھتا ہے خوان... ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن نیم جان... مٹ رہا ہے اس کی ہستی کا نشان... کینہ پرور آسمانِ پیر ہے... زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے۔
اور شاعر کا دلِ اندوہ گیں... دیکھ کر یہ حال ہوتا ہے حزیں... بے نوا مزدور کا کوئی امیں... ڈھونڈنے سے بھی یہاں ملتا نہیں... سب غلامِ صاحبِ تاج و نگیں... چوکھٹِ شاہی پہ ہے سب کی جبیں... چاہیے اِک انقلابِ آتشیں... سرخ شعلوں سے لپٹ جائے زمیں... یہ دعائے شاعر دل گیر ہے... زندگی کی یہ بھی اک تصویر ہے۔
گُل خان نصیر جا چکے ہیں لیکن ان کے کہے ہوئے یہ اشعار آج بھی حرف بہ حرف درست ہیں۔ بلوچستان آزادی کے بعد سے آج تک لہولہان ہے۔
چند ہفتوں پہلے کوئٹہ کی قانون داں برادری کے درجنوں لوگ خاک و خون میں نہلا دیے گئے تھے، ابھی ان کے خون کے دھبے خشک نہیں ہوئے تھے کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کی زمین نوجوانوں کے خون سے سرخ ہو گئی لیکن ان کے ماتم داروں سے پُرسہ کرنے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما نہیں آئے اور کیوں آئیں کہ اس سے انھیں کیا فرق پڑتا ہے جن کے گھروں اور خاندانوں کے نوجوان سات سمندر پار پڑھتے اور رہتے ہیں۔
بوڑھے باپ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں اور لرزتی ہوئی ٹانگوں سے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کاندھا دینے آئے، تو ان پر بھلا کیا خاک اثر ہو۔ وہ کلیجہ شق کر دینے والے اس تجربے سے خدا نہ کرے کہ کبھی گزریں۔ ہمارے ان رہنماؤں کے اپنے شہر پشاور سے اگر یہ خبریں چلی آتی ہیں کہ گزشتہ دنوں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایک مذہبی شدت پسند تنظیم ملوث ہے تو انھوں نے کب پلٹ کر ان معاملات کی تحقیق کی جس کے اثرات ان کے اپنے شہر، صوبے اور سارے ملک پر پڑتے ہیں۔ ان کی فکر مندی اپنے اقتدار کے معاملات کے بارے میں ہے۔
بلوچستان کے شہر گڈانی میں بھوک کے مارے ہوئے مزدور ایک 'ناکارہ' جہاز کو کاٹنے اور توڑنے کے لیے اترے۔ کسی نے یہ تحقیق نہیں کی کہ اس 'ناکارہ' جہاز میں کتنا کارآمد تیل ہے جو چور بازار میں فروخت ہو گا، کسی نے یہ جانچ پڑتال نہیں کی کہ جہاز میں ایسے کتنے گیس سلینڈر موجود ہیں جو ایک چنگاری پڑتے ہی خوفناک بم بن جائیں گے۔
اس وقت بعض خبروں کے مطابق جہاز میں لگی ہوئی آگ بجھ چکی ہے اس کے باوجود فولادی چادریں حدت سے تپ رہی ہیں اور ایدھی رضا کاروں کے لیے ابھی تک ممکن نہیں ہوا ہے کہ وہ جہاز کے اندر اتر کر خاکستر ہو جانے والے مزدوروں کی لاشیں نکال سکیں۔ بعد میں تحقیقاتی کمیٹی کے دورے کے بعد کہا گیا کہ گڈانی جہاز میں لگی آگ بجھا دی گئی۔
ہم میں سے شاید کسی نے نہیں سوچا کہ یہ مزدور اپنا خاندان رکھتے تھے اور ان کے پسماندگان کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے جنھیں نہ جان سے جانے والوں کے بارے میں علم ہے، نہ جھلس کر جاں بہ لب ہو جانے والوں کی خبر۔ گڈانی میں جہاز جل گیا، اس میں اترنے والے مزدور راکھ ہوئے اور یہ راکھ ہم سب کے منہ پر ملی گئی جنھیں بلوچستان کے درد و غم کی خبر نہیں۔