آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
کہتے ہیں زبان وہ قفل ہے جب کھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا لوہے کی
لاہور:
کہتے ہیں زبان وہ قفل ہے جب کھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا لوہے کی۔ خلفائے راشدین کا بھی یہی کہنا ہے کہ انسان اپنی زبان میں پوشیدہ ہے۔ زبان جب کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بولنے والے کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ چاہے انسان کتنے ہی قیمتی کپڑے پہن لے، اپنی دستار خود ہیرے موتیوں سے سجا لے، پاپوش میں بھی آفتاب کی کرنیں لگوا لے، لیکن منہ کھولتے ہی اصلیت کا پتہ چل جاتا ہے۔
ذرا ملاحظہ کیجیے، اخبارات کی چند سرخیاں اور خبریں، جو پاکستانی سیاست دانوں اور حکمرانوں کے اندرونی وجود کو ایکسرے مشین کی طرح سب کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ میرے پیارے نبی آخر الزماںؐ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سب سے زیادہ اچھا اور قابل احترام وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو، اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اچھے اخلاق کے لیے اچھا باطن ہونا ضروری ہے۔ اب ذرا یہ سرخی ملاحظہ کیجیے۔
مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ ''کسی کے باپ کو بھی جمہوریت غیر مستحکم نہیں کرنے دیں گے۔'' کیا یہ لب و لہجہ اور انداز بیاں غیر پارلیمانی، ناشائستہ اور غیرمہذب نہیں ہے؟
ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا اور سنا کے بڑی سے بڑی لڑائی اور جھگڑے میں بھی اگر ایک فریق دوسرے کے ماں باپ تک پہنچتا تھا، تو دوسرے دخل اندازی کر کے اسے شرمندہ کرتے تھے کہ حد سے آگے مت بڑھو اور کسی کے باپ تک نہ پہنچو۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب مہذب لوگ ہر معاملے میں ''پہلے تولو' پھر بولو'' کی روایت پہ قائم تھے۔ کیونکہ ان کا خاندانی پس منظر مختلف تھا۔ خون کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ محاورہ بھی وجود میں آیا کہ ''چور کا بھائی گرہ کٹ۔''
مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کیا کہوں کہ چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ ہے۔ پھر ہمیں ہماری تہذیب بھی کچھ کہنے سے روک دیتی ہے کہ عزت مآب مولانا صاحب ہر حکومت کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ ایک ایسے ستون ہیں جس پر کبھی زرداری مزے سے اپنا تخت بچھائے آرام فرما رہے تھے۔
آج کل موصوف نواز لیگ کے تختہ اقتدار (کہیں آپ اسے تختہ دار نہ پڑھ لیجیے گا، کیونکہ کمپوزر کچھ بھی بنا سکتا ہے) کو کاندھا دیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے پریشان ہیں۔ لیکن لوگ جانتے ہیں کہ حکومت کسی کی بھی ہو؟ مولانا صاحب کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ ان کی سیاست ''سدا بہار'' ہے۔ البتہ اس غیر شائستہ لب و لہجے پر ہمیں انشا اللہ خاں انشاء کا یہ شعر خدا جانے کیوں یاد آنے لگا:
لگے منہ بھی چڑانے' گالیاں دینے لگے صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی' خبر لیجے دہن بگڑا
اب دوسری سرخی ملاحظہ کیجیے۔''پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر امین علی گنڈا پور کی گاڑی سے اسلحہ اور شراب برآمد''۔ ساتھ میں اسلحے کی اور بھاگتے ہوئے وزیر موصوف کی تصویر بھی ہے۔ جب کہ وزیر صاحب کا کہنا ہے کہ بوتلیں شہد کی تھیں، شراب کی نہیں۔ خبر پہ تبصرہ کرنا میرے خیال میں بے کار ہے۔ امین گنڈا پور اور پولیس کے دعوے پر ایک شعر عرض ہے، حسرتؔ موہانی فرماگئے ہیں:
خرد کا نام جنوں پڑ گیا' جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن ِ کرشمہ سازکرے
ایسے واقعات ہر دور میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ کبھی بورک پاؤڈر کو ہیروئن ظاہر کر کے مخالفین کو شکنجے میں کسا جاتا ہے، تو کبھی برسر اقتدار لوگ کروڑوں کی منی لانڈرنگ کرنے والی ملزمہ کو ''ہیروئن'' بنا دیتے ہیں۔ کبھی مخالفین کے جلسوں میں سانپ چھوڑ دیے جاتے ہیں، تو کہیں ایک چھوٹے سے مکان سے اسلحے کی کھیپ کی کھیپ نکال کر میڈیا کو دکھائی جاتی ہے۔
متعلقہ ایس ایچ او اور اپنی اپنی دکانوں کے سیلزمین ''بریکنگ نیوز'' کے طور پر چلا کرگنا پیلنے والی مشین کی یاد دلا دیتے ہیں۔ سیاہ کو سفید کرنا کوئی مسئلہ ہے، خفیہ اداروں کے لیے، نہ تھانوں کے لیے، نہ حکومت کے لیے اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا کے لیے۔ لوگ اب ایسی خبروں کا نوٹس نہیں لیتے۔ بس حیرت ہے تو اس پر کہ ''بلیک لیبل'' کی بوتلوں میں شہد کب سے آنے لگا۔
بے چاری عتیقہ اوڈھو بہت سادہ تھیں کہ شراب کی بوتل کو ٹانک کہہ کر جان نہ چھڑا سکیں؟ لیکن لوگ اتنے بے وقوف اور سادہ نہیں کہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ ایک طرف شراب کی بوتلیں سامان سے نکلنے پر مقدمہ قائم ہو جائے اور دوسری طرف 99 فیصد بیوروکریٹ اور 100 فیصد وردی والوں کے ڈنر میں پیش کی جانے والی اعلیٰ شراب کی لاتعداد بوتلوں اور گلاسوں کا نوٹس ہی نہ لیا جائے۔ وہی حسرت والی بات کہ: جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے''۔
امین گنڈا پور اور عتیقہ اوڈھو کو جواب میں یہ شعر ضرور میڈیا پہ پڑھنا چاہیے تھا کہ:
ناحق ہم ''مجبوروں'' پہ یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں' ہم کو عبث بدنام کیا
لیکن دونوں بے چارے شعر سے واقف ہوتے تو جواب دیتے۔ اسی لیے پولیس سے بھاگتے ہوئے اپنی زلفیں سنوارتے ہوئے جینز اور ٹی شرٹ سنبھالتے ہوئے وہ یہی کہہ سکے کہ بوتلوں میں شہد تھا، جسے پولیس نے شراب بنا دیا۔ افسوس کہ بے رحم پولیس والوں نے حکومت کے کہنے پر شہد پینے والے ''معصوم'' آدمی پر تہمت لگا دی۔ ایک اور ہولناک خبر پڑھ کر دل نے کہا کہ غالبؔ نے ایسے ہی کسی موقع کے لیے کہا ہو گا کہ:
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
سرخی یہ ہے کہ ''جہانیاں نامی علاقے میں مقدمہ ہارنے پر بااثر افراد نے مخالف کی 12 سالہ بیٹی پر کتے چھوڑ دیے۔''
دوسری سرخی یہ ہے۔
''فتح پور میں مخالفین نے خاتون پر کتا چھوڑ دیا، خاتون شدید زخمی۔''
تیسری دردناک خبر مظفر گڑھ سے ہے کہ ''سفاک بھائیوں نے بہن کی آنکھیں نکال دیں، دونوں ٹانگیں کاٹ دالیں۔''
مجھے یا سول سوسائٹی کے کسی بھی فرد کو ان خبروں کی تفصیل پڑھ کر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اگر 1947ء کی تقسیم برصغیر نہ ہوتی تو آج جو یہ دو فیصد مہذب لوگ سول سوسائٹی کے نظر آتے ہیں وہ بھی نہ ہوتے۔ ایک بچی باپ کے مقدمہ جیتنے کی بھینٹ چڑھ گئی کہ مخالفین کے لیے آسان شکار ہمیشہ عورت ہوتی ہے پھر بلوچستان کے ایک سابق وزیر نے کچھ عورتوں پر کتے چھوڑنے کے بعد ہی تو یہ بیان دیا تھا کہ ''عورتوں کو زندہ دفن کرنا ہماری روایت ہے۔''
اسی لیے فتح پور میں بھی جہالت سے بھرپور لوگوں کا جب مردوں پر بس نہ چلا تو انھوں نے بھی عورت ہی کو تر مال سمجھا۔ ادھر مظفر گڑھ کے شہر سلطان میں شریفاں بی بی کی حالت تشویشناک ہے، ان کی بیٹی کا کہنا ہے میری جان کو بھی خطرہ ہے، پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے۔خواہ سانحہ محراب پور اور نواب پور ہو یا پسند کی شادی کر کے باعزت طریقے سے زندگی گزارنے والا مقتول جوڑا جو کراچی میں ایک سال سے مقیم تھا۔ وہ بھی جرگے کے فیصلے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مشرقی پاکستان ''اُدھر تم اِدھر ہم'' کی خواہش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔