یاور حیات

یاور حیات کی وفات سے پی ٹی وی کے سنہرے دور کا آخری چراغ بھی گل ہو گیا ہے


Amjad Islam Amjad November 06, 2016
[email protected]

یاور حیات کی وفات سے پی ٹی وی کے سنہرے دور کا آخری چراغ بھی گل ہو گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی وی کے ابتدائی تقریباً 30 برسوں میں ڈرامہ ڈائریکٹرز میں کئی ایسے نام سامنے آئے جن کو اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے لیکن ان سب میں یاور صاحب کو یہ اختصاص حاصل تھا کہ وہ ڈرامے کی تاریخ، تھیوری اور پروڈکشن تینوں پر یکساں عبور رکھتے تھے ان کا تعلق پی ٹی وی کی اس نسل سے تھا جس نے پاکستان کی حد تک اس کا آغاز کیا تھا۔

عام طور پر ٹیلی وژن پروگراموں میں ڈرامہ، میوزک، خبرنامہ، اسٹیج شوز، حالات حاضرہ کے پروگرام، طنز و مزاح، اسپورٹس، دینی پروگرام، ڈاکیومینٹریز اور لائیو شوز کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ پی ٹی وی کی مقبولیت میں جو رول ڈرامے نے ادا کیا ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں بالخصوص ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں تو پی ٹی وی کے ڈرامے ناظرین کی زندگیوں کا ایک اٹوٹ انگ بن گئے تھے۔

مقبولیت کے اس معیار تک رسائی میں اگرچہ بہت سے عوامل کا حصہ ہے مگر اس کا بہت حد تک کریڈٹ ان چند ڈرامہ پروڈیوسرز کو بھی جاتا ہے جن میں نمایاں ترین نام کنور آفتاب احمد، شہزاد خلیل، محسن علی، محمد نثار حسین، غفران امتیازی اور مرحوم یاور حیات ہی کے ہیں۔ اس دور میں اسلم اظہر، آغا ناصر، فضل کمال، مصلح الدین، ظہیر خان، خالد اعجاز، امیر امام، رفیق وڑائچ، شیریں خان، دُر محمد کاسی، جہانزیب سہیل، اعظم خورشید اور کچھ دیگر پروڈیوسرز نے بھی نام کمایا مگر ان کا بنیادی شعبہ ڈرامہ نہیں تھا۔

شعیب منصور، ایوب خاور، نصرت ٹھاکر، ساحرہ کاظمی، کاظم پاشا، حیدر امام رضوی، راشد ڈار اور طارق معراج سمیت کئی ڈرامہ پروڈیوسرز ان سے اگلے دور میں سامنے آئے اور بہت مقبول اور مشہور بھی ہوئے مگر اس میدان میں جو عزت اور مقبولیت یاور صاحب نے پائی وہ اس اعتبار سے بہت غیر معمولی ہے کہ وہ صرف ناظرین ہی میں مقبول نہیں تھے بلکہ ان کے تمام سینئرز، ہم عصر اور بعد میں آنے والے ڈرامہ پروڈیوسرز کے ساتھ ساتھ ٹی وی کے رائٹرز اور آرٹسٹ بھی ان کو بے حد پسند کرتے تھے۔

میں نے ان کے ساتھ ''دہلیز اور سمندر'' سریلز کے علاوہ چند ہی انفرادی ڈرامے کیے مگر اپنے تمام پروڈیوسرز میں سے سب سے زیادہ میری دوستی یاور صاحب ہی سے تھی کہ ڈرامہ پروڈکشن ان کے لیے صرف پیشہ نہیں بلکہ ایک طرح کا طرز حیات تھا۔ فلم اور ڈرامے کی تاریخ اور تھیوری پر گفتگو شروع ہو تو یاور صاحب تمام محفل کا مرکز نگاہ بن جاتے تھے کہ اس میدان میں ان کی معلومات اور سمجھ بوجھ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔

کچھ اخبارات میں ان کی وفات کی خبر میں میرے سیریل ''وارث'' کو ان کی پروڈکشن لکھا گیا ہے۔ یہ بات واقعاتی طور پر غلط لیکن عملی حوالے سے ایک حد تک صحیح ہے کہ ''وارث'' کی تھیم، کہانی، کردار سازی، کاسٹنگ (Casting) اور اسکرین پلے میں ان کے مشورے شروع سے آخر تک شامل رہے۔

اس کی پہلی تین قسطیں غضنفر علی اور بقیہ 20 نصرت ٹھاکر نے پروڈیوس کیں لیکن وہ دونوں ہی یاور صاحب کو اپنا استاد اور گرو مانتے تھے اور اس کی تصدیق اس ڈرامے کے کسی بھی سین سے کی جا سکتی ہے۔ ''وارث'' کے بعد کے میرے دونوں سیریل یاور صاحب کی فنی استعداد اور غیر معمولی صلاحیت کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔

یاور صاحب کا تکیہ کلام ''چن جی'' تھا اور وہ اپنی گفتگو میں اسے اس طرح سے پروتے تھے کہ ہر بار اسی کی آواز کانوں کو اچھی لگتی تھی۔ زیر لب استہزا یعنی Tongue in Cheek ٹائپ ہیومر میں یاور صاحب کا ایک اپنا مقام تھا۔ وہ ایسا ایسا کاٹ دار جملہ اتنی آسانی سے ہنستے ہنستے کہہ جاتے تھے کہ جملے کی زد میں آنے والا گھنٹوں مخمصے میں رہتا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ ایسا ہی ایک واقعہ مرحوم دلدار پرویز بھٹی یاور صاحب کے مخصوص انداز کی نقل اتارتے ہوئے اکثر سنایا کرتا تھا۔

ہوا یوں کہ کسی ڈرامے کے سین میں ایک سینئر اداکار نے اپنی بیٹی کی رخصتی کے بعد اس کی یاد سے پیدا ہونے والے نفسیاتی خلا کو دکھانا تھا۔ سین کچھ یوں تھا کہ اس اداکار کو اپنی بیٹی کی بکری کو گود میں لے کر اس سے پیار کا اظہار کرنا تھا کہ جیسے وہ بکری کا بچہ اس کی بیٹی کا استعارہ ہو۔ ان صاحب نے بہت جذباتی شدت کے ساتھ اس سین کو فلم بند کرایا۔

ریکارڈنگ کے بعد اسٹوڈیو کے مانیٹر پر جب یہ سین چلایا گیا تو محسوس ہوا کہ کیمرہ ایکٹر سے زیادہ بکری کے بچے کو دکھاتا رہا ہے اس پر وہ صاحب بہت پریشان ہوئے اور یاور صاحب سے شکایت کی کہ آپ تو میری بجائے اس بکری کے بچے کو ہی دکھاتے رہے ہیں! یاور صاحب اپنے مخصوص انداز میں مونچھوں تلے مسکرائے اور بولے ''چن جی... بکری آپ سے زیادہ ایکسپریشن دے رہی تھی''

یاور حیات کو اگر ایک چلتی پھرتی ٹریننگ اکیڈمی کہا جائے تو یہ کچھ غلط نہ ہو گا۔ ہمہ وقت پروڈیوسرز، مصنف اور اداکار ان سے رہنمائی طلب کرتے رہتے اور وہ بغیر ماتھے پر کوئی بل لائے ان کے مسائل کے حل انھیں نہ صرف بتاتے بلکہ کتابوں اور فلموں کے حوالے سے اپنی بات کی تائید میں مثالیں بھی کوٹ (Quote) کرتے جاتے تھے۔

دہلیز اور سمندر کی ریکارڈنگ کے دوران کبھی کبھار کسی سین کردار یا مکالمے کے حوالے سے ان سے اختلاف رائے بھی ہوا لیکن اکثر مجھے ان ہی کی بات ماننا پڑی کہ وہ اگر ٹی وی پروڈیوسر نہ ہوتے تو شاید ایک بہت کامیاب وکیل ہوتے کہ انھیں اپنی دلیل کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کرنے کا غیرمعمولی ملکہ حاصل تھا۔ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی خرابیٔ صحت کی وجہ سے وہ بتدریج گوشہ نشین ہوتے چلے گئے اور یوں ان سے ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ بھی طویل تر ہو گیا لیکن جب اور جہاں بھی ملتے چند لمحوں میں ان کی روایتی ذہانت اور بشاشت لوٹ آتی اور ہماری گفتگو اس نہج پر چل نکلتی جو میرے نزدیک بطور ڈرامہ نگار میرے فنی کیریئر کا سب سے خوبصورت حصہ اور زمانہ ہے۔

یاور صاحب اب محاورے کے اعتبار سے ''ہم میں نہیں رہے'' مگر جن لوگوں نے ان کو دیکھا ان کے ساتھ کام کیا یا ان کی باتیں سنی ہیں وہ ان سب کی زندگیوں تک ان کے ساتھ رہیں گے۔ دنیاوی اعتبار سے ان کا ددھیال اور ننھیال بڑے ناموں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر انھوں نے کبھی اس کا سہارا لینا تو کجا ذکر تک نہیں کیا۔ انھیں اپنی ذات پر اعتماد تھا اور وہ اسی کی وساطت سے اپنی پہچان کرانا چاہتے تھے۔ انھیں دیکھ کر مجھے اصغر گونڈوی کا ایک شعر ہمیشہ یاد آتا تھا سو اب ان کی یاد میں لکھی ان چند سطروں کے آخر میں بھی اسی کو درج کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں ہی سے تھے جن کا کام ان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔