چند ہمعصر تخلیق کار پہلا حصہ
جب کوئی قلم کار دلجمعی، محنت اور توجہ سے لکھتا ہے تو قاری اس کی تحریر سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا
جب کوئی قلم کار دلجمعی، محنت اور توجہ سے لکھتا ہے تو قاری اس کی تحریر سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا، آج ایسی ہی تحریروں سے سجا ہوا گلدستہ میرے روبرو ہے، اور اس کی خوشبو سے میرا دل و دماغ معطر ہے۔
''چند ہمعصر ترقی پسند افسانہ نگار'' کے عنوان سے شفیق احمد شفیق نے نہایت عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ کتاب مرتب کی ہے کہ ان کے لکھے ہوئے مضامین ادب کے قارئین کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کرتے ہیں۔ ''چند ہمعصر ترقی پسند افسانہ نگاروں'' میں منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، پروفیسر عزیر احمد، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر جیسے باکمال تخلیق کار کتاب کی زینت بن گئے ہیں ۔
شفیق احمد شفیق نے بڑے موثر اور تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہ مضامین لکھے ہیں، چونکہ وہ خود شاعر و افسانہ نگار ہیں اسی لیے ان کے تحقیقی مضامین میں بھی شاعرانہ و افسانوی رنگ موجود ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ''اردو افسانے کا باوا آدم' منشی پریم چند''(31 جولائی 1880۔8 اکتوبر 1936) سے کتاب کی ابتدا کی ہے اور پریم چند کے افسانوں اور ان میں بسنے والے کرداروں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ''پریم چند نے ہمارے معاشرے کے ایسے کرداروں کو نہیں بخشا ہے جو گفتار کے غازی تو ہوتے ہیں مگر کردار کے غازی نہیں ہوتے، افسانہ ''سوانگ'' اور افسانہ ''معصوم بچہ'' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس افسانے میں گنگو ایک مثالی کردار بن کے ابھرتا ہے۔
پریم چند کا سماجی شعور اور ان کے جذبات کی سچائی گنگو کے کردار میں جذب ہو کر رہ گئی ہے، یہ کردار ان کے بہت سارے افسانوں کے کرداروں سے زیادہ اہم اور ناقابل فراموش ہے، بلکہ یہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں پر اظہار تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے ان کے افسانوں کے حوالے سے ایک نئے کردار سے متعارف کرایا ہے۔ یعنی ''تیسرا آدمی'' یہ ان کی دریافت ہے۔ انھوں نے ایک منفرد انداز میں تیسرے آدمی کو ایک مرکز بناکر کہانی کو پرکھا ہے۔
شفیق احمد شفیق کے مضامین کی یہ خوبی بھی ہے کہ انھوں نے عنوانات کے ساتھ ساتھ تخلیق کاروں کی تاریخ پیدائش و وفات بھی درج کردی ہے۔ اس طرح ادب کے طلبا زمانوں کا تعین کرسکتے ہیں۔ تمام مضامین پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ ''قرۃ العین حیدر بحیثیت مترجم'' کے عنوان سے مصنف کا مضمون نہ صرف یہ کہ قرۃ العین حیدر کی ترجمہ نگاری کا اظہاریہ ہے بلکہ ان کے ادبی سفر کے آغاز کا تذکرہ بے حد دلفریب انداز میں اس طرح ملتا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی کتابوں کا ذکر بھی سن تاریخ کے ساتھ درج ہے۔ مثال کے طور پر ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ''ستاروں سے آگے'' 20 سال کی عمر میں شایع ہوا۔
1947 کے بعد 1949 میں انھوں نے ''میرے بھی صنم خانے'' کے نام سے اپنا پہلا ناول لکھا، عمر ان کی صرف 23 سال تھی۔ مصنف کا یہ انداز تحریر دل کو بھاتا بھی ہے اور مزید مطالعے کے لیے اکساتا بھی ہے۔ کتاب کا سرورق قابل توجہ ہے۔ اردو ادب کے شائقین اور طلبا و طالبات کے لیے بہترین کتاب ہے۔
''دنیا میری نظر میں'' یہ بات میں نے اپنے لیے ہرگز نہیں لکھی ہے بلکہ یہ تو ناصر ناکاگاوا کی کتاب کا نام ہے۔ عرفان صدیقی جوکہ ٹوکیو کے اخبار میں کالم نگاری کرتے ہیں ان کا ایک مضمون بھی شامل اشاعت ہے، ان کے مضمون میں ناصر ناکاگاوا کی زندگی کے اوراق میری آنکھوں میں نمی اتر آئی، محنت و استقلال کو ناصر ناکاگاوا نے عزم صمیم کے ساتھ اپنایا ہے کہ منزل اتنی آسانی سے نہیں ملتی ہے.
آٹھ سالہ بچے کی جدوجہد رنگ لائی اور لانڈھی میں رہنے والا وہی بچہ جاپان میں گزشتہ 27 سال سے جاپانی شہریت کے ساتھ مقیم ہے، یہی نہیں بلکہ علمی و ادبی امور بھی احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے، بہنوں کی شادی اور والدین کی خدمت کا فریضہ بھی انجام دیا، ان کی بڑی بہن سیدہ زہرہ عمران نے لکھا ہے کہ انٹرنیٹ کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ناصر ناکاگاوا نے بھی جاپان ہی سے آٹھ سال قبل ایک آن لائن اخبار اردو نیٹ جاپان کا اجرا کیا ہے، جس کے ذریعے وہ اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
مصنف کی پہلی کاوش ''دیس بنا پردیس'' کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے جس پر سکہ بند ادبا شعرا کی آرا بھی درج ہیں، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ''ایک خزینہ معلومات '' کے عنوان سے ایک بہت شاندار مضمون لکھا ہے اور اپنی تحریر کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے، ان کے اخلاق و انکساری کی تعریف کی ہے۔ کرناٹک انڈیا کی افسانہ نگار سلمیٰ صنم نے اپنے تاثرات کا اظہار اس انداز میں کیا ہے کہ ''ناصر ناکاگاوا نے جاپان کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ محسوس بھی کیا ہے، اس کے طرز معاشرت، ثقافت، رہن سہن، قوانین اور اس سے متعلق معلومات کو انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے مرتب کیا ہے، جس سے ہر کوئی مستفید ہوسکتا ہے۔''
ناصر ناکاگاوا کی کتاب جاپان کے حوالے سے یقینا معلومات کے بیش بہا خزانے کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کو 7 حصوں میں تقسیم کردیا ہے، پہلے اور دوسرے میں ان کی نجی زندگی اور ان کی جہد مسلسل پر مضامین اور پھر ادبیات، جاپانی معاشرے کی جھلک، فکر و نظر، سفر دو پل کا، یادیں عمر بھر کی، ان عنوانات کے تحت مضامین، افسانے اور سفر نامے شامل کتاب ہیں، ناصر فن افسانہ نگاری سے بھی واقف ہیں، معاشرتی تلخ حقائق پر لکھے ہوئے افسانہ قاری کو متاثر کرتے ہیں، ''قربانی کا گوشت'' ان کا ایک ایسا افسانہ ہے جو زمانے کی خودغرضی اور افلاس و غربت کے حوالے سے سماج کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے، ان کے سفر نامے دلچسپ بھی ہیں اور مختلف جگہوں کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
شاعر علی شاعر عرصہ دراز سے ایک ادبی جریدہ ''رنگ ادب'' کے عنوان سے شایع کر رہے ہیں وہ خود بھی ادیب و شاعر اور پبلشر ہیں بہت خوبصورت و دیدہ زیب کتابیں شایع کرنے میں انھیں کمال حاصل ہے اور اس شعبے میں انھوں نے بہت جلد نام کمایا ہے اور دنیائے ادب کو علمی و تحقیقی، تنقیدی، افسانوی مجموعوں اور ناولوں کا تحفہ عطا کیا ہے، بعض ان تحریروں کی اشاعت کا سہرا بھی شاعر علی شاعر کے سر بندھتا ہے، جو کسی نہ کسی وجہ کے تحت اشاعت کے مرحلے سے گزر نہیں سکی تھیں۔
حال ہی میں انھوں نے ''میں اور ندا فاضلی'' نامی کتاب چھاپی ہے، اس کتاب کے مصنف نذیر فتح پوری ہیں۔ دونوں قابل ذکر شخصیات کا تعلق انڈیا سے ہے۔ نذیر فتح پوری کو اللہ رب العزت نے توانا قلم سے نوازا ہے جو نہ تھکتا ہے اور نہ کمزور ہونے کا احساس دلاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انھیں 70 سے زیادہ کتابیں لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کتاب ''میں اور ندا فاضلی'' یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ ندا فاضلی کی صحبت میں گزرے دنوں کو انھوں نے دل میں بسالیا ہے اور دل کی باتیں صفحہ قرطاس پر جلوہ گر ہوگئی ہیں۔
107 صفحات پر مشتمل کتاب میں ندافاضلی کے حوالے سے 31مضامین شامل ہیں جو ندا فاضلی کی زندگی اور شعر و سخن کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے دریا کو کوزے میں بے حد سلیقے کے ساتھ بند کردیا ہے۔ نذیر فتح پوری کا مضمون ''گفت باہمی'' اور ''آخری صفحہ'' جس کا عنوان ہی ''آخری صفحہ'' ہے خاصے کی چیز ہیں، انھوں نے اپنی اور ندا فاضلی سے ملاقات اور ندا فاضلی کے خیالات کا عکس پیش کیا ہے اور آخری صفحہ ندا فاضلی کے انتقال کی خبر اور تاریخ سے مطلع کرتا ہے کہ 8 فروری 2016 کو انھوں نے اس دنیائے آب و گل کو خیرباد کہا۔
(جاری ہے)
''چند ہمعصر ترقی پسند افسانہ نگار'' کے عنوان سے شفیق احمد شفیق نے نہایت عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ کتاب مرتب کی ہے کہ ان کے لکھے ہوئے مضامین ادب کے قارئین کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کرتے ہیں۔ ''چند ہمعصر ترقی پسند افسانہ نگاروں'' میں منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، پروفیسر عزیر احمد، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر جیسے باکمال تخلیق کار کتاب کی زینت بن گئے ہیں ۔
شفیق احمد شفیق نے بڑے موثر اور تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہ مضامین لکھے ہیں، چونکہ وہ خود شاعر و افسانہ نگار ہیں اسی لیے ان کے تحقیقی مضامین میں بھی شاعرانہ و افسانوی رنگ موجود ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ''اردو افسانے کا باوا آدم' منشی پریم چند''(31 جولائی 1880۔8 اکتوبر 1936) سے کتاب کی ابتدا کی ہے اور پریم چند کے افسانوں اور ان میں بسنے والے کرداروں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ''پریم چند نے ہمارے معاشرے کے ایسے کرداروں کو نہیں بخشا ہے جو گفتار کے غازی تو ہوتے ہیں مگر کردار کے غازی نہیں ہوتے، افسانہ ''سوانگ'' اور افسانہ ''معصوم بچہ'' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس افسانے میں گنگو ایک مثالی کردار بن کے ابھرتا ہے۔
پریم چند کا سماجی شعور اور ان کے جذبات کی سچائی گنگو کے کردار میں جذب ہو کر رہ گئی ہے، یہ کردار ان کے بہت سارے افسانوں کے کرداروں سے زیادہ اہم اور ناقابل فراموش ہے، بلکہ یہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں پر اظہار تجزیہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے ان کے افسانوں کے حوالے سے ایک نئے کردار سے متعارف کرایا ہے۔ یعنی ''تیسرا آدمی'' یہ ان کی دریافت ہے۔ انھوں نے ایک منفرد انداز میں تیسرے آدمی کو ایک مرکز بناکر کہانی کو پرکھا ہے۔
شفیق احمد شفیق کے مضامین کی یہ خوبی بھی ہے کہ انھوں نے عنوانات کے ساتھ ساتھ تخلیق کاروں کی تاریخ پیدائش و وفات بھی درج کردی ہے۔ اس طرح ادب کے طلبا زمانوں کا تعین کرسکتے ہیں۔ تمام مضامین پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ ''قرۃ العین حیدر بحیثیت مترجم'' کے عنوان سے مصنف کا مضمون نہ صرف یہ کہ قرۃ العین حیدر کی ترجمہ نگاری کا اظہاریہ ہے بلکہ ان کے ادبی سفر کے آغاز کا تذکرہ بے حد دلفریب انداز میں اس طرح ملتا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی کتابوں کا ذکر بھی سن تاریخ کے ساتھ درج ہے۔ مثال کے طور پر ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ''ستاروں سے آگے'' 20 سال کی عمر میں شایع ہوا۔
1947 کے بعد 1949 میں انھوں نے ''میرے بھی صنم خانے'' کے نام سے اپنا پہلا ناول لکھا، عمر ان کی صرف 23 سال تھی۔ مصنف کا یہ انداز تحریر دل کو بھاتا بھی ہے اور مزید مطالعے کے لیے اکساتا بھی ہے۔ کتاب کا سرورق قابل توجہ ہے۔ اردو ادب کے شائقین اور طلبا و طالبات کے لیے بہترین کتاب ہے۔
''دنیا میری نظر میں'' یہ بات میں نے اپنے لیے ہرگز نہیں لکھی ہے بلکہ یہ تو ناصر ناکاگاوا کی کتاب کا نام ہے۔ عرفان صدیقی جوکہ ٹوکیو کے اخبار میں کالم نگاری کرتے ہیں ان کا ایک مضمون بھی شامل اشاعت ہے، ان کے مضمون میں ناصر ناکاگاوا کی زندگی کے اوراق میری آنکھوں میں نمی اتر آئی، محنت و استقلال کو ناصر ناکاگاوا نے عزم صمیم کے ساتھ اپنایا ہے کہ منزل اتنی آسانی سے نہیں ملتی ہے.
آٹھ سالہ بچے کی جدوجہد رنگ لائی اور لانڈھی میں رہنے والا وہی بچہ جاپان میں گزشتہ 27 سال سے جاپانی شہریت کے ساتھ مقیم ہے، یہی نہیں بلکہ علمی و ادبی امور بھی احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے، بہنوں کی شادی اور والدین کی خدمت کا فریضہ بھی انجام دیا، ان کی بڑی بہن سیدہ زہرہ عمران نے لکھا ہے کہ انٹرنیٹ کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ناصر ناکاگاوا نے بھی جاپان ہی سے آٹھ سال قبل ایک آن لائن اخبار اردو نیٹ جاپان کا اجرا کیا ہے، جس کے ذریعے وہ اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
مصنف کی پہلی کاوش ''دیس بنا پردیس'' کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے جس پر سکہ بند ادبا شعرا کی آرا بھی درج ہیں، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ''ایک خزینہ معلومات '' کے عنوان سے ایک بہت شاندار مضمون لکھا ہے اور اپنی تحریر کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا ہے، ان کے اخلاق و انکساری کی تعریف کی ہے۔ کرناٹک انڈیا کی افسانہ نگار سلمیٰ صنم نے اپنے تاثرات کا اظہار اس انداز میں کیا ہے کہ ''ناصر ناکاگاوا نے جاپان کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ محسوس بھی کیا ہے، اس کے طرز معاشرت، ثقافت، رہن سہن، قوانین اور اس سے متعلق معلومات کو انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے مرتب کیا ہے، جس سے ہر کوئی مستفید ہوسکتا ہے۔''
ناصر ناکاگاوا کی کتاب جاپان کے حوالے سے یقینا معلومات کے بیش بہا خزانے کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کو 7 حصوں میں تقسیم کردیا ہے، پہلے اور دوسرے میں ان کی نجی زندگی اور ان کی جہد مسلسل پر مضامین اور پھر ادبیات، جاپانی معاشرے کی جھلک، فکر و نظر، سفر دو پل کا، یادیں عمر بھر کی، ان عنوانات کے تحت مضامین، افسانے اور سفر نامے شامل کتاب ہیں، ناصر فن افسانہ نگاری سے بھی واقف ہیں، معاشرتی تلخ حقائق پر لکھے ہوئے افسانہ قاری کو متاثر کرتے ہیں، ''قربانی کا گوشت'' ان کا ایک ایسا افسانہ ہے جو زمانے کی خودغرضی اور افلاس و غربت کے حوالے سے سماج کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے، ان کے سفر نامے دلچسپ بھی ہیں اور مختلف جگہوں کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
شاعر علی شاعر عرصہ دراز سے ایک ادبی جریدہ ''رنگ ادب'' کے عنوان سے شایع کر رہے ہیں وہ خود بھی ادیب و شاعر اور پبلشر ہیں بہت خوبصورت و دیدہ زیب کتابیں شایع کرنے میں انھیں کمال حاصل ہے اور اس شعبے میں انھوں نے بہت جلد نام کمایا ہے اور دنیائے ادب کو علمی و تحقیقی، تنقیدی، افسانوی مجموعوں اور ناولوں کا تحفہ عطا کیا ہے، بعض ان تحریروں کی اشاعت کا سہرا بھی شاعر علی شاعر کے سر بندھتا ہے، جو کسی نہ کسی وجہ کے تحت اشاعت کے مرحلے سے گزر نہیں سکی تھیں۔
حال ہی میں انھوں نے ''میں اور ندا فاضلی'' نامی کتاب چھاپی ہے، اس کتاب کے مصنف نذیر فتح پوری ہیں۔ دونوں قابل ذکر شخصیات کا تعلق انڈیا سے ہے۔ نذیر فتح پوری کو اللہ رب العزت نے توانا قلم سے نوازا ہے جو نہ تھکتا ہے اور نہ کمزور ہونے کا احساس دلاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انھیں 70 سے زیادہ کتابیں لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کتاب ''میں اور ندا فاضلی'' یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ ندا فاضلی کی صحبت میں گزرے دنوں کو انھوں نے دل میں بسالیا ہے اور دل کی باتیں صفحہ قرطاس پر جلوہ گر ہوگئی ہیں۔
107 صفحات پر مشتمل کتاب میں ندافاضلی کے حوالے سے 31مضامین شامل ہیں جو ندا فاضلی کی زندگی اور شعر و سخن کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے دریا کو کوزے میں بے حد سلیقے کے ساتھ بند کردیا ہے۔ نذیر فتح پوری کا مضمون ''گفت باہمی'' اور ''آخری صفحہ'' جس کا عنوان ہی ''آخری صفحہ'' ہے خاصے کی چیز ہیں، انھوں نے اپنی اور ندا فاضلی سے ملاقات اور ندا فاضلی کے خیالات کا عکس پیش کیا ہے اور آخری صفحہ ندا فاضلی کے انتقال کی خبر اور تاریخ سے مطلع کرتا ہے کہ 8 فروری 2016 کو انھوں نے اس دنیائے آب و گل کو خیرباد کہا۔
(جاری ہے)