معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رُجحان
موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان خاندانی نظام کو بری طرح تباہی کی طرف لے جارہا ہے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان خاندانی نظام کو بری طرح تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔گھر کے گھر تباہ ہورہے ہیں اور طلاق یافتہ لڑکیوں یا خواتین کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوتا جارہاہے۔
ہمارے ٹیلی ویژن کے تقریباً ہر دوسرے ڈراموں میں بھی طلاق اور خلع کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس ہولناک مسئلے سے ہمارے بیشتر گھرانے دو چار ہیں اور اسے ہمارے معاشرتی المیے سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں ازدواجی زندگی کا بنیادی مقصد خاندانی نظام کی بقا واستحکام ہے کیوںکہ مستحکم خاندان ہی سے مستحکم معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اسلام خاندانی نظام کو قدرت کا حسین انعام قرار دیتا ہے، تاکہ نکاح کے بعد میاں بیوی میں مہرومحبت قائم ہو لیکن افسوس اب متعدد وجوہات کی بنا پر میاں بیوی کے مابین ناچاقی دونوں کی علیحدگی کا باعث بن رہی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اسلام نے حلال امور میں طلاق کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ اور مبغوض عمل قرار دیا ہے پھر بھی یہ عمل بیشترخاندانوں کو بدنامی اور تباہی سے دوچارکرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔
''طلاق'' بظاہر چار حُرفی اورکتنا چھوٹا سا لفظ ہے لیکن کسی بھی عورت کے لیے کتنی بڑی قیامت اور سب سے بڑی معاشرتی گالی سمجھی جاتی ہے، بیشتر خواتین جو برسہا برس گھر کی چوکھٹ پر گزار دیتی ہیں مرد طلاق کا یہ لفظ تین بار ادا کرنے میں تین سیکنڈ بھی نہیں لگاتے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ میاں بیوی احساس کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔
اس کا ایک سرا کھینچو تو پوری ڈور کانپ جاتی ہے اور یہ بھی بجا ہے کہ اعتماد کا ہر رشتے میں بہت دخل ہوتا ہے بالخصوص میاں بیوی کے باہمی تعلق میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے لیکن اگر دل میں جگہ نہ ہو تو کسی بھی رشتے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بعض جگہ ازدواجی رشتوں میں دراڑ عورت کی زبان درازی سے پڑجاتی ہے۔کاش عورت جان لے کہ لمبی زبان عزت کو بہت چھوٹا کردیتی ہے۔ بعض گھرانوں میں میاں بیوی کے مابین چھوٹی موٹی تلخیاں یا رنجشیں بہت بڑی خلیج بن کر دونوں کی راہیں جدا کردیتی ہے۔
عورت مرد کو قصور وارکہتی ہے اور مرد عورت کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو فیصلے فاصلوں کو ہی جنم دیتے ہیں اور یہی فاصلے میاں بیوی کے دلوں میں پیدا ہوکر ان کا گھر خراب کردیتے ہیں۔ معافی چوںکہ غلطیوں کی ہوتی ہے زیادتیوں کی نہیں لہٰذا میاں بیوی معافی کے خواستگار بھی نہیں رہتے۔
سیانے کہتے ہیں کہ عورت مرد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتی، چاہے وہ اسے پیر کی جوتی ہی کیوں نہ بناکے رکھے کیوںکہ زمانے کی ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہرکے جوتے کھا لے، لیکن آج کی عورت پریشر میں رہنا پسند ہی نہیں کرتی اور وہ علیحدگی کو پابندی پر ترجیح دیتی ہے حالانکہ طاقتور سے طاقتور عورت یہ حقیقت جانتی ہے کہ عورت کی طاقت مرد کی طاقت سے زیادہ نہیں ہوتی ویسے بھی رشتے پریشر یا دباؤ سے نہیں پیار سے بنتے ہیں۔
آفاقی سچائی ہے کہ قریبی رشتوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو دل میں رکھنے سے پر خلوص یا گہرے رشتے کمزور پڑجاتے ہیں اور یہ رشتے پودے جیسے ہوتے ہیں، جو پانی نہ ملنے سے مرجھاجاتے ہیں، اگر رشتوںکو ''توجہ کا پانی'' دینے کا وقت نہ ملے تو وہ بھی سوکھ کر دم توڑ دیتے ہیں، ویسے بھی رشتے اور وعدے برف کی گیند جیسے ہوتے ہیں جنھیں بنانا بہت آسان مگر سنبھالنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بیشتر شادیاں لو میرج کے باوجود بمشکل سال چھ مہینے میں اختتام پذیر ہورہی ہیں اور یہ رجحان اب بھی تیزی سے تقویت پاتا جارہا ہے، حالانکہ ایک دوسرے کو سمجھنا دنیا میں محبت سے بھی بڑی چیز ہوتی ہے، بعض میاں بیوی کے درمیان ان کی سماجی حیثیت کے حوالے سے رقابت آجاتی ہے اور رقابت اور دیرپا دوستی کا فارمولا یہ ہے کہ دوست سے غصے میں بات نہ کرنا اور دوست کی غصے میں کہی بات کو دل پر نہ لینا۔ لیکن افسوس میاں بیوی ایک دوسرے کے دوست کے بجائے رقیب اور بعد ازاں ایک دوسرے کی چڑیا ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور یوں ان کی زندگی میں زہر گھل جاتا ہے۔
کاش ازدواجی جوڑے یہ جان سکتے کہ زندگی کچھ آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی کچھ برداشت کرکے اورکبھی کچھ نظر انداز کرکے افسوس ہم خاکی انسان آج کی جس دنیا میں زندہ ہیں جہاں مرنے کے لیے تھوڑا، لیکن زندہ رہنے کے لیے بہت سارا زہر پینا پڑتا ہے اور ازدواجی جوڑوں کی رگوں میں بوجوہ یہ زہر پوری طرح سرایت کرکے انھیں ختم کردیتا ہے۔
ہمارا معاشرتی منظر نامہ اس بات کا گواہ ہے کہ آج کی عورت چاہے جتنی با اختیار ہوجائے اس پر انگلی بڑی آسانی سے اٹھائی جاسکتی ہے تاہم عورت اگر خود اپنی عزت کروانا چاہے تو کوئی اسے بے توقیر نہیں کرسکتا اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عورت جس کلاس کی بھی ہو اس کی سب سے اہم ترجیح اس کا گھر ہوتا ہے اور وہ اپنے گھر کے معاملے میں بڑی ٹچی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عورت کا کام دفن ہی ہونا ہے چاہے کسی عالی شان مقبرے میں یا پھر اپنی خواہشوں اور محرومیوں کے بوجھ تلے یا پھر کسی مرد کی بے نیازی اور لا تعلقی کے بھاری پتھر تلے بات ایک ہی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے معاشرے میں مرد جتنی بڑی غلطی کرلے اسے دنیا معاف کردیتی ہے لیکن عورت کی ایک چھوٹی سی خطا اس کی عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے۔ عورت مرد کی بے وفائی یا غلط کاری بھول جاتی ہے لیکن مرد عورت کی بے حیائی کبھی معاف نہیں کرتا اس طرح عورت اگر مرجائے تو مرد اس کی قبر کی مٹی سوکھتے ہی اسے بھلادیتا ہے لیکن عورت اگر بے وفائی کرے یا وفا شعاری میں کوتاہی کرلے تو وہ اس کی چبھن ساری زندگی محسوس کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے دانا کہتے ہیں کہ عورت کے کردار کو مضبوطی اور سیرت کی پاکیزگی اسے خوبصورت چہروں سے زیادہ پرکشش بنادیتی ہے۔
اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ عورت چاہے جس طبقے سے ہوکتنی ہی تعلیم یافتہ ہو،کتنی ہی مضبوط ہو مگر شادی کے بعد اس کے شوہر کا رشتہ ہی اس کو معاشرے میں معتبر بناتا ہے، عورت جب کسی کے نکاح میں آجائے تو اس کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور اسے عزت بھی ملتی ہے کیوںکہ شوہر بیوی کو صرف محبت یا اپنائیت ہی نہیں بلکہ تحفظ اورسائبان بھی دیتا ہے لہٰذا اسے گھر کی قدر کرنا چاہیے کیوںکہ اگر یہ مضبوط سایہ اس کے سر پر نہ ہو تو اسے کہیں پناہ نہیں ملتی، ہر سمجھ دار عورت جانتی ہے کہ عورت کی اصل کشش، اصل حسن اس کی شرم وحیا میں ہے گلی گلی رسوائی میں نہیں۔
ہمارے معاشرے میں بیشتر این جی اوز بڑی فعال ہیں اور ان سبھی کا موقف یہی ہے کہ بعض فیصلے تلخ ضرور ہوتے ہیں مگر یہ کبھی کبھی زندگی کو سنبھال دیتے ہیں۔ ایسے فیصلے جس سے تعلق باہمی کو نقصان پہنچتا ہو نہیں کرنے چاہئیں اور ایسے فیصلے جس سے رشتوں میں توازن اور یگانگت آجائے فوری کرلینے چاہئیں۔
ایک مشہور خاتون وکیل کا کہناہے کہ ان کے پاس بیشتر طلاق یا خلع کے کیس آتے ہیں اور وہ پہلے فریقین کو آپس میں پھر سے یکجا کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک علیحدگی پرکمربستہ ہوجائے تو پھر مصالحت کی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوتی ویسے بھی طلاق ہوجانے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی رک ضرور جاتی ہے کچھ وقتوں کے لیے نئی طرح سے شروع ہونے کے لیے۔
آج کا دور جسے اکیسویں صدی کہاجاتا ہے۔ اس میں بعض تلخ اور ناقابل فہم اشیا کو خود اتارلینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا اور یہ ہمارے معاشرے کی اب برہنہ سچائی بن کر سب پر آشکارا ہوچکی ہے کہ طلاق یا علیحدگی میاں بیوی کا خالص ذاتی معاملہ ہوتی ہے اب کوئی کسی کو کسی کے کہنے سے نہیں چھوڑدیتا، ہماری دانست میں رشتوں کو نبھانا جتنا ضروری ہے ۔ اس سے زیادہ اس میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے اور رشتوں کا تقدس یا توازن تبھی برقرار رکھا جاسکتا ہے جب انسان اپنے مفاد اور خود غرضی کو ذبح کر ڈالے۔
ہمارے ٹیلی ویژن کے تقریباً ہر دوسرے ڈراموں میں بھی طلاق اور خلع کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس ہولناک مسئلے سے ہمارے بیشتر گھرانے دو چار ہیں اور اسے ہمارے معاشرتی المیے سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں ازدواجی زندگی کا بنیادی مقصد خاندانی نظام کی بقا واستحکام ہے کیوںکہ مستحکم خاندان ہی سے مستحکم معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اسلام خاندانی نظام کو قدرت کا حسین انعام قرار دیتا ہے، تاکہ نکاح کے بعد میاں بیوی میں مہرومحبت قائم ہو لیکن افسوس اب متعدد وجوہات کی بنا پر میاں بیوی کے مابین ناچاقی دونوں کی علیحدگی کا باعث بن رہی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اسلام نے حلال امور میں طلاق کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ اور مبغوض عمل قرار دیا ہے پھر بھی یہ عمل بیشترخاندانوں کو بدنامی اور تباہی سے دوچارکرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔
''طلاق'' بظاہر چار حُرفی اورکتنا چھوٹا سا لفظ ہے لیکن کسی بھی عورت کے لیے کتنی بڑی قیامت اور سب سے بڑی معاشرتی گالی سمجھی جاتی ہے، بیشتر خواتین جو برسہا برس گھر کی چوکھٹ پر گزار دیتی ہیں مرد طلاق کا یہ لفظ تین بار ادا کرنے میں تین سیکنڈ بھی نہیں لگاتے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ میاں بیوی احساس کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں۔
اس کا ایک سرا کھینچو تو پوری ڈور کانپ جاتی ہے اور یہ بھی بجا ہے کہ اعتماد کا ہر رشتے میں بہت دخل ہوتا ہے بالخصوص میاں بیوی کے باہمی تعلق میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے لیکن اگر دل میں جگہ نہ ہو تو کسی بھی رشتے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بعض جگہ ازدواجی رشتوں میں دراڑ عورت کی زبان درازی سے پڑجاتی ہے۔کاش عورت جان لے کہ لمبی زبان عزت کو بہت چھوٹا کردیتی ہے۔ بعض گھرانوں میں میاں بیوی کے مابین چھوٹی موٹی تلخیاں یا رنجشیں بہت بڑی خلیج بن کر دونوں کی راہیں جدا کردیتی ہے۔
عورت مرد کو قصور وارکہتی ہے اور مرد عورت کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو فیصلے فاصلوں کو ہی جنم دیتے ہیں اور یہی فاصلے میاں بیوی کے دلوں میں پیدا ہوکر ان کا گھر خراب کردیتے ہیں۔ معافی چوںکہ غلطیوں کی ہوتی ہے زیادتیوں کی نہیں لہٰذا میاں بیوی معافی کے خواستگار بھی نہیں رہتے۔
سیانے کہتے ہیں کہ عورت مرد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتی، چاہے وہ اسے پیر کی جوتی ہی کیوں نہ بناکے رکھے کیوںکہ زمانے کی ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہرکے جوتے کھا لے، لیکن آج کی عورت پریشر میں رہنا پسند ہی نہیں کرتی اور وہ علیحدگی کو پابندی پر ترجیح دیتی ہے حالانکہ طاقتور سے طاقتور عورت یہ حقیقت جانتی ہے کہ عورت کی طاقت مرد کی طاقت سے زیادہ نہیں ہوتی ویسے بھی رشتے پریشر یا دباؤ سے نہیں پیار سے بنتے ہیں۔
آفاقی سچائی ہے کہ قریبی رشتوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو دل میں رکھنے سے پر خلوص یا گہرے رشتے کمزور پڑجاتے ہیں اور یہ رشتے پودے جیسے ہوتے ہیں، جو پانی نہ ملنے سے مرجھاجاتے ہیں، اگر رشتوںکو ''توجہ کا پانی'' دینے کا وقت نہ ملے تو وہ بھی سوکھ کر دم توڑ دیتے ہیں، ویسے بھی رشتے اور وعدے برف کی گیند جیسے ہوتے ہیں جنھیں بنانا بہت آسان مگر سنبھالنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بیشتر شادیاں لو میرج کے باوجود بمشکل سال چھ مہینے میں اختتام پذیر ہورہی ہیں اور یہ رجحان اب بھی تیزی سے تقویت پاتا جارہا ہے، حالانکہ ایک دوسرے کو سمجھنا دنیا میں محبت سے بھی بڑی چیز ہوتی ہے، بعض میاں بیوی کے درمیان ان کی سماجی حیثیت کے حوالے سے رقابت آجاتی ہے اور رقابت اور دیرپا دوستی کا فارمولا یہ ہے کہ دوست سے غصے میں بات نہ کرنا اور دوست کی غصے میں کہی بات کو دل پر نہ لینا۔ لیکن افسوس میاں بیوی ایک دوسرے کے دوست کے بجائے رقیب اور بعد ازاں ایک دوسرے کی چڑیا ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور یوں ان کی زندگی میں زہر گھل جاتا ہے۔
کاش ازدواجی جوڑے یہ جان سکتے کہ زندگی کچھ آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی کچھ برداشت کرکے اورکبھی کچھ نظر انداز کرکے افسوس ہم خاکی انسان آج کی جس دنیا میں زندہ ہیں جہاں مرنے کے لیے تھوڑا، لیکن زندہ رہنے کے لیے بہت سارا زہر پینا پڑتا ہے اور ازدواجی جوڑوں کی رگوں میں بوجوہ یہ زہر پوری طرح سرایت کرکے انھیں ختم کردیتا ہے۔
ہمارا معاشرتی منظر نامہ اس بات کا گواہ ہے کہ آج کی عورت چاہے جتنی با اختیار ہوجائے اس پر انگلی بڑی آسانی سے اٹھائی جاسکتی ہے تاہم عورت اگر خود اپنی عزت کروانا چاہے تو کوئی اسے بے توقیر نہیں کرسکتا اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عورت جس کلاس کی بھی ہو اس کی سب سے اہم ترجیح اس کا گھر ہوتا ہے اور وہ اپنے گھر کے معاملے میں بڑی ٹچی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عورت کا کام دفن ہی ہونا ہے چاہے کسی عالی شان مقبرے میں یا پھر اپنی خواہشوں اور محرومیوں کے بوجھ تلے یا پھر کسی مرد کی بے نیازی اور لا تعلقی کے بھاری پتھر تلے بات ایک ہی ہے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے معاشرے میں مرد جتنی بڑی غلطی کرلے اسے دنیا معاف کردیتی ہے لیکن عورت کی ایک چھوٹی سی خطا اس کی عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے۔ عورت مرد کی بے وفائی یا غلط کاری بھول جاتی ہے لیکن مرد عورت کی بے حیائی کبھی معاف نہیں کرتا اس طرح عورت اگر مرجائے تو مرد اس کی قبر کی مٹی سوکھتے ہی اسے بھلادیتا ہے لیکن عورت اگر بے وفائی کرے یا وفا شعاری میں کوتاہی کرلے تو وہ اس کی چبھن ساری زندگی محسوس کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے دانا کہتے ہیں کہ عورت کے کردار کو مضبوطی اور سیرت کی پاکیزگی اسے خوبصورت چہروں سے زیادہ پرکشش بنادیتی ہے۔
اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ عورت چاہے جس طبقے سے ہوکتنی ہی تعلیم یافتہ ہو،کتنی ہی مضبوط ہو مگر شادی کے بعد اس کے شوہر کا رشتہ ہی اس کو معاشرے میں معتبر بناتا ہے، عورت جب کسی کے نکاح میں آجائے تو اس کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے اور اسے عزت بھی ملتی ہے کیوںکہ شوہر بیوی کو صرف محبت یا اپنائیت ہی نہیں بلکہ تحفظ اورسائبان بھی دیتا ہے لہٰذا اسے گھر کی قدر کرنا چاہیے کیوںکہ اگر یہ مضبوط سایہ اس کے سر پر نہ ہو تو اسے کہیں پناہ نہیں ملتی، ہر سمجھ دار عورت جانتی ہے کہ عورت کی اصل کشش، اصل حسن اس کی شرم وحیا میں ہے گلی گلی رسوائی میں نہیں۔
ہمارے معاشرے میں بیشتر این جی اوز بڑی فعال ہیں اور ان سبھی کا موقف یہی ہے کہ بعض فیصلے تلخ ضرور ہوتے ہیں مگر یہ کبھی کبھی زندگی کو سنبھال دیتے ہیں۔ ایسے فیصلے جس سے تعلق باہمی کو نقصان پہنچتا ہو نہیں کرنے چاہئیں اور ایسے فیصلے جس سے رشتوں میں توازن اور یگانگت آجائے فوری کرلینے چاہئیں۔
ایک مشہور خاتون وکیل کا کہناہے کہ ان کے پاس بیشتر طلاق یا خلع کے کیس آتے ہیں اور وہ پہلے فریقین کو آپس میں پھر سے یکجا کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اگر ان میں سے دونوں یا کوئی ایک علیحدگی پرکمربستہ ہوجائے تو پھر مصالحت کی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوتی ویسے بھی طلاق ہوجانے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی رک ضرور جاتی ہے کچھ وقتوں کے لیے نئی طرح سے شروع ہونے کے لیے۔
آج کا دور جسے اکیسویں صدی کہاجاتا ہے۔ اس میں بعض تلخ اور ناقابل فہم اشیا کو خود اتارلینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا اور یہ ہمارے معاشرے کی اب برہنہ سچائی بن کر سب پر آشکارا ہوچکی ہے کہ طلاق یا علیحدگی میاں بیوی کا خالص ذاتی معاملہ ہوتی ہے اب کوئی کسی کو کسی کے کہنے سے نہیں چھوڑدیتا، ہماری دانست میں رشتوں کو نبھانا جتنا ضروری ہے ۔ اس سے زیادہ اس میں توازن رکھنا ضروری ہوتا ہے اور رشتوں کا تقدس یا توازن تبھی برقرار رکھا جاسکتا ہے جب انسان اپنے مفاد اور خود غرضی کو ذبح کر ڈالے۔