حقہ سیاست
اس صحن میں تایا جی اور حقہ… یوں ہوتے تھے جیسے کوئی ڈیکوریشن پیس رکھا ہوا ہو
اس صحن میں تایا جی اور حقہ... یوں ہوتے تھے جیسے کوئی ڈیکوریشن پیس رکھا ہوا ہو، جن کی جگہ وہی مستقل اور ترتیب بھی، تایا جی حقے کے بغیر اور حقہ تایا جی کے بغیر نا مکمل تھے۔ میں نے گھر کے ہمیشہ کی طرح وا دروازے سے اندر قدم رکھتے ہوئے تائی جی کو سلام کیا، انھوں نے شفقت سے مسکرا کر میرے سلام کا جواب دیا، میں نے فاصلے سے اپنی جگہ پر براجمان تایا جی کو دیکھا، ان کی طرف بڑھی، انھوں نے بڑے دنوں کے بعد آنے کا شکوہ کیا۔
میں نے اپنی مجبوریوں کی طویل فہرست گنوائی تو بھی ان کو اطمینان نہ ہوا تھا، وہ ان سب کو دل ہی دل میں بہانے سمجھ رہے ہوں گے، '' ٹائم ہی نہیں ہے پتر تم لوگوں کے پاس ہمارے جیسے بوڑھے لوگوں کے لیے... اصل میں تم لوگوں کے پاس اپنے لیے بھی ٹائم نہیں ہے!!'' انھوں نے ایک کش لے کر حقے کی نے کو منہ سے صرف باہر نکالا۔''سوری تایا جی، حالات ہی ایسے تھے کہ کئی دن سے نکلنا نہیں ہوا، سڑکیں بھی بند تھیں اس لیے کوئی رسک نہیں لیا شہر سے نکلنے کا!'' میں نے انھیں بتایا۔
'' راستے کیوں بند تھے پتر؟ '' انھوں نے سادگی سے سوال کیا اور میں ان کے چہرے پر اس اطمینان کو دیکھ رہی تھی جو ان چہروں پر ہوتا ہے جہاں سادگی ہوتی ہے، نہ جاننے کا اطمینان۔
''حیرت ہے تایا جی، آپ کو نہیں پتا!! '' میں نے انھیں احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ کتنے بے خبر تھے، '' ملک کے حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، عوام کے دنوں کا چین اور راتوں کی نیندیں اڑ چکی تھیں کہ جانے اگلے لمحے کیا ہو گا، سٹے لگے ہوئے تھے کہ پانسہ پلٹے گا کہ نہیں اور آپ کو کچھ علم ہی نہیں!!''
''پھر پلٹا کوئی پانسہ شانسہ؟ '' انھوں نے سوال کر کے حقے کی نے منہ میں ڈال لی، ان کی سوالیہ نظریں میری طرف اٹھی ہوئی تھیں، '' آئی کوئی تبدیلی؟ '' وہ اتنے لاعلم بھی نہ تھے جتنے کی اداکاری کر رہے تھے، ان کے لفظ ''تبدیلی'' بولنے سے مجھے احساس ہوا۔'' تبدیلی کیسے آ سکتی ہے تایا جی، سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں... '' میں نے اپنا ہمیشہ کا افسوس ناک جملہ بولا۔
'' تم مجھے بتاؤ کہ تم نے کبھی یہ تین کام کیے ہیں؟ '' انھوں نے حقہ ہٹایا اور اپنے ملازم کو آواز دی کہ حقہ تازہ کر کے لائے۔'' کون سے تین کام تایا جی؟ '' میں نے پوچھا۔'' تم نے کبھی اپنے حصے سے زائد کام کیا ہے، دفتر کے مقررہ وقت کے بعد؟
کیا تم نے کبھی کسی اور کا پھینکا ہوا کوڑا اٹھایا ہے؟ یہ سوچنے کی بجائے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں میں کیا برائیاں اور عیوب ہیں، کبھی اپنے عیوب اور برائیوں کا جائزہ لیا ہے؟ ان تین سوالوں کے جوابات چاہئیں مجھے تم سے، بے شک سوچ کر بتا دینا، کبھی پھر سہی!!'' تائی جی چائے بنا کر لے آئی تھیں، '' چائے پیو ابھی تم !!'' میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے خواہ مخواہ سستی کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے مجھے کچھ سوچنے کی ضرورت نہ تھی، ان سب سوالوں کا جواب نفی میںتھا مگر میں اس کا اظہار کر کے سبکی بھی نہ کروانا چاہ رہی تھی۔
'' کیا ان سوالوں کے جواب مثبت یا منفی ہونے سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ '' میں نے خواہ مخواہ سوال کیا۔'' یہ تین سوال... صرف سوال نہیں ہیں، ان سے قوموں کے کردار کی جانچ ہوتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں، دوسروں سے تبدیلی کا مطالبہ کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کو تبدیل کرنے کا کام مشقت کا کام ہے، اپنے اختیار کی حد صرف اپنے آپ کو تبدیل کرنے تک ہے!''...'' اپنے حصے سے زائد کام کون کرتا ہے تایا جی اور کیوں بھلا؟ ''
میں نے پہلے سوال کے بارے میں پوچھا۔ وہ جو ترقی کرنے میں سنجیدہ ہوتے ہیں پتر... وہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، کام کیے جاتے ہیں، ہمارے تو قائد بھی کام کام اور کام کا مقولہ دے گئے ہیں ہمیں!!'' ......'' اگرہم مقررہ وقت میں اپنا کام ختم کر لیں تو کیوں نہ گھروں کو لوٹیں، آرام کریں؟ ''......'' چلو تم عورتوں کے پاس تو جواز ہے کہ کام سے لوٹ کر بھی کام ہی کرتی ہو گھروں کا... '' ان کا حقہ آ گیا تھا اور وہ اسے اس کی پوزیشن پر سیٹ کر رہے تھے، ''ہمارے ہاں مسئلہ یہی ہے کہ عورت کام کیے جاتی ہے اور مرد جسے اس سے زیادہ کام کرنا چاہیے وہ اپنے مقررہ وقت پر کام سے اٹھ جاتا ہے اور اس کے بعد اس کا آرام شروع ہو جاتا ہے... مثلاً اپنی تائی کو دیکھ لو، اب بھی کام کر رہی ہے اور میں دن بھر فارغ بیٹھا حقہ گڑگڑاتا رہتا ہوں، کیونکہ ہمارے ذہنوں میں اس پودے کا بیج لگایا جاتا ہے کہ گھروں کا کام صرف عورتیں ہی کر سکتی ہیں، اگر مرد کو بھی اس کی عادت ہو تو ملک ترقی کر کے کہاں سے کہاں چلا جائے۔
گھر کے نہ سہی، دوسروں کے لیے کوئی نہ کوئی کام کر دیں جس سے انسان معاشرے کا ایک فعال رکن ہونے کا ثبوت دے سکتا ہے، کوئی بھی بھلائی کا کام ، کسی مجبور کو سودا لا دیں ، کسی کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں، کسی کی عیادت کر لیں، یہ سب کام ہی تو ہیں!''
'' یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوڑا کوئی اور پھینکے اور اٹھائیں ہم، ہم کیا کسی کے ملازم لگے ہوئے ہیں؟ '' ......'' کوڑا جہاں بھی گرے برا لگتا ہے نا، جو بھی پھینکے... تو تمہیں لگتا ہے کہ کوئی پلٹ کر اس کوڑے کو اٹھانے کے لیے آئے گا؟ نہیں!! یہ کوڑا جگہ جگہ بکھرا ہوا برا بھی لگتا ہے اور اس سے ہمارا ملک گندگی کا بد ترین نمونہ لگتا ہے، یہ ملک بدنام ہوتا ہے جو ہم سب کا ہے، تمہارا بھی اور میرا بھی، کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ پھینکنے والا کون ہے مگر تاثر تو منفی پوری دنیا میں چلا گیا نا؟ ہم تو اس نبی پاک ﷺ کی امت ہیں جو اپنے ہاتھوں سے نہ صرف اپنا گھر صاف کرتے تھے بلکہ وہ دوسروں کی مدد بھی کرنے ان کے گھروں میں جاتے تھے، ان کے گھروں کی صفائی کر دیتے تھے، ہماری شان کیا ان ﷺ کی شان سے بڑی ہے نعوذ باللہ؟''
تیسرے سوال کی وضاحت فرمائیں گے آپ؟ '' میں نے کہا۔'' بتاؤ کہ حکمران پارٹی کے لوگ، حزب مخالف کے اراکین اور ہمارے سیاستدانوں کی تعداد ہماری آبادی کا کتنے فیصد ہے؟ '' میں خاموش رہی، ''آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں نا!!''
'' ہوں !!'' میں نے ان کی تائید کی۔...''کردار کی درستی ان کی ہونی چاہیے یا اکثریت کی؟ ''
'' جو کچھ ہمارے لیڈر کرتے ہیں ، ہم اسی کی تقلید تو کرتے ہیں، ان کی وجہ سے سارا معاشرہ کرپٹ ہو گیا ہے!'' میں نے تاویل پیش کی۔'' کون ہیں یہ لوگ؟ '' تایا جی نے کش لے کر سوال کیا، '' کہاں سے آئے ہیں؟''......'' میں سمجھی نہیں؟؟ ''...... ''میرا مطلب ہے پتر کہ یہ ہم سب ہم ہی میں سے ہیں نا، ہمارے جیسے ہی اور ہمارے ہی چاچے مامے''......'' ہمارا تو کوئی چاچا ماما نہیں ہے ان میں، جو ہوتا تو کیا ہمارے وارے نیارے نہ ہوتے، ہماری بھی شان ہوتی اور ہمارے خاندان کی بھی مشہوری ہوتی!!''
'' ہاں ہاں !! کیوں نہیں، ہمارے خاندان میں سے بھی ہر گاما ماجھا اس وقت منسٹر ہوتا، ہم بھی اپنے اپنے کاروبار چمکا رہے ہوتے اور ہم بھی اس وقت اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہوتے... یہی کچھ تو وہ بھی کر رہے ہیں ، یہی ہم بھی کرتے، کون ہے جسے موقع ملا اور اس نے اپنی نسلیں نہیں سنواریں؟ ''
'' کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہے ہیں تایا جی! '' میں نے مرے مرے لہجے میں کہا، صرف یہ سن کر ہی کہ ہمارا کوئی چاچا ماما سیاست دان ہو سکتا تھا، میں نے کتنا کچھ اور بھی سوچ لیا تھا ۔
'' بس مسئلہ اس ملک کے سیاستدانوں کا ایک ہی ہے... عام آدمی کے لالچ کا شاید کوئی انت، کوئی نکتہء اختتام یا کوئی حد ہوتی ہے اس کی طمح کی، مگر ہمارے ہاں کرسیء اقتدار پر بیٹھ جاتے ہیں تو ان کی ہوس کی طنابیں ٹوٹ جاتی ہیں، وہ دونوں ہاتھوں سے پورے خاندان سمیت یوں لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ ملک کی حکمرانی ایک سائیڈ بزنس بن جاتی ہے... اور المیہ یہ ہے کہ انھیں اس بات سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی کہ اس سے قبل بھی اس ملک کو لوٹ کر کھانے والوں کو کچھ بھی خود کھانا نصیب نہیں ہوا اور انھیں بھی نہیں ہو گا!!!'' تایا جی نے میری طرف دیکھا، ان کی آنکھوں میں مایوسی تھی کہ ان کے کسی سوال کا میریش پاس مثبت جواب نہ تھا!!1