حیرت بھی حیران ایسے اتفاقات جو عقل کو ششدر کردیتے ہیں
ماضی قریب اور ماضی بعید سے تعلق رکھنے والے یہ اتفاقات قدرت کی انسانی سرگرمیوں پر گرفت کا عملی اظہار ہیں
اس وسیع و عریض کائنات میں تیرتی ہماری یہ چھوٹی سی دنیا حیرت انگیز اتفاقات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہر گزرتے لمحے میں نت نئے واقعات اور اتفاقات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر وقت کی دھول بن جاتے ہیں، مگر کچھ اپنی انفرادیت اور انوکھے پن کی وجہ سے ہر دم تازہ رہتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ حیرت انگیز اتفاقات اور واقعات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے، جنہیں ماہ وسال کی گرد بھی ہمارے ذہنوں سے محو نہیں کرسکی ہے۔ ماضی قریب اور ماضی بعید سے تعلق رکھنے والے یہ اتفاقات قدرت کی انسانی سرگرمیوں پر گرفت کا عملی اظہار ہیں:
٭ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی
ہم سب کو علم ہے کہ امریکی صدور ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا تھا۔ البتہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ان دونوں کے قتل میں کیا حیرت انگیز مماثلت تھی۔ تاہم قتل کی مماثلت سے قبل یہ جاننا بھی دل چسپی کا باعث ہوگا کہ ان دونوں کے صدر بننے کے دوران ٹھیک سو سال کا فرق ہے۔ ابراہام لنکن اٹھارہ سو ساٹھ اور جان ایف کینیڈی ٹھیک سو سال بعد انیس سو ساٹھ میں صدر منتخب ہوئے۔ دونوں کے قتل کے بعد جو دو حضرات صدارت کے منصب پر فائز ہوئے ان دونوں صدور کے ناموں میں جانسن آتا تھا جب کہ دونوں یعنی اینڈریوجانسن اور لینڈن جانسن کی پیدائش کے درمیان بھی سو برس کا فرق ہے۔ اینڈریو جانسن اٹھارہ سو آٹھ اور لینڈن جانسن انیس سو آٹھ میں پیدا ہوئے۔ اینڈریو جانس اٹھارہ سو انہتر جب کہ لینڈن جانسن انیس سو انہتر میں منصب صدارت سے فارغ ہوئے۔
اسی طرح دونوں کے قاتلوں کے سن پیدائش میں بھی ٹھیک سو برس کا وقفہ ہے۔ ابراہام لنکن کے قاتل جان واکیز بوتھ کا سن پیدائش اٹھارہ سو انتالیس جب کہ کینیڈی کے قاتل لی ہاروے اسوالڈ کا سن پیدائش انیس سو انتالیس ہے۔ دونوں قاتل کیس چلنے سے قبل ہی موت کا شکار ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر ابراہام لنکن کا قتل تھیٹر میں ہوا اور ان کا قاتل گودام میں جاکر چھپا، جب کہ جان ایف کینیڈی کو قاتل نے گودام میں سے نشانہ بنایا اور خود قریبی تھیٹر میں جا کر چھپا اور اسی مقام سے پولیس نے اسے دھرا تھا۔
ایک اور حیرت انگیز اتفاق یہ ہے کہ ابراہام لنکن جس تھیٹر میں قتل ہو ئے اس کا نام ''فورڈز تھیٹر '' تھا جب کہ کینیڈی کو جس وقت قتل کیا گیا وہ جس کار میں سوار تھے اس کار کا نام '' فورڈ لنکن'' تھا۔ ایک اور حیرت انگیز اتفاق یہ بھی تھا کہ ابراہام لنکن کے سیکرٹری کا نام کینیڈی اور کینیڈی کے سیکرٹری کا نام لنکن تھا۔ دونوں صدور پر قاتلانہ حملہ جمعہ کے روز ہوا اور دونوں کی بیویاں اس موقع پر ان کے برابر میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ قاتلوں نے دونوں کے سر میں گولیاں پیوست کیں۔
قتل کے وقت دونوں صدور کی بیویوں کے علاوہ ان کے ہمراہ مہمان جوڑا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ کینیڈی کی کار میں ان کی اہلیہ جیکولین کینیڈی کے علاوہ گورنر ٹیکساس جان کونلے اور ان کی اہلیہ ایڈانل برل کونلے ہم سفر تھیں، جب کہ ابراہام لنکن اور ان کی اہلیہ میری ٹوڈ کے ہم راہ فورڈ ز تھیٹر میں امریکی ڈپلومیٹ اور فوجی افسر ہنری ریٹبورن اپنی اہلیہ کلارا ہیرس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ دونوں صدور کے ساتھ بیٹھے ہوئے جوڑے کے مرد حضرات ان حملوں میں شدید زخمی ہوئے ابراہام لنکن تھیٹر کے جس صدارتی بوکس سے ڈراما دیکھ رہے تھے اس کا نمبر سات تھا، جب کہ جان ایف کینیڈی جس کار میں سوار تھے وہ صدارتی قافلے میں ساتویں نمبر پر چل رہی تھی۔
قاتلانہ حملے کے فوری بعد جن ڈاکٹروں نے ان دونوں صدور کو دیکھا ان ڈاکٹروں کے نام میں چارلس آتا تھا۔ دونوں صدور کی دم توڑنے کی جگہ کے ابتدائی انگریزی حروف ''پی'' اور ''ایچ'' تھے۔ ابراہام لنکن حملے کے نو گھنٹے بعد ''پیٹرسن ہاؤس'' اور جان ایف کینیڈی نے ''پارک لینڈ اسپتال'' میں انتقال کیا تھا۔ ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی کی اولادوں کی تعداد چار چار تھی۔ دونوں صدور کا ایک ایک بیٹا اس وقت انتقال کرگیا تھا، جب یہ دونوں صدارت کے منصب پر فائز تھے۔
دونوں صدور کے ناموں کے آخری حصے میں انگریزی کے سات سات حروف آتے ہیں، جب کہ دونوں کے قاتلوں کے مکمل نام میں پندرہ پندرہ حروف شامل ہیں۔ دونوں قاتلوں نے جس جگہ سے فائر کیے وہ دونوں اسی بلڈنگ میں ملازمت کرتے تھے۔ دونوں صدور کے باڈی گارڈوں کے نام میں ولیم آتا تھا اور ان دنوں گارڈوں نے پچھتر سال پانچ ماہ کی عمر پائی تھی۔
٭پہلی جنگ عظیم۔ اتفاق یا غلطی
پہلی جنگ عظیم انسانی تاریخ کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے۔ یہ جنگ مجموعی طور پر لگ بھگ ڈھائی کروڑ نفوس کی ہلاکت کا باعث بنی۔ اس خونی جنگ کی ابتدا اس وقت کے آسٹروہنگری کے ولی عہد فرانسس فرڈینینڈ کے قتل سے ہوئی، جسے اٹھائیس جون انیس سو چودہ کو سلاوک شہری گیوریل پرنکپ نے فائرنگ کرکے جہان فانی سے رخصت کیا۔ اس واقعے میں فرانسس فرڈینینڈ کے علاوہ اس کی بیوی بھی لقمۂ اجل بنی۔ قتل کی یہ واردات بھی ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔
واقعے کے مطابق قاتل گیوریل پرنکپ اور اس کے ساتھیوں نے شہزادے کو مارنے کے لیے چھے مختلف مقامات پر گھات لگائی تھی۔ ایسے ہی ایک مقام پر سے ولی عہد کی گاڑی پر دستی بم پھینکا گیا، مگر شہزادہ بچ گیا تاہم عوام اور کچھ محافظ زخمی ہوئے خوش قسمتی سے شہزادہ اور اس کا قافلہ ان تمام مقامات سے اپنی گاڑی میں بحفاظت آگے بڑھتے ہوئے تقریب کے مقام ٹاؤن ہال تک پہنچ گئے۔
تقریب کے اختتام پر شہزادے نے غیرمتوقع طور پر طے شدہ پروگرام تبدیل کرتے ہوئے زخمی افراد کی عیادت کے لیے سرائیوو اسپتال جانے کا حکم دیا۔ طے شدہ پروگرام کے تحت انہیں نیشنل میوزیم جانا تھا۔ دوسری طرف قاتل گیوریل پرنکپ شہزادے کو نیشنل میوزیم جانے والے راستے پر قتل کرنے کے لیے تیار تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ شہزادے کا روٹ تبدیل ہوچکا ہے اور شہزادہ اب نیشنل میوزیم جانے کے بجائے سرائیوو اسپتال جائے گا۔
بدقسمتی سے جس گاڑی میں شہزادہ فرانسس فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ بیٹھیں اس کے ڈرائیور، جس کا نام لیو پولڈلاجکا تھا، اسے پولیس چیف ایڈمنڈ جیراڈ کی نااہلی اور بدحواسی کے باعث تبدیل شدہ روٹ کا علم نہ ہوسکا اور ڈرائیورلیوپولڈ لاجکا نے طے شدہ راستے یعنی نیشنل میوزیم کی طرف جانے والے راستے پر گاڑی موڑ دی اس دوران گاڑی قاتل گیوریل پرنکپ کے سامنے انتہائی تیزی سے گزر گئی اور اسے فائر کرنے کا موقع نہیں ملا اور وہ ولی عہد کی واپسی میں اپنے منصوبے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگا۔
دوسری طرف جیسے ہی محافظ دستے نے شاہی جوڑے کی گاڑی سرائیوو اسپتال کی طرف جانے کے بجائے نیشنل میوزیم کی جانب جاتے ہوئے دیکھی تو اسے روکنے کے لیے چیخ کر ڈرائیور کو گاڑی واپس لانے کا حکم دیا اور کہا کہ گاڑی سرائیوو اسپتال جائے گی۔ چوں کہ آگے راستہ تنگ تھا، لہٰذا ڈرائیور نے فوراً گاڑی ریورس کی، مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد گاڑی کا انجن عین اس مقام پر بند ہوگیا، جہاں پر قاتل کیوریل پرنکپ محض پانچ فٹ کی دوری پر موجود تھا۔ اپنے ہدف کو سامنے دیکھتے ہی گیوریل پرنکپ نے ولی عہد فرانسس فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ پر فائرنگ کردی۔ دونوں موقع پر جاں بحق ہوگئے۔
اگر پولیس چیف ڈرائیور کو آگاہ کردیتا کہ نیشنل میوزیم کے بجائے سرائیوو ہسپتال کی جانب جانا ہے تو شاید سربیا سے تعلق رکھنے والا قاتل اپنے ارادے میں کام یاب نہ ہوتا یا پھر قاتل کے سامنے سے گزرنے کے باوجود گاڑی ریورس کرتے ہوئے عین اس مقام پر خراب نہ ہوتی جہاں قاتل موجود تھا تو شاید سرائیوو کی سڑکوں سے شروع ہونے والی نسلی کشیدگی پہلی عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہوتی۔
٭قاتل اور محسن
ابراہام لنکن کے قتل سے چند ماہ قبل ابراہام لنکن کے صاحب زادے رابرٹ ٹوڈ لنکن نیو جرسی کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں رش کے باعث دھکم پیل میں وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے اور پلیٹ فارم سے ریلوے ٹریک پر گرگئے۔ تاہم جیسے ہی وہ کھڑے ہوئے ایک آدمی نے انہیں تیزی سے اوپر کھینچ لیا۔
رابرٹ ٹوڈ لنکن نے پلٹ کر اس آدمی کی جانب دیکھا تو انہیں خوش گوار حیرت ہوئی کہ انہیں ٹرین کے نیچے آنے سے بچانے والا شخص مشہور اداکار ایڈون بوتھ ہے۔ مورخ اس واقعے اور ابراہام لنکن کے قتل کے واقعے کو ایک عجیب اتفاق قرار دیتے ہیں، کیوں کہ صدر ابراہام لنکن کے بیٹے رابرٹ ٹوڈ لنکن کو بچانے والا شخص ایڈون ٹوڈ کوئی اور نہیں ابراہام لنکن کے قاتل جان واکیز بوتھ کا بھائی تھا، جس نے اس واقعے کے چند ماہ بعد ابراہام لنکن کو قتل کیا۔
٭ڈیڑھ صدی قبل قتل میں مماثلت
ستائیس مئی انیس سو پچھتر کو انگلینڈ کے شہر برمنگھم کے نواحی علاقے ارڈنگٹون سے ایک بیس سالہ لڑکی کی لاش ملی۔ اس لڑکی کو بے دردی سے بے حرمتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا تھا۔ مقتولہ کا نام باربرا فورسٹ تھا۔ اس افسوس ناک خبر کا حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق تقریباً ایک سو ستاون برس قبل اسی مقام سے ستائیس مئی اٹھارہ سو سترہ کو میری ایش فورڈ نام کی ایک لڑکی کی لاش ملی تھی جس کی عمر بیس سال تھی اور اسے بھی بے دردی سے بے حرمتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔
دونوں کو ستائیس مئی کو قتل کیا گیا، جب کہ دونوں واقعات کے موقع پر اس دن عیسائیوں کا ''وتھ منذے'' کا تہوار تھا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں کے قاتلوں کے ناموں میں تھورن ٹن آتا تھا اور دونوں ہی کو عدالت نے اس جرم سے عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا تھا، جب کہ دونوں کے لواحقین نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔
٭دو جڑواں اموات
چھے مارچ سن دوہزار دو کو مشہور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی خبر کے مطابق فن لینڈ کے شہر ''راہیے'' میں ایک ستر سالہ شخص روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگیا۔ اس واقعے کے محض دو گھنٹے بعد اسی سڑک کے دوسرے کنارے پر ایک اور شخص روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوا۔
تحقیق کے بعد پتا چلا کہ یہ دونوں جڑواں بھائی تھے اور جس وقت یہ دونوں علیحدہ علیحدہ حادثوں کا شکار ہوئے دونوں ہی سائیکلوں پر سوار تھے اور دونوں کو ٹکر مارنے والی گاڑی مال برداری کا ٹرک تھا۔ اس حوالے سے پولیس کی تفتیشی آفیسر مارجا لینا نے خبررساں ایجنسی رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بعد میں ہلاک والے بھائی کو اپنے دوسرے بھائی کی روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاکت کا علم نہیں تھا، لہٰذا اسے غم زدہ بھائی کی خودکشی بھی نہیں کہا جاسکتا۔
٭بادشاہ کا ہم شکل
یہ اٹھارہ سو ستر کا ذکر ہے، جب اٹلی کے بادشاہ ''امبرٹو اول'' اپنے عملے کے ساتھ مونزا شہر میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لیے گئے۔ بادشاہ کو خوش آمدید کہنے کے لیے ریسٹورنٹ کے مالک نے جب بادشاہ امبرٹو اول سے مصافحہ کیا تو بادشاہ نے محسوس کیا کہ ریسٹورنٹ کے مالک کی شکل اور جسمانی ساخت بالکل اس کے (بادشاہ) جیسی ہے۔
اس مماثلت کا ذکر بادشاہ نے جب ریسٹورنٹ کے مالک سے کیا تو اس نے اسے اپنی خوش بختی قرار دیا، لیکن معاملہ صرف ملتی جلتی شکل پر نہیں رکا، بل کہ دونوں کے درمیان گفتگو سے یہ بھی کھلا کہ دونوں یعنی ریسٹورنٹ کے مالک اور بادشاہ امبرٹو اول کی تاریخ پیدائش اور سال یعنی چودہ مارچ اٹھارہ سو چوالیس ہے۔ اسی طرح دونوں کی بیویوں کا نام مارگریٹا ہے اور حیرت انگیز طور پر ریسٹورنٹ کے افتتاح کا دن بھی وہی ہے جس دن بادشاہ امبرٹو اول نے بادشاہی کا تاج اپنے سر پر سجایا تھا اور سب سے بڑا اتفاق یہ ہے کے جس دن بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ ریسٹورنٹ کا مالک انتقال کرگیا ہے عین اسی دن یعنی انتیس جولائی انیس سو کو بادشاہ امبرٹو اول کو بھی قتل کردیا گیا۔
٭بھائی کا انتقام
یہ اٹھارہ سو تراسی کا واقعہ ہے جب ہنری زیگ لینڈ نام کے ایک نوجوان نے اپنی محبوبہ سے بے وفائی کرتے ہوئے اس سے رشتہ توڑ لیا۔ اس فیصلے کو سنتے ہی دل برداشتہ لڑکی نے خودکشی کرلی۔ لڑکی کی خودکشی کا سن کر لڑکی کے بھائی نے ہنری کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک سنسان مقام پر بلوا کر اس پر فائر کردیا اور خود کو بھی ختم کرلیا۔ حیرت انگیز طور پر ہنری جاں بحق نہیں ہوا بل کہ گولی اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے قریب موجود درخت کے تنے میں جاکر پیوست ہوگئی۔
ہنری جائے وقوع سے بھاگ کر اپنے گھر واپس آگیا، لیکن اس واقعے کو بھولا نہیں۔ اتفاق سے یہ درخت اس راستے پر واقع تھا جس پر سے روزانہ گزر کر ہنری کو اپنے کام پر جانا ہوتا تھا۔ تقریباً دو سال بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس درخت کو جس میں گولی پیوست ہے کاٹ دے گا، تاکہ اسے بار بار واقعے کی یاد نہ آئے۔ اس نے اپنے چند دوستوں کو ساتھ لیا اور درخت کاٹنا شروع کیا۔ تاہم وہ ایک بہت بڑا درخت تھا، لہٰذا ہنری اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ بجائے کاٹنے کے وہ اس درخت کو ڈائنامائٹ سے اڑا دیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا، لیکن اسے اتفاق کہیں گے یا انتقام کہ دھماکا ہوتے ہی درخت کے تنے میں پیوست گولی برق رفتاری سے نکلی اور سیدھے ہنری کے سر کو پھاڑتے ہوئے ایک بھائی کے انتقام کو پورا کرگئی۔
٭ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی
ہم سب کو علم ہے کہ امریکی صدور ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا تھا۔ البتہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ان دونوں کے قتل میں کیا حیرت انگیز مماثلت تھی۔ تاہم قتل کی مماثلت سے قبل یہ جاننا بھی دل چسپی کا باعث ہوگا کہ ان دونوں کے صدر بننے کے دوران ٹھیک سو سال کا فرق ہے۔ ابراہام لنکن اٹھارہ سو ساٹھ اور جان ایف کینیڈی ٹھیک سو سال بعد انیس سو ساٹھ میں صدر منتخب ہوئے۔ دونوں کے قتل کے بعد جو دو حضرات صدارت کے منصب پر فائز ہوئے ان دونوں صدور کے ناموں میں جانسن آتا تھا جب کہ دونوں یعنی اینڈریوجانسن اور لینڈن جانسن کی پیدائش کے درمیان بھی سو برس کا فرق ہے۔ اینڈریو جانسن اٹھارہ سو آٹھ اور لینڈن جانسن انیس سو آٹھ میں پیدا ہوئے۔ اینڈریو جانس اٹھارہ سو انہتر جب کہ لینڈن جانسن انیس سو انہتر میں منصب صدارت سے فارغ ہوئے۔
اسی طرح دونوں کے قاتلوں کے سن پیدائش میں بھی ٹھیک سو برس کا وقفہ ہے۔ ابراہام لنکن کے قاتل جان واکیز بوتھ کا سن پیدائش اٹھارہ سو انتالیس جب کہ کینیڈی کے قاتل لی ہاروے اسوالڈ کا سن پیدائش انیس سو انتالیس ہے۔ دونوں قاتل کیس چلنے سے قبل ہی موت کا شکار ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر ابراہام لنکن کا قتل تھیٹر میں ہوا اور ان کا قاتل گودام میں جاکر چھپا، جب کہ جان ایف کینیڈی کو قاتل نے گودام میں سے نشانہ بنایا اور خود قریبی تھیٹر میں جا کر چھپا اور اسی مقام سے پولیس نے اسے دھرا تھا۔
ایک اور حیرت انگیز اتفاق یہ ہے کہ ابراہام لنکن جس تھیٹر میں قتل ہو ئے اس کا نام ''فورڈز تھیٹر '' تھا جب کہ کینیڈی کو جس وقت قتل کیا گیا وہ جس کار میں سوار تھے اس کار کا نام '' فورڈ لنکن'' تھا۔ ایک اور حیرت انگیز اتفاق یہ بھی تھا کہ ابراہام لنکن کے سیکرٹری کا نام کینیڈی اور کینیڈی کے سیکرٹری کا نام لنکن تھا۔ دونوں صدور پر قاتلانہ حملہ جمعہ کے روز ہوا اور دونوں کی بیویاں اس موقع پر ان کے برابر میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ قاتلوں نے دونوں کے سر میں گولیاں پیوست کیں۔
قتل کے وقت دونوں صدور کی بیویوں کے علاوہ ان کے ہمراہ مہمان جوڑا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ کینیڈی کی کار میں ان کی اہلیہ جیکولین کینیڈی کے علاوہ گورنر ٹیکساس جان کونلے اور ان کی اہلیہ ایڈانل برل کونلے ہم سفر تھیں، جب کہ ابراہام لنکن اور ان کی اہلیہ میری ٹوڈ کے ہم راہ فورڈ ز تھیٹر میں امریکی ڈپلومیٹ اور فوجی افسر ہنری ریٹبورن اپنی اہلیہ کلارا ہیرس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ دونوں صدور کے ساتھ بیٹھے ہوئے جوڑے کے مرد حضرات ان حملوں میں شدید زخمی ہوئے ابراہام لنکن تھیٹر کے جس صدارتی بوکس سے ڈراما دیکھ رہے تھے اس کا نمبر سات تھا، جب کہ جان ایف کینیڈی جس کار میں سوار تھے وہ صدارتی قافلے میں ساتویں نمبر پر چل رہی تھی۔
قاتلانہ حملے کے فوری بعد جن ڈاکٹروں نے ان دونوں صدور کو دیکھا ان ڈاکٹروں کے نام میں چارلس آتا تھا۔ دونوں صدور کی دم توڑنے کی جگہ کے ابتدائی انگریزی حروف ''پی'' اور ''ایچ'' تھے۔ ابراہام لنکن حملے کے نو گھنٹے بعد ''پیٹرسن ہاؤس'' اور جان ایف کینیڈی نے ''پارک لینڈ اسپتال'' میں انتقال کیا تھا۔ ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی کی اولادوں کی تعداد چار چار تھی۔ دونوں صدور کا ایک ایک بیٹا اس وقت انتقال کرگیا تھا، جب یہ دونوں صدارت کے منصب پر فائز تھے۔
دونوں صدور کے ناموں کے آخری حصے میں انگریزی کے سات سات حروف آتے ہیں، جب کہ دونوں کے قاتلوں کے مکمل نام میں پندرہ پندرہ حروف شامل ہیں۔ دونوں قاتلوں نے جس جگہ سے فائر کیے وہ دونوں اسی بلڈنگ میں ملازمت کرتے تھے۔ دونوں صدور کے باڈی گارڈوں کے نام میں ولیم آتا تھا اور ان دنوں گارڈوں نے پچھتر سال پانچ ماہ کی عمر پائی تھی۔
٭پہلی جنگ عظیم۔ اتفاق یا غلطی
پہلی جنگ عظیم انسانی تاریخ کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے۔ یہ جنگ مجموعی طور پر لگ بھگ ڈھائی کروڑ نفوس کی ہلاکت کا باعث بنی۔ اس خونی جنگ کی ابتدا اس وقت کے آسٹروہنگری کے ولی عہد فرانسس فرڈینینڈ کے قتل سے ہوئی، جسے اٹھائیس جون انیس سو چودہ کو سلاوک شہری گیوریل پرنکپ نے فائرنگ کرکے جہان فانی سے رخصت کیا۔ اس واقعے میں فرانسس فرڈینینڈ کے علاوہ اس کی بیوی بھی لقمۂ اجل بنی۔ قتل کی یہ واردات بھی ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔
واقعے کے مطابق قاتل گیوریل پرنکپ اور اس کے ساتھیوں نے شہزادے کو مارنے کے لیے چھے مختلف مقامات پر گھات لگائی تھی۔ ایسے ہی ایک مقام پر سے ولی عہد کی گاڑی پر دستی بم پھینکا گیا، مگر شہزادہ بچ گیا تاہم عوام اور کچھ محافظ زخمی ہوئے خوش قسمتی سے شہزادہ اور اس کا قافلہ ان تمام مقامات سے اپنی گاڑی میں بحفاظت آگے بڑھتے ہوئے تقریب کے مقام ٹاؤن ہال تک پہنچ گئے۔
تقریب کے اختتام پر شہزادے نے غیرمتوقع طور پر طے شدہ پروگرام تبدیل کرتے ہوئے زخمی افراد کی عیادت کے لیے سرائیوو اسپتال جانے کا حکم دیا۔ طے شدہ پروگرام کے تحت انہیں نیشنل میوزیم جانا تھا۔ دوسری طرف قاتل گیوریل پرنکپ شہزادے کو نیشنل میوزیم جانے والے راستے پر قتل کرنے کے لیے تیار تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ شہزادے کا روٹ تبدیل ہوچکا ہے اور شہزادہ اب نیشنل میوزیم جانے کے بجائے سرائیوو اسپتال جائے گا۔
بدقسمتی سے جس گاڑی میں شہزادہ فرانسس فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ بیٹھیں اس کے ڈرائیور، جس کا نام لیو پولڈلاجکا تھا، اسے پولیس چیف ایڈمنڈ جیراڈ کی نااہلی اور بدحواسی کے باعث تبدیل شدہ روٹ کا علم نہ ہوسکا اور ڈرائیورلیوپولڈ لاجکا نے طے شدہ راستے یعنی نیشنل میوزیم کی طرف جانے والے راستے پر گاڑی موڑ دی اس دوران گاڑی قاتل گیوریل پرنکپ کے سامنے انتہائی تیزی سے گزر گئی اور اسے فائر کرنے کا موقع نہیں ملا اور وہ ولی عہد کی واپسی میں اپنے منصوبے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگا۔
دوسری طرف جیسے ہی محافظ دستے نے شاہی جوڑے کی گاڑی سرائیوو اسپتال کی طرف جانے کے بجائے نیشنل میوزیم کی جانب جاتے ہوئے دیکھی تو اسے روکنے کے لیے چیخ کر ڈرائیور کو گاڑی واپس لانے کا حکم دیا اور کہا کہ گاڑی سرائیوو اسپتال جائے گی۔ چوں کہ آگے راستہ تنگ تھا، لہٰذا ڈرائیور نے فوراً گاڑی ریورس کی، مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد گاڑی کا انجن عین اس مقام پر بند ہوگیا، جہاں پر قاتل کیوریل پرنکپ محض پانچ فٹ کی دوری پر موجود تھا۔ اپنے ہدف کو سامنے دیکھتے ہی گیوریل پرنکپ نے ولی عہد فرانسس فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ پر فائرنگ کردی۔ دونوں موقع پر جاں بحق ہوگئے۔
اگر پولیس چیف ڈرائیور کو آگاہ کردیتا کہ نیشنل میوزیم کے بجائے سرائیوو ہسپتال کی جانب جانا ہے تو شاید سربیا سے تعلق رکھنے والا قاتل اپنے ارادے میں کام یاب نہ ہوتا یا پھر قاتل کے سامنے سے گزرنے کے باوجود گاڑی ریورس کرتے ہوئے عین اس مقام پر خراب نہ ہوتی جہاں قاتل موجود تھا تو شاید سرائیوو کی سڑکوں سے شروع ہونے والی نسلی کشیدگی پہلی عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہوتی۔
٭قاتل اور محسن
ابراہام لنکن کے قتل سے چند ماہ قبل ابراہام لنکن کے صاحب زادے رابرٹ ٹوڈ لنکن نیو جرسی کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں رش کے باعث دھکم پیل میں وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے اور پلیٹ فارم سے ریلوے ٹریک پر گرگئے۔ تاہم جیسے ہی وہ کھڑے ہوئے ایک آدمی نے انہیں تیزی سے اوپر کھینچ لیا۔
رابرٹ ٹوڈ لنکن نے پلٹ کر اس آدمی کی جانب دیکھا تو انہیں خوش گوار حیرت ہوئی کہ انہیں ٹرین کے نیچے آنے سے بچانے والا شخص مشہور اداکار ایڈون بوتھ ہے۔ مورخ اس واقعے اور ابراہام لنکن کے قتل کے واقعے کو ایک عجیب اتفاق قرار دیتے ہیں، کیوں کہ صدر ابراہام لنکن کے بیٹے رابرٹ ٹوڈ لنکن کو بچانے والا شخص ایڈون ٹوڈ کوئی اور نہیں ابراہام لنکن کے قاتل جان واکیز بوتھ کا بھائی تھا، جس نے اس واقعے کے چند ماہ بعد ابراہام لنکن کو قتل کیا۔
٭ڈیڑھ صدی قبل قتل میں مماثلت
ستائیس مئی انیس سو پچھتر کو انگلینڈ کے شہر برمنگھم کے نواحی علاقے ارڈنگٹون سے ایک بیس سالہ لڑکی کی لاش ملی۔ اس لڑکی کو بے دردی سے بے حرمتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا تھا۔ مقتولہ کا نام باربرا فورسٹ تھا۔ اس افسوس ناک خبر کا حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق تقریباً ایک سو ستاون برس قبل اسی مقام سے ستائیس مئی اٹھارہ سو سترہ کو میری ایش فورڈ نام کی ایک لڑکی کی لاش ملی تھی جس کی عمر بیس سال تھی اور اسے بھی بے دردی سے بے حرمتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔
دونوں کو ستائیس مئی کو قتل کیا گیا، جب کہ دونوں واقعات کے موقع پر اس دن عیسائیوں کا ''وتھ منذے'' کا تہوار تھا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں کے قاتلوں کے ناموں میں تھورن ٹن آتا تھا اور دونوں ہی کو عدالت نے اس جرم سے عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا تھا، جب کہ دونوں کے لواحقین نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔
٭دو جڑواں اموات
چھے مارچ سن دوہزار دو کو مشہور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی خبر کے مطابق فن لینڈ کے شہر ''راہیے'' میں ایک ستر سالہ شخص روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگیا۔ اس واقعے کے محض دو گھنٹے بعد اسی سڑک کے دوسرے کنارے پر ایک اور شخص روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوا۔
تحقیق کے بعد پتا چلا کہ یہ دونوں جڑواں بھائی تھے اور جس وقت یہ دونوں علیحدہ علیحدہ حادثوں کا شکار ہوئے دونوں ہی سائیکلوں پر سوار تھے اور دونوں کو ٹکر مارنے والی گاڑی مال برداری کا ٹرک تھا۔ اس حوالے سے پولیس کی تفتیشی آفیسر مارجا لینا نے خبررساں ایجنسی رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بعد میں ہلاک والے بھائی کو اپنے دوسرے بھائی کی روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاکت کا علم نہیں تھا، لہٰذا اسے غم زدہ بھائی کی خودکشی بھی نہیں کہا جاسکتا۔
٭بادشاہ کا ہم شکل
یہ اٹھارہ سو ستر کا ذکر ہے، جب اٹلی کے بادشاہ ''امبرٹو اول'' اپنے عملے کے ساتھ مونزا شہر میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لیے گئے۔ بادشاہ کو خوش آمدید کہنے کے لیے ریسٹورنٹ کے مالک نے جب بادشاہ امبرٹو اول سے مصافحہ کیا تو بادشاہ نے محسوس کیا کہ ریسٹورنٹ کے مالک کی شکل اور جسمانی ساخت بالکل اس کے (بادشاہ) جیسی ہے۔
اس مماثلت کا ذکر بادشاہ نے جب ریسٹورنٹ کے مالک سے کیا تو اس نے اسے اپنی خوش بختی قرار دیا، لیکن معاملہ صرف ملتی جلتی شکل پر نہیں رکا، بل کہ دونوں کے درمیان گفتگو سے یہ بھی کھلا کہ دونوں یعنی ریسٹورنٹ کے مالک اور بادشاہ امبرٹو اول کی تاریخ پیدائش اور سال یعنی چودہ مارچ اٹھارہ سو چوالیس ہے۔ اسی طرح دونوں کی بیویوں کا نام مارگریٹا ہے اور حیرت انگیز طور پر ریسٹورنٹ کے افتتاح کا دن بھی وہی ہے جس دن بادشاہ امبرٹو اول نے بادشاہی کا تاج اپنے سر پر سجایا تھا اور سب سے بڑا اتفاق یہ ہے کے جس دن بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ ریسٹورنٹ کا مالک انتقال کرگیا ہے عین اسی دن یعنی انتیس جولائی انیس سو کو بادشاہ امبرٹو اول کو بھی قتل کردیا گیا۔
٭بھائی کا انتقام
یہ اٹھارہ سو تراسی کا واقعہ ہے جب ہنری زیگ لینڈ نام کے ایک نوجوان نے اپنی محبوبہ سے بے وفائی کرتے ہوئے اس سے رشتہ توڑ لیا۔ اس فیصلے کو سنتے ہی دل برداشتہ لڑکی نے خودکشی کرلی۔ لڑکی کی خودکشی کا سن کر لڑکی کے بھائی نے ہنری کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک سنسان مقام پر بلوا کر اس پر فائر کردیا اور خود کو بھی ختم کرلیا۔ حیرت انگیز طور پر ہنری جاں بحق نہیں ہوا بل کہ گولی اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے قریب موجود درخت کے تنے میں جاکر پیوست ہوگئی۔
ہنری جائے وقوع سے بھاگ کر اپنے گھر واپس آگیا، لیکن اس واقعے کو بھولا نہیں۔ اتفاق سے یہ درخت اس راستے پر واقع تھا جس پر سے روزانہ گزر کر ہنری کو اپنے کام پر جانا ہوتا تھا۔ تقریباً دو سال بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس درخت کو جس میں گولی پیوست ہے کاٹ دے گا، تاکہ اسے بار بار واقعے کی یاد نہ آئے۔ اس نے اپنے چند دوستوں کو ساتھ لیا اور درخت کاٹنا شروع کیا۔ تاہم وہ ایک بہت بڑا درخت تھا، لہٰذا ہنری اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ بجائے کاٹنے کے وہ اس درخت کو ڈائنامائٹ سے اڑا دیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا، لیکن اسے اتفاق کہیں گے یا انتقام کہ دھماکا ہوتے ہی درخت کے تنے میں پیوست گولی برق رفتاری سے نکلی اور سیدھے ہنری کے سر کو پھاڑتے ہوئے ایک بھائی کے انتقام کو پورا کرگئی۔