اسامہ کی تلاش ڈاکٹر آفریدی کو 10ہزار ڈالر دیے گئے

القاعدہ سربراہ 6سال کمپاؤنڈ سے باہر نہیں نکلے، آئی ایس آئی نے بھی سی آئی اے کو معلومات دیں

القاعدہ سربراہ 6سال کمپاؤنڈ سے باہر نہیں نکلے، آئی ایس آئی نے بھی سی آئی اے کو معلومات دیں فوٹو: ایکسپریس

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد آپریشن میں امریکی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کی تحقیقات کیلیے قائم کیا گیا کمیشن اب جلد ہی اپنی تحقیقات وزیراعظم کو پیش کردیگا۔

کمیشن نے تحقیقات کے بعد 700صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی ہے جس میں 300عینی شاہدین اور 3ہزار دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد 200سفارشات بھی کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تحقیقات اسامہ بن لادن کے اہل خانہ، ان کے پڑوسیوں اور سرکاری سول و فوجی حکام کے بیانات کی روشنی میں کی گئی ہے۔ رپورٹ کا کچھ حصہ اسامہ بن لادن کے بارے میں انتہائی ذاتی نوعیت کا ہے، بن لادن اس کمپاؤنڈ میں 2005ء سے 2011ء تک رہے اور باہر نہیں نکلے وہ القاعدہ سے متعلق خبروں کیلیے الجزیرہ ٹی وی دیکھتے تھے۔

آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن نے اپنے اہل خانہ کو پرسکون رہنے اور انھیں کلمہ طبیہ پڑھنے کی نصیحت کی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کا سراغ لگانے میں مدد دینے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سی آئی اے نے 10ہزار ڈالر دیے تھے اور اسے خود بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اسے اسامہ بن لادن کے بچوں کے ڈی این اے لینے کا کام دیا گیا ہے۔ وہ تین بار ناکامی کے بعد مذکورہ کمپاؤنڈ سے ایک خاتون کے ذریعے اسامہ خاندان کے بچوں کے ڈی این اے کے نمونے لینے میں کامیاب ہوا۔




اس خاتون نے ہیپاٹائٹس کی ویکسینیشن کیلیے اسامہ بن لادن کے پیغام رساں خالد الکویتی کو کمپاؤنڈ کے احاطے میں داخل ہونے پر راضی کرلیا تھا جب کہ اسامہ کی اہلیہ کی وائس میچنگ پروسس میں بھی ڈاکٹر آمنہ کے ذریعے کی گئی جو شکیل آفریدی کی ساتھی تھی۔ سی آئی اے نے ڈی این اے ٹیسٹ کی تصدیق کے فوری بعد ڈاکٹر آفریدی کو کہا تھا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر امریکا منتقل ہوجائے۔ رپورٹ کے مطابق انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کے چار ٹیلی فون نمبرز اور ایبٹ آباد کے مذکورہ پتے پر بھیجے جانے والے خطوط فراہم کیے تھے۔

وزارت قانون کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رپورٹ دو ماہ پہلے ہی مکمل کرلی گئی تھی تاہم کمیشن کے ایک رکن عباس شاہ کے امریکا میں علاج کیلیے موجود ہونے کی وجہ سے رپورٹ پر ان کے دستخط نہیں ہوسکے۔ اسی عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ تحقیقاتی کمیشن کے ارکان میں کچھ باتوں پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے رپورٹ پر دستخط کیلیے دستیاب نہ ہونے پر ان کی کمیشن سے رکنیت منسوخ کرنے کی بھی ہدایت کررکھی ہے۔
Load Next Story