مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی نئی لہر

گزشتہ جولائی سے دس اضلاع میں اب تک کم از کم 25اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا


Editorial November 06, 2016
۔ فوٹو: فائل

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائی میں دو نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ بھارتی فوجیوں نے ایک نوجوان وسیم احمد کھانڈے کو ضلع شوپیاں کے علاقے میں تلاشی کے دوران شہید کیا جب کہ سرینگر کا 16سالہ قیصر صوفی 27 اکتوبر کو لاپتہ ہو گیا تھا جس کے گزشتہ روز وہ بیہوشی کی حالت میں پایا گیا' اس کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے وہ اب جمعہ کی شام اسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ قیصر صوفی کو زبردستی زہریلا محلول جسے سیکیورٹی فورسز نیوا کہتی ہیں پلایا گیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارتی فوج نے دوران حراست قیصر کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے زہر دے دیا۔ حالات یہ ہے کہ جنازوں میں شریک لوگوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔

مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے احتجاج اور ہڑتال کو چار ماہ گزر گئے اس دوران بھارتی فوج نے ظلم و ستم کا ہر حربہ آزما ڈالا' پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس سے درجنوں کشمیری بینائی سے محروم اور جسمانی طور پر مختلف بیماریوں کا شکار ہو گئے' گھر گھر تلاشی اور محاصرے کے دوران کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا جن میں سے کچھ کی تشدد زدہ لاشیں ملیں۔ اب بھارتی فوج نے ظلم کا نیا حربہ شروع کیا ہے وہ کشمیری نوجوانوں پر تشدد کے بعد انھیں زہر دے دیتی ہے۔

خبروں کے مطابق بھارتی فوج نے قیصر صوفی کو بھی تشدد کے بعد زہر دے دیا گزشتہ روز جب بھارتی فورسز نے قیصر صوفی کی پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی نعش دیکھی تو اس نے جنازے کے شرکاء پر شدید شیلنگ شروع کر دی جس سے دو خواتین سمیت 50سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ بھارتی فورسز نے اسکولوں کو بھی نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ جولائی سے دس اضلاع میں اب تک کم از کم 25اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا' آتشزدگی کی ان کارروائیوں کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں ابھی تک واضح نہیں ہو سکا'ایمنسٹی نے کشمیر میں اسکولوں کی حفاظت اور ان پر بھارتی فورسز کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں کو نذر آتش کرنے میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

بھارتی فورسز کی ان کارروائیوں کا بظاہر مقصد کشمیری بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا معلوم ہوتا ہے۔ بھارت ظلم و ستم کے تمام تر حربے آزمانے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبا نہیں سکا یہاں تک کہ چار ماہ سے جاری احتجاج کو فرو کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ بھارتی فورسز کے مظالم میں جوں جوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کشمیریوں کا احتجاج توں توں بڑھتا چلا جاتا ہے۔

ایک جانب کشمیر میں بھارتی فورسز کی ظالمانہ کارروائیاں جاری ہیں تو دوسری جانب بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کی سرحدوں پر بھی کشیدگی پیدا کر رکھی ہے۔ بھارتی فورسز آئے روز کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری سے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں۔ پاکستان نے بھارتی سرحد کی خلاف ورزیوں پر کئی بار احتجاج کیا ہے' دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز آپریشنز کے درمیان کئی بار بات چیت ہوئی اور سرحدی خلاف ورزیاں روکنے پر اتفاق کیا گیا مگر میٹنگز کے اگلے ہی روز بھارتی فورسز پھر سرحدی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں' اتوار کو بھی ان خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر بھارت کیا چاہتا ہے اور ان مذموم کارروائیوں کے پیچھا اس کے کیا مقاصد کار فرما ہیں اسے کھل کر بیان کر دینا چاہیے۔

بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے مگر وہ کسی بھی صورت کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جب بھارت نے عالمی قوانین کو روندتے ہوئے کشمیریوں کے خلاف پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس ظلم کے خلاف کھڑی ہو جاتیں اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالتیں کہ وہ بھارت کو ان ظالمانہ کارروائیوں سے باز رکھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کا دوغلا اور منافقانہ کردار کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

بھارت کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ وہ طاقت کے زور پر کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہیں سکتا اور نہ پرامن کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنا سکتا ہے لہٰذا اسے زمینی حقائق کے پیش نظر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر سے بحال کر دینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا یہی واحد حل اور پورے خطے کا امن بھی اسی میں مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔