بے حسی یا نااہلی

الیکٹرانک میڈیا کو قافلوں کی جلسہ گاہ میں آمد، خواتین کی سیلفیاں اور جھڑپیں دکھانے سے فرصت ہی نہ ملی

muqtidakhan@hotmail.com

یکم نومبر، جس روز پانامہ لیکس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کا ابتدائی حکمنامہ آیا اور فرط جذبات یا اپنی متوقع ناکامی سے بچنے کے لیے عمران خان نے دارالحکومت کا دھرنا موخر کرتے ہوئے 2 نومبر کو یوم تشکر قرار دیدیا، تمام آنکھیں اور کان کپتان کی جانب سے لمحہ بہ لمحہ آنے والی ہدایات پر مرکوز رہے، جب کہ ہمارا مستعد اور فعال الیکٹرانک میڈیا، جو کئی روز سے اپنی پوری توجہ کپتان کی 'نواز ہٹائو تحریک' پر مرکوز کیے ہوئے تھا، اسے بھی کسی اور جانب دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔

اسی روز یہ خبر آئی کہ کراچی سے دو گھنٹے کی مسافت پر بلوچستان کی حدود میں واقع گڈانی کے مقام پر شپ بریکنگ یارڈ میں ایک جہاز کو توڑے جانے کے دوران اچانک اس میں آگ بھڑک اٹھی، جو کوششوں کے باوجود بجھائی نہ جا سکی۔ آگ بھڑکتی رہی، ساتھ ہی مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔ گاہے بگاہے یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مزدور جہاز کے اندر پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں باہر نکالنے کا کوئی بندوبست نہیں ہو رہا۔ مگر الیکٹرانک میڈیا کو قافلوں کی جلسہ گاہ میں آمد، خواتین کی سیلفیاں اور جھڑپیں دکھانے سے فرصت ہی نہ ملی کہ وہ اس سانحے پر توجہ دیتا۔

اس دوران یہ اطلاع آئی کہ مرنے والوں کی تعداد 18 تک جاپہنچی، مگر جو لوگ اندر پھنسے ہوئے تھے، ان کی خیر و عافیت کے بارے میں تین روز بعد بھی کوئی خبر نہیں آ سکی۔ عوام کی اکثریت اس خبر سے بے خبر رہی۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی آگ لگنے کے 48 گھنٹوں بعد زخمیوں کی تیمارداری کے لیے جناح اسپتال کراچی پہنچے۔ مگر کسی وزیر اور وزارت محنت کے اہلکاروں کے علاوہ کسی دوسرے متعلقہ محکمہ کے کسی اعلیٰ افسر نے گڈانی پہنچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس قسم کے حادثات و سانحات کا رونما ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ کیونکہ اکیسویں صدی میں بھی ریاستی انتظامی ڈھانچہ ہنوز اٹھارویں صدی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ پے درپے ہونے والے ان واقعات کا سدباب تو دور کی بات، متعلقہ انتظامی ادارے ان کے اسباب کو سمجھنے تک کی اہلیت سے عاری ہیں۔

ایسے میں وہ مخصوص اشرافیہ جو اس ملک کے سپید وسیاہ کی مالک ہے وہ بھی معاملات و مسائل کی نزاکتوں کو سمجھنے کی اہلیت سے عاری ہے، اس سے ایسے حساس معاملات پر قابو پانے کی حکمت عملی تیار کرنے اور پیش بندی کے اقدامات کی توقع کرنا عبث ہے۔ اس کند ذہن اور موقع پرست اشرافیہ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے نو آبادیاتی طرز حکمرانی تو سیکھ لیا، مگر نوآبادیاتی آقائوں جیسی ذہانت اور باریک بینی حاصل نہیں کر سکی۔ یہی سبب ہے کہ نوآبادیاتی دور اپنی تمامتر خباثتوں کے باوجود آج کی نام نہاد آزادی سے بدرجہا بہتر تھا۔ اس لیے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملک بنانا اتنا مشکل کام نہیں ہوتا، جتنا اسے چلانا اور سلیقے سے سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے۔

گڈانی کا یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟ یہ جاننے سے پہلے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایسا سانحہ کسی بھی وقت متوقع تھا۔ کیونکہ جو حالات کار وہاں تھے، جو کچھ ہوا، وہ بعید از قیاس نہیں تھا۔ حالانکہ گڈانی کی شپ بریکنگ کی صنعت یونان کے بعد دنیا کی دوسری بڑی صنعت ہے۔ مگر صوبائی حکومت کی بے اعتنائی اور لاپرواہی کے سبب نہ تو یہاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ قواعد و ضوابط پر عمل کیا جاتا ہے اور نہ ہی محنت کشوں کے لیے ضروری سہولیات مہیا ہیں۔ مزدور ٹھیکیدار کے ذریعے بھرتی کیے جاتے ہیں، جنھیں ملنے والی اجرت کا 50 فیصد حصہ ٹھیکیدار کی جیب میں چلا جاتا ہے۔


چونکہ مزدوروں کو تقرر نامہ جاری نہیں ہوتا، اس لیے انھیں نہ تو سوشل سیکیورٹی تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات میسر آتی ہیں، جو قانوناً محنت کشوں کا حق ہوتی ہیں۔ صوبائی لیبر ڈپارٹمنٹ، EOBI، سوشل سیکیورٹی کے ادارے کے ذمے داروں کو محنت کشوں کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں ہنگامی طبی امداد کا کوئی بندوبست ہے اور نہ ہی ایمبولینس سروس موجود ہے۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں کراچی سے ایمبولنیسیں منگوائی جاتی ہیں، جنھیں وہاں تک پہنچنے میں دو سے ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ پھر زخمیوں کو کراچی لائے جانے میں مزید دو سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں۔

قواعد وضوابط کے تحت شپ بریکنگ سے قبل اس میں موجود تیل پمپوں سے ذریعے نکالا جانا چاہیے۔ باقی بچ جانے والے تیل کو خشک کرنے کے لیے مخصوص کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ انسپکٹر معائنہ کرنے کے بعد جہاز کو توڑنے کا تحریری اجازت نامہ جاری کرتا ہے۔ اس کے بعد توڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مزدوروں کو ربر کے خصوصی جوتے، ہیلمٹ، جیکٹس اور آکسیجن سلینڈر مہیا کیے جاتے ہیں۔ مگر گڈانی میں نہ تو مزدوروں کو یہ سہولیات مہیا ہیں اور نہ ہی جہاز توڑنے سے قبل سرٹیفکٹ جاری ہوتا ہے۔

لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسران کو گھر بیٹھے ماہانہ بھتہ مل جاتا ہے، اس لیے مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا جائزہ لینے کی کسے فکر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ضروری لوازمات جیسے اسنارکل، بڑی کرینیں، بلڈوزر اور آگ بجھانے کے آلات بھی موجود نہیں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ گڈانی تو دور کی بات، بلوچستان حکومت کے پاس کوئی اسنارکل نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے سردمہری کے رویوں نے محنت کشوں کے مسائل ومصائب میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔

ہم 2005ء میں کشمیر اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں آنے والے زلزلے میں حکومتوں کی کسمپرسی دیکھ چکے ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں افراد صرف اس لیے جاں بحق ہوگئے تھے کہ حکومت کے پاس کنکریٹ کے بھاری پلرز کاٹنے کے آلات اور طاقتور کرینیں موجود نہیں تھیں۔ یہ لوگ کئی دنوں تک ملبہ تلے دبے رہنے کے باعث بحق ہوئے۔ اس وقت تک ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی محکمہ نہیں تھا۔ لیکن اس خوفناک زلزلے کے بعد ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا محکمہ قائم کیا گیا۔ مگر 2010ء کے سیلاب میں یہ محکمہ مٹی کا مادھو ثابت ہوا۔ لوگوں کو بچانے اور انھیں محفوظ مقام تک پہنچانے کے لیے ماضی کی طرح ایک بار پھر فوج کی طرف دیکھنا پڑا۔ جس نے لوگوں کو محفوظ مقام تک پہنچایا اور بحالی کے کام میں بھی ہاتھ بٹایا۔

تین برس قبل کراچی کی بلدیہ ٹائون کی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والے آگ نے تین سو کے قریب محنت کشوں کی جان لے لی۔ مگر یہاں بھی مختلف محکموں اور ریاستی اداروں کی بے بسی قابل دید رہی۔ اس آگ پر کوئی ڈیڑھ دن کی جدوجہد کے بعد کہیں جا کر قابو پایا جا سکا۔ اس آگ کے بارے میں سیاسی پوائنٹ اسکورننگ تو ہو رہی ہے، مگر اس کی تکنیکی وجوہات پر توجہ دینے اور ریاستی اداروں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے کر انھیں درست کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ جس روز کراچی کی بلدیہ ٹائون فیکٹری کا سانحہ رونما ہوا، اسی روز لاہور کی ایک فیکٹری میں بھی آگ لگنے کا ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔ جس میں کئی درجن افراد لقمہ اجل ہوئے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سبھی صوبائی حکومتیں قدرتی آفات، اچانک رونماہونے والے حادثات اور سانحات سے نمٹنے کی اہلیت اور استعداد سے محروم ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی حکومتی نظام کے اختیارات میں اضافہ کر کے اس کی فعالیت بڑھائی جائے تا کہ ایسی کسی حادثاتی صورتحال میں فوری امدادی کارروائیوں کا آغاز ہو سکے۔ ساتھ ہی مختلف اداروں کی اہلیت اور استعداد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کرپشن، بدعنوانی اور لاپرواہی کے خاتمے کے لیے فعال مکینزم بنایا جائے، تاکہ نقصانات کم سے کم ہو سکیں۔ بصورت دیگر اس قسم کے سانحات کبھی درجنوں، کبھی سیکڑوں افراد کی زندگیاں نگلتے رہیں گے۔
Load Next Story