ہلیری کلنٹن بمقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ

حالیہ امریکی صدارتی انتخاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس انتخاب کا براہ راست اثر عالمی، علاقائی سیاست سے جڑا ہوا ہے

salmanabidpk@gmail.com

حالیہ امریکی صدارتی انتخاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس انتخاب کا براہ راست اثر عالمی، علاقائی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی امریکا کے صدارتی انتخاب میں دلچسپی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور اس پر عالمی میڈیا' بڑے پالیسی ساز اداروں اور سوچ و فکر سے تعلق رکھنے والوں کی گہری نظر ہوتی ہے۔ اس انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن جو سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ بھی ہیں حصہ لے رہی ہیں، جب کہ ان کے مدمقابل ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں ہیں۔ اگرچہ ان دونوں امیدواروں کے مقابلے میں دونوں جماعتوں کے نائب صدر کے امیدوار صدارتی امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ افراد ہیں ان میں ورجینا کے گورنر اور سینیٹر ٹم کین، جب کہ ری پبلکن جو انڈیانا کے موجودہ گورنر ہیں۔ ہلیری کے مقابلے میں برنی سینڈرز بھی اچھی چوائس ہو سکتے تھے ۔

ابتدائی سروے کے نتائج میں ہلیری کلنٹن کو اپنے مدمقابل ڈونلڈ ٹرمپ پر کئی حوالوں سے سیاسی برتری حاصل تھی۔ خیال یہ ہی کیا جا رہا تھا کہ اس صدارتی انتخاب میں ہلیری کو کامیابی کے لیے کسی بڑی سیاسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن جیسے جیسے انتخابی عمل قریب آتا گیا منظر نامہ بھی تیزی سے بدلا ہے۔ اب انتخابات سے چند دن قبل جو اہم سروے نتائج سامنے آئے ہیں اس میں صورتحال ایک سخت اور کانٹے دار مقابلہ کی بن گئی ہے جو غیر متوقع نتائج بھی دے سکتا ہے۔

ہلیری کلنٹن کی مقبولیت میں کمی کی وجہ وہ خفیہ ای میلز ہیں جو انھوں نے سیکریٹری آف اسٹیٹ (وزیر خارجہ) کے طور پر سرکاری ای میلز کو ذاتی ای میل کے طور پر استعمال کیا۔ ہلیری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی سمیت امریکی صدر اوباما اس کو ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ اوباما کے بقول ایف بی آئی نے ای میل تحقیقات پر کانگریس کو خط لکھ کر ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے سمیت نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ یقینا اس ای میل سکینڈل نے ہلیری کلنٹن کی مہم کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ہلیری ٹرمپ کے مقابلے میں بہتر امیدوار ہیں، لیکن ان پر کافی تنقید ہے۔ امریکی عوام میں ٹرمپ نادان دوست سمجھے جاتے ہیں۔

چند برس قبل معروف عالمی شہرت یافتہ دانشور نوم چومسکی نے ڈیموکریٹک پارٹی اور بارک اوباما کی پالیسیوں کے تناظر میں یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ جو بھی انتخاب ہو گا اس میں ٹرمپ جیسے غیر روائتی فریق سے مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا، دراصل جو پالیسی آٹھ برسوں میں حکومت نے اختیار کی اس کا امریکی عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ امریکا میں موجود لوئر مڈل کلاس، ورکنگ کلاس اوباما پالیسی کے سخت ناقد ہیں۔ کیونکہ اس دور میں ان کا روزگار عملی طور پر چھین لیا گیا ہے۔ ملازمتیں امریکا سے باہر چلی گئی ہیں۔ امریکی عوام میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کا جنگی جنون کا ایجنڈا اور جنگوں کی سیاست کسی بھی طور پر ان کے مفادات کو تحفظ نہیں دیتی۔ یہ رائے موجود ہے کہ اگر ہلیری کلنٹن جیت جاتی ہیں تو دنیا بھر میں امریکی جنگی جنون جاری رہے گی۔ ہلیری کلنٹن پر الزام ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں جو مسلمان قتل ہوئے ہیں یا ان کو زیادتیوں کا سامنا ہے، اس کے پیچھے بھی ہلیری کلنٹن پیش پیش ہیں ۔

اگرچہ ٹرمپ بھی کوئی ایسا امیدوار نہیں جو امریکی عوام میں بہت مقبول ہے۔ لیکن اس نے ہلیری کلنٹن اور ڈیموکریٹ پارٹی کی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی مہم چلائی ہے۔ ابتدا میں وہ مسلم دشمنی کے ایجنڈے کے ساتھ سامنے آئے تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں ان کے سخت گیر موقف نے ابتدا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کافی نقصان پہنچایا، لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ مسلم پناہ گزینوں پر تنقید کے معاملے میں کافی محتاط ہیں۔ اس وقت سفید فام لوگ ڈونلڈ کی اصل طاقت بنے ہوئے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ ڈونلڈ کامیاب ہو کر غیر سفید فام لوگوں کے مقابلے میں سفید فاموں کو زیادہ فائدہ دیں گے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے جب کہ اس کے برعکس ہلیری کلنٹن اور ڈیمو کریٹس کا ایجنڈا چھپا ہوا ہے۔


وہ کہتے کچھ ہیں او رکرتے کچھ ہیں۔ہلیری کلنٹن کی ایک مشکل سیاہ فام لوگ بھی ہیں۔ اگرچہ سیاہ فام بظاہر ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ ہیں، لیکن ان میں کافی غصہ بھی ہے۔ ان کے بقول پچھلے آٹھ برس میں سیاہ فام امریکی صدر اوباما نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا، اب ہلیری کیا کر لیں گی۔ اسی طرح سیاہ فام لوگوں کے ساتھ پچھلے کچھ عرصہ میںجو زیادتیاں ہوئی ہیں، اس پر بھی ان کو کافی غصہ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی انتخابی مہم میں دلچسپی بہت کم ہے اور اگر ان کے ووٹ بڑ ی تعداد میں ہلیری کو نہیں ملتے تو اس کا نقصان ہو گا۔ کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں سیاہ فام ووٹرز انتخابی نتائج پر واضح طور پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح بھارت کی مضبوط لابی بھی ہلیری کے مخالف نظر آتی ہیں۔ ان کے بقول ہلیری بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی طرف زیادہ جھکاو رکھتی ہیں۔ اگر دو امریکی سینٹرز Elizbath Warien اور Bernie Sanders کی ہلیری کلنٹن کو حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کا گراف اور زیادہ نیچے جا سکتا تھا۔

اس حالیہ انتخاب میں امریکی عوام کی دلچسپی بہت زیادہ نہیں، لوگ ان انتخابات میں ٹرن آوٹ کو کم دیکھ رہے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ساری مہم الزام تراشیوں اور سیکنڈلز کی بنیاد پر چلائی گئی ہیں۔ اصل مسائل کو اجاگر ہی نہیں کیا گیا۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ انتخاب کم اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاسی دنگل زیادہ ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ جو سیاست ہو رہی ہے اس سے جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ دولت کی بنیاد پر جاری یہ مہم بنیادی طور پر کارپوریٹ جمہوریت کا ماڈل ہے اور اس ماڈل پر امریکا سمیت دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے ۔

اگرچہ صدر اوباما، صدارتی امیدوار ٹرمپ کو امریکا سمیت دنیا کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کے بقول ٹرمپ جیتے گا تو ان کے خیالات دنیا کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ خود ڈیموکریٹ پارٹی کو بھی جنگی جنون سے جوڑا جاتا ہے۔ اگر ٹرمپ نے امریکی معاشرہ میں اپنی مہم سے ایک نئی تقسیم پیدا کر دی ہے، لیکن ڈیموکریٹ نے بھی اپنی پالیسیوں سے دنیا بھر میں سیکیورٹی ریاستوں کو پھیلا کر انسانی ترقی کے ایجنڈے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ان اٹھ برسوں میں اوباما کی داخلی اور خارجی پالیسیوںپر سخت تنقید موجود ہے۔

پاکستان، افغانستان اور طالبان کے تناظر میں بھی ان کی پالیسی ناکام ہوئی۔ یہ تاثر کہ ہلیری پاکستان دوست ہیں، لیکن اس کا اثر ہمیں اوباما اور ہلیری کی عملی پالیسی میں کم نظر آیا اور وہ بھارت کے ساتھ زیادہ کھڑے نظر آتے ہیں۔دونوں صدارتی امیدواروں میں واقعی مقابلہ سخت ہے۔ جو بڑی ریاستیں ان انتخابی نتائج پر فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں ان میں ایریزونا، فلوریڈا، نیواڈا، اوہائیو، نیو میکسیکواور پنیسلوینیا شامل ہیں۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ ہلیری کلنٹن کچھ مارجن سے جیت سکتی ہیں، لیکن جس تیزی سے ٹرمپ نے ان پر برتری حاصل کی ہے وہ حیران کن نتائج بھی دے سکتے ہیں۔بہرحال ہلیری جیتے یا ٹرمپ پاکستان سمیت اسلامی دنیا کو کسی بھی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

کیونکہ امریکی اسٹیبلیشمنٹ دنیا میں جنگ کی سیاست کو طاقت دے کر آگے بڑھنا چاہتی ہے او راسلامی ممالک ان کا خاص ہدف ہیں۔ اس لیے اسلامی ممالک امریکا کے انتخاب میں میںکسی فرد پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی داخلی سیاست کے تضادات کو کم کریں اور جتنی جلدی وہ اس سے باہر نکل سکیں وہ ان کے حق میں ہوگا، وگرنہ امریکی دباؤ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی حکمت عملی مسلم دنیا کو انتشار کے سوا کچھ نہیں دے سکے گی۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }