اپنا اپنا سچ
پانامہ لیکس کا ہنگامہ ایک موڑ پر آگیا ہے
پانامہ لیکس کا ہنگامہ ایک موڑ پر آگیا ہے۔ اپریل کی گرمی سے شروع ہونے والا طوفان اکتوبر، نومبر کے آتے آتے اسلام آباد کی فضا کو گرما گیا تھا۔ دونوں پارٹیوں کا آر یا پار کھیلنے کا فیصلہ بڑا خطرناک تھا۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر سیاسی درجہ حرارت کو دارالخلافے کے موسم کی طرح سرد کردیا۔ پانامہ پیپرز میں نواز شریف اور ان کی بچوں کے تصاویر نے عمران کو نیا موضوع دے دیا۔ اس معاملے پر وہ تینوں بچے آج سپریم کورٹ میں اپنی آمدنی اور جائیدادوں کے بارے میں جواب دیں گے۔
موجودہ حکومت کی اقتدار کی سڑک پر اطمینان بخش سواری جاری تھی کہ پانامہ نے اس کے لیے اچانک مسائل پیدا کردیے۔ عدالت عظمیٰ کی مداخلت کو تمام فریقین اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ کیوں؟ عمران خان اور نواز شریف سمیت تمام سیاستدان کیوں اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں؟ اس لیے کہ سب کا اپنا اپنا سچ ہے۔ ہر کوئی اس معاملے کو اپنی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ نہ صرف 20 بڑے یا 2000 چھوٹے لیڈر بلکہ پاکستان کے 200 ملین عوام کا بھی اپنا اپنا سچ ہے۔ آج ہم پاکستانی سیاستدانوں کے ''سچ'' کا جائزہ لیں گے اور عوام کی ضدی طبیعت پر بھی بات کریں گے۔ پہلے دیکھیں کہ سچ ہوتا کیا ہے؟
امیتابھ بچن نے ایک فلم میں کہا تھا کہ ''مانو تو بھگوان' ورنہ پتھر''۔ اپنے اپنے سچ کی اس سے عمدہ تعریف شاید ہی ہوسکے۔ ہم اپنے بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کو پیر یا ولی نہیں مانتے اور نہ ہی ان سے کرامات کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم کسی کو پیغمبر بھی نہیں مانتے کہ چودہ سو سال قبل یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے، یوں اب ہم معجزوں کی بھی توقع نہیں رکھتے۔ ہم کسی کو خدا بھی نہیں مانتے کہ وہی ایک ''وحدہ ولاشریک لہ'' ہے۔
لیڈروں سے ہم محبت نہیں کرتے ہیں۔ یہ طے ہے واقعی طے ہے کہ ہم نہ ان سیاسی رہنماؤں سے عشق کرتے ہیں اور نہ عقیدت رکھتے ہیں۔ پھر ملک بھر میں ہر طرف ان سیاسی لیڈروں کی کشمکش کو لے کر آپس میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑا کیوں؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی سیاستدان ہو سب کا اپنا اپنا سچ ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کے سچ کا تنقیدی جائزہ لیں۔ یہ لوگ نہ کوئی پیر یا ولی ہیں اور نہ ہی پیغمبر یا خدا۔ پھر ہم کیوں آنکھیں بند کرکے ان کے سچ کو اپنا سچ قرار دیتے ہیں؟ کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ ہم انھیں ووٹ دیتے ہیں؟
حکمران خاندان کے بچے سپریم کورٹ میں اپنی جائیدادوں کی تفصیل بتائیں گے، یہ ان کا اپنا سچ ہوگا۔ عدالت ان کا جائزہ لے کر طے کرے گی کہ یہ کمائی جائز تھی، اس پر ٹیکس دیا گیا، یہ قانونی ذرایع سے غیر ممالک میں منتقل ہوئی۔ عدالتی کسوٹی پر پرکھا جانے والا فیصلہ عدالتی سچ ہوگا۔ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی کسوٹی پر پرکھے جانے کو جیالے سچ نہیں مانتے کہ ضیا دور کی عدالت کا سچ اور جیالوں کا سچ الگ الگ ہے۔ گویا عدالتی سچ کچھ اور ہوتا ہے تو عوامی سچ کچھ اور ہوتا ہے اور تاریخی سچ کچھ اور ہوتا ہے۔
جب سب کے اپنے اپنے سچ ہوتے ہیں تو پھر ہم کس کی بات کو سچ مانیں۔ ہم سیاسی میدان کے اندھے مقلد کسی ایک سیاسی لیڈر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں اور اس کے بیان کیے ہوئے سچ کو ہی سچ مان رہے ہیں۔ جب سوچ بچار کا دروازہ بند ہے اور سیاسی بھگوانوں کے آستانوں پر جبینِ نیاز کو جھکانا ہی ہماری عادت ٹھہری تو کوئی کیا کرے؟ جب کالم نگاروں کا بھی اپنا اپنا سچ ہے تو اسے بھگوان نہ ماننے والا اور اس کے کالم کی چوکھٹ پر سجدہ ریز نہ ہونے والا قاری کیوں کر اس قلمکار کی بات مانے۔ جب دلیل دماغ کی کھڑکی سے رخصت ہوجائے اور جب تعصب اس میں ڈیرہ جما لے تو کوئی کیا بات کرے؟ سوائے اس کے کہ سب کے اپنے اپنے سچ کو بیان کرکے اس کی وجہ بیان کردے۔
عمران کا سچ ہے کہ انھوں نے نواز شریف کے احتساب کی بات کی۔ اپوزیشن ساتھ نہ چلی تو تحریک انصاف نے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ جب مطالبہ تلاشی یا استعفیٰ اور سپریم کورٹ کھوج لگانے کو تیار ہے تو وہ کیوں نہ جشن منائیں۔ طاہر القادری انا للہ پڑھنے کو سچ سمجھتے ہیں تو جاوید ہاشمی یوم تضحیک منانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بلاول کا سچ اپنے چاروں مطالبات کو منوانا ہے۔ نواز شریف کے حامی عمران کو یوم تفکر منانے کا مشورہ دینے لگے تو پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے۔ اسفند یار ولی کہتے ہیں کہ کپتان نو بال پر آؤٹ ہوگئے۔ ایم کیو ایم اور چوہدری نثار ہمیں عمران کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
میڈیا نے عوام کو اتنا باشعور کردیا ہے کہ وہ لیڈروں کے بیان کے پیچھے چھپے ارادے کو بھانپ لیتے ہیں۔ سر آئینہ کیا ہوتا ہے اور پس آئینہ کیا ہوتا ہے؟ وہ سب سمجھنے لگے ہیں۔ یہ عوام ہیں جسے پرنٹ میڈیا قاری کہتا ہے تو ریڈیو اسے سامع تو ٹی وی اسکرین اسے اپنا ناظر کہتی ہے۔
یہ عوام جو ڈاکٹر کے پاس جائیں تو مریض، وکیل کے پاس جائیں تو موکل، دکاندار کے پاس جائیں تو گاہک، سفر کر رہے ہوں تو مسافر اور گھر میں جائیں تو باپ، بیٹا، بھائی، شوہر بن جاتے ہیں۔ یہ ہر لمحے رنگ بدلتے عوام سمجھتے سب کچھ ہیں لیکن اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیت کے حوالے سے بے حس بن گئے ہیں۔ میڈیا کے ہر لمحے کی خبروں اور ہر موقع کے بحث و مباحثے نے عوام کے خیالات کو پختہ کردیا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نئی صدی میں میڈیا کی بھرمار نے عوام کو ضدی بنادیا ہے۔ یوں ہر پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کے حامی کا بھی اپنا اپنا سچ ہے۔ وہ لیڈروں کے بیان کی نفسیاتی وجہ سمجھ رہا ہے لیکن جان بوجھ کر بے خبر بنتا ہے۔ اسی لیے کالم نگار پانامہ لیکس جیسے واقعے پر مختلف سیاسی لیڈروں کے بیانات کے جائزے کا فرض نبھا رہا ہے۔
بیسویں سالگرہ منانے والی تحریک انصاف کے قائد عمر کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ مایوس نہ ہونے والے عمران کو 2011 کے مینار پاکستان کے جلسے نے امید کی کرن دکھائی۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے باہمی تعاون نے عمران کے لیے مشکلات پیدا کیں تو آسانیاں بھی۔ یوں ایک ساتھ دونوں پر تنقید نے پنجاب کے میدانوں سے پیپلز پارٹی کو لاتعلق کردیا ہے۔ سب سے بڑے صوبے میں حکمرانوں سے مقابلہ کرتے عمران کو پانامہ لیکس نے نئی سیاسی زندگی عطا کی۔ وہ آنے والے الیکشن تک رائے ونڈ کو بیک فٹ پر لاکر بنی گالا کو سپریم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے عمران کی نفسیاتی کیفیت۔ اتنی ہی عمر اور ایسی صلاحیت کے حامل طاہر القادری صدی کی پہلی اسمبلی میں عمران کے ہم جولی تھے۔
دونوں کی پارٹیاں اکلوتی نشست کی دعویدار تھیں۔ قادری صاحب سیاست چھوڑ کر کینیڈا چلے گئے جب کہ عمران کمینٹری کا شکار، بچوں سے ملاقات، شوکت خانم کی نگرانی کے علاوہ سیاست بھی کرتے رہے۔ پاکستان عوامی تحریک سوچتی ہے کہ انھوں نے بس مس کردی۔ بڑھتی عمر اور کمزور صحت کے ساتھ طاہر القادری کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اب مقبولیت حاصل کرسکیں۔ یہ کنفیوژن ہی طاہر القادری کے ریمارکس کا سبب ہے۔ پیپلز پارٹی جو بھٹو دور میں ابھری ہی پنجاب سے تھی وہ اب صرف تماشائی بن گئی ہے۔
بے نظیر کے دور میں سو سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی اب گنتی کی سیٹوں پر براجمان ہے جب کہ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب بھی تحریک انصاف کے پاس ہے۔ یہ ہے نفسیاتی کیفیت پیپلز پارٹی کی کہ ہر معاملے میں نواز اور عمران کے ٹکراؤ نے انھیں بے اثر کردیا ہے۔ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی پالیسی انھیں پنجاب سے لے ڈوبی ہے۔ فضل الرحمن اور اسفند یار اب تک ہر لیڈر کی تنقید سے بالاتر ہوکر سیاست کرتے تھے۔ یہی صورتحال محمود خان اچکزئی کی تھی۔ عمران کے ان کو للکارنے اور کرپشن کے تابڑ توڑ الزامات نے انھیں نواز شریف کے ساتھ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ ہیسیاستدانوں کے بیانات کی نفسیاتی وجہ کہ سب کا ہے اپنا اپنا سچ۔