مہنگائی
جس طرح ریاض میں مہارت کے دعوے کے باوجود طول شب فراق ناپنا ممکن نہیں
جس طرح ریاض میں مہارت کے دعوے کے باوجود طول شب فراق ناپنا ممکن نہیں، اسی طرح ہمارے ملک میں مہنگائی کے طول اور عرض کی پیمائش بھی مشکل ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مہنگائی اور روشنی کی رفتار میں اب کوئی فرق نہیں رہا ہے۔ وہ تمام کلیے، اصول اور پیمانے جو کبھی مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتے تھے، جواب دے گئے ہیں۔
سستا زمانہ، سستی چیزیں، خواب ہوگئی ہیں۔ اگلے وقتوں کے دو چار لوگ جب کہیں مل بیٹھتے ہیں تو ان کا سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین موضوع ''گزرا زمانہ '' ہوتا ہے، جب مٹھی بھر پیسوں میں ڈھیروں چیزیں آجاتی تھیں اور اب عالم یہ ہے کہ ڈھیر سارے روپوں میں مٹھی بھر چیز بھی نہیں آتی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لوگ مہنگائی کا شکوہ ہر دور اور ہر زمانے میں کرتے آئے ہیں، مثلاً ایک عجیب طرح کی بے حسی اور لاتعلقی پورے معاشرے پر چھائی ہوئی ہے۔ نواز شریف جب تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ایک کالم نگار نے لکھا کہ مہنگائی کے مارے ہوئے لوگوں کی چیخیں مریخ تک سنائی دیں گی۔ لیکن آج حال یہ ہے کہ لوگوں میں سسکیاں بھرنے تک کی سکت باقی نہیں رہی، چیخیں مارنے کی طاقت کہاں سے لائیں گے۔ کوئی اف بھی نہیں کرتا کہ کیا ہو رہا ہے۔
ہم اکثر اخباروں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں ''گندم گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہے، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، چوہے گندم کھا رہے ہیں، چمن کے راستے گندم، آٹا اور دیگر اناج سرحد پار اسمگل ہو رہا ہے، چمن بارڈر پر تین تین چار چار کلومیٹر تک ٹرکوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔'' اسی بے حسی اور لاتعلقی کے آئینہ دار ہیں جو حکومتی سطح پر عوام کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہے۔ معاشی اصول اور ضابطے چاہے کچھ کہتے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا براہ راست تعلق دیگر عوامل کے علاوہ بہتر طرز حکمرانی سے بھی ہوتا ہے۔
ہمارے والدین بتاتے ہیں جب پاکستان بنا تھا قانون کے یکساں نفاذ اور عملدرآمد پر سختی سے زور دیا جاتا تھا۔ قانون سے روگردانی اور رشوت خوری کا تصور نہیں تھا نہ کوئی اس کی مجال کرسکتا تھا۔ آج آپ کسی بھی بازار میں چلے جائیے، ایک ہی چیز مختلف دکاندار مختلف قیمتوں پر فروخت کرتے ملیں گے، دودھ ہی کی مثال لے لیجیے، اگرچہ اس کے سرکاری نرخ مقرر ہیں مگر یہ کہیں بھی مقررہ قیمت پر دستیاب نہیں ہے، یہی حال گوشت اور پولٹری مصنوعات کا ہے۔ دکاندار من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں اس قسم کی شکایات عام ہیں لیکن کہیں بھی حکومتی رٹ نظر نہیں آئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر طلب زیادہ اور رسد کم ہو تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں مگر یہاں معاملہ طلب و رسد کا نہیں، قانون کے موثر نفاذ کا ہے۔
یہ درست ہے کہ قیمتوں کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں، مگر ہماری مارکیٹوں پر سٹے بازوں کا قبضہ ہے جو سٹے کے ذریعے قیمتوں میں مصنوعی اتار چڑھاؤ کرتی ہیں۔ شدید گرمی میں عام طور پر انڈوں کی طلب کم ہوجاتی ہے اور موسم سرما میں بڑھ جاتی ہے۔ مئی جون کے جھلساتے ہوئے دنوں میں انڈوں کی قیمت اگر فی درجن بیس روپے بڑھ جائے تو اس کا سبب طلب میں اضافہ سمجھا جائے یا رسد میں کمی، جب کہ مارکیٹ میں طلب سے زیادہ انڈے موجود ہیں۔ ظاہر ہے قیمتوں میں اضافہ سٹے بازی کا نتیجہ ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو روکنے کے لیے نہ تو موثر قوانین موجود ہیں، نہ ان پر عملدرآمد کرانے والے انتظامی حکام۔
ہر سال بجٹ کے موقع پر مہنگائی کا طوفان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس وقت بھی انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بجٹ کے اعلان سے قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے اور قیمتوں میں من مانا اضافہ بھی۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد قیمتیں آسمان پر جا پہنچتی ہیں۔ خود حکومت بھی گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ منافع خوری میں شامل ہوجاتی ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے مگر اقتصادی حالت میں بہتری کے ثمرات عوام تک منتقل کیوں نہیں کیے جا رہے۔ اور مہنگائی آسمان کو کیوں چھو رہی ہے۔
اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ دراصل بہتر طرز حکمرانی کا فقدان اس کی اصل جڑ ہے۔ گزشتہ حکمرانوں کا ایجنڈا اگر مال بناؤ تھا تو موجودہ حکمراں بھی رج کے کھاؤ والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ورنہ ان گراں فروشوں کو نکیل ڈالنا کوئی مشکل کام نہیں۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ 65 کی جنگ کے بعد چینی کی قیمت میں معمولی سا اضافہ ہوا تھا تو جنرل ایوب خان کی حکومت ہل گئی تھی اور دس سالہ جشن ترقی بھی حکومت کو نہیں بچا سکا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج اگر حکومتی سطح پر مہنگائی کی روک تھام کا فیصلہ کرلیا جائے تو چند روز میں مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے اور اس شیر کے منہ سے نوالہ کون چھینے جو کریانے کی دکان میں گھسا بیٹھا ہے اور آٹے، دال پر منہ مار رہا ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران، امن و امان کی خراب صورتحال، روپے کی قدر میں کمی، بھتہ خوری ، بدعنوانی، حکومتی اخراجات میں اضافہ، ٹیکسوں کی وصولیابی میں ناکامی، قرضہ دینے والے بین الاقوامی اداروں کی شرائط، گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری، تعلیم کا فقدان، زرعی پیداوار میں کمی، آبی وسائل کی قلت وغیرہ بھی مہنگائی کے بنیادی اسباب ہیں۔ خصوصاً آبی وسائل کی قلت ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلب اور رسد میں عدم تعاون، مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ اگر اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہوجائیں تو مہنگائی عفریت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
ہمارے سماجی رویے بھی مہنگائی کا سبب بنتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے لوگوں میں خرچ کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ فضول خرچی بڑی حد تک قومی مزاج بنتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر خوراک ضایع کرنے کے معاملے میں شاید ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ تقریبات میں اتنا کھایا نہیں جاتا جتنا بے دردی سے برباد کردیا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایک طرف ریستورانوں میں کھانے والوں کا ایسا ہجوم ہے کہ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی تو دوسری طرف تھر میں معصوم بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ ہمارے بازاروں میں رشوت، لوٹ مار اور بدعنوانیوں سے حاصل کی گئی رقم اپنا جلوہ دکھا رہی ہے تو غریب مزدور اور تنخواہ دار طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔
ایک غیر مرئی دائرہ ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ قصائی بن گیا ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں چھری ہے، کاٹ رہا ہے اور کٹ رہا ہے۔ مظلوم وہ ہے جو اپنی جائز تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اور اسے اپنا بدلہ چکانے کا موقع نہیں ملتا۔ رشوت لینے والا، رشوت کا ریٹ بڑھا دیتا ہے۔
دودھ والا دودھ مہنگا کردیتا ہے، قصائی گوشت کے دام بڑھا دیتا ہے، دودھ والا اپنی زائد آمدنی قصائی کے حوالے اور قصائی اپنی آمدنی سبزی والے کے حوالے کردیتا ہے یوں حساب برابر ہوجاتا ہے، مگر ناجائز منافع خوری کے اس تبادلے کے نتیجے میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے اس کا حقیقی بوجھ بے چارے تنخواہ دار طبقے پر آتا ہے، جو اپنا بوجھ کسی دوسرے پر منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس غیر مرئی دائرے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر شخص دراصل اپنے آپ ہی کو لوٹ رہا ہے۔ جن جیبوں پر ہمارے ہاتھ ہیں وہ ہماری اپنی ہی جیبیں ہیں۔ مہنگائی کا یہ دائرہ جسے معاشرے کے مختلف طبقات نے پیدا کیا ہے اسی طرح پھیلتا رہے گا۔ مہنگائی ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں منتقل ہوتی رہے گی اور آخرکار جس طبقے پر اس کا اختتام ہوگا، وہ ایسے افعال کی انجام دہی پر مجبور ہوگا جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے پسندیدہ نہیں سمجھے جاسکتے۔ا
سستا زمانہ، سستی چیزیں، خواب ہوگئی ہیں۔ اگلے وقتوں کے دو چار لوگ جب کہیں مل بیٹھتے ہیں تو ان کا سب سے پسندیدہ اور محبوب ترین موضوع ''گزرا زمانہ '' ہوتا ہے، جب مٹھی بھر پیسوں میں ڈھیروں چیزیں آجاتی تھیں اور اب عالم یہ ہے کہ ڈھیر سارے روپوں میں مٹھی بھر چیز بھی نہیں آتی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لوگ مہنگائی کا شکوہ ہر دور اور ہر زمانے میں کرتے آئے ہیں، مثلاً ایک عجیب طرح کی بے حسی اور لاتعلقی پورے معاشرے پر چھائی ہوئی ہے۔ نواز شریف جب تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ایک کالم نگار نے لکھا کہ مہنگائی کے مارے ہوئے لوگوں کی چیخیں مریخ تک سنائی دیں گی۔ لیکن آج حال یہ ہے کہ لوگوں میں سسکیاں بھرنے تک کی سکت باقی نہیں رہی، چیخیں مارنے کی طاقت کہاں سے لائیں گے۔ کوئی اف بھی نہیں کرتا کہ کیا ہو رہا ہے۔
ہم اکثر اخباروں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں ''گندم گوداموں میں پڑی سڑ رہی ہے، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، چوہے گندم کھا رہے ہیں، چمن کے راستے گندم، آٹا اور دیگر اناج سرحد پار اسمگل ہو رہا ہے، چمن بارڈر پر تین تین چار چار کلومیٹر تک ٹرکوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔'' اسی بے حسی اور لاتعلقی کے آئینہ دار ہیں جو حکومتی سطح پر عوام کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہے۔ معاشی اصول اور ضابطے چاہے کچھ کہتے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا براہ راست تعلق دیگر عوامل کے علاوہ بہتر طرز حکمرانی سے بھی ہوتا ہے۔
ہمارے والدین بتاتے ہیں جب پاکستان بنا تھا قانون کے یکساں نفاذ اور عملدرآمد پر سختی سے زور دیا جاتا تھا۔ قانون سے روگردانی اور رشوت خوری کا تصور نہیں تھا نہ کوئی اس کی مجال کرسکتا تھا۔ آج آپ کسی بھی بازار میں چلے جائیے، ایک ہی چیز مختلف دکاندار مختلف قیمتوں پر فروخت کرتے ملیں گے، دودھ ہی کی مثال لے لیجیے، اگرچہ اس کے سرکاری نرخ مقرر ہیں مگر یہ کہیں بھی مقررہ قیمت پر دستیاب نہیں ہے، یہی حال گوشت اور پولٹری مصنوعات کا ہے۔ دکاندار من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں اس قسم کی شکایات عام ہیں لیکن کہیں بھی حکومتی رٹ نظر نہیں آئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر طلب زیادہ اور رسد کم ہو تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں مگر یہاں معاملہ طلب و رسد کا نہیں، قانون کے موثر نفاذ کا ہے۔
یہ درست ہے کہ قیمتوں کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں، مگر ہماری مارکیٹوں پر سٹے بازوں کا قبضہ ہے جو سٹے کے ذریعے قیمتوں میں مصنوعی اتار چڑھاؤ کرتی ہیں۔ شدید گرمی میں عام طور پر انڈوں کی طلب کم ہوجاتی ہے اور موسم سرما میں بڑھ جاتی ہے۔ مئی جون کے جھلساتے ہوئے دنوں میں انڈوں کی قیمت اگر فی درجن بیس روپے بڑھ جائے تو اس کا سبب طلب میں اضافہ سمجھا جائے یا رسد میں کمی، جب کہ مارکیٹ میں طلب سے زیادہ انڈے موجود ہیں۔ ظاہر ہے قیمتوں میں اضافہ سٹے بازی کا نتیجہ ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو روکنے کے لیے نہ تو موثر قوانین موجود ہیں، نہ ان پر عملدرآمد کرانے والے انتظامی حکام۔
ہر سال بجٹ کے موقع پر مہنگائی کا طوفان ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس وقت بھی انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بجٹ کے اعلان سے قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے اور قیمتوں میں من مانا اضافہ بھی۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد قیمتیں آسمان پر جا پہنچتی ہیں۔ خود حکومت بھی گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ منافع خوری میں شامل ہوجاتی ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے مگر اقتصادی حالت میں بہتری کے ثمرات عوام تک منتقل کیوں نہیں کیے جا رہے۔ اور مہنگائی آسمان کو کیوں چھو رہی ہے۔
اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ دراصل بہتر طرز حکمرانی کا فقدان اس کی اصل جڑ ہے۔ گزشتہ حکمرانوں کا ایجنڈا اگر مال بناؤ تھا تو موجودہ حکمراں بھی رج کے کھاؤ والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ورنہ ان گراں فروشوں کو نکیل ڈالنا کوئی مشکل کام نہیں۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ 65 کی جنگ کے بعد چینی کی قیمت میں معمولی سا اضافہ ہوا تھا تو جنرل ایوب خان کی حکومت ہل گئی تھی اور دس سالہ جشن ترقی بھی حکومت کو نہیں بچا سکا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج اگر حکومتی سطح پر مہنگائی کی روک تھام کا فیصلہ کرلیا جائے تو چند روز میں مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے اور اس شیر کے منہ سے نوالہ کون چھینے جو کریانے کی دکان میں گھسا بیٹھا ہے اور آٹے، دال پر منہ مار رہا ہے۔ ملک میں توانائی کا بحران، امن و امان کی خراب صورتحال، روپے کی قدر میں کمی، بھتہ خوری ، بدعنوانی، حکومتی اخراجات میں اضافہ، ٹیکسوں کی وصولیابی میں ناکامی، قرضہ دینے والے بین الاقوامی اداروں کی شرائط، گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری، تعلیم کا فقدان، زرعی پیداوار میں کمی، آبی وسائل کی قلت وغیرہ بھی مہنگائی کے بنیادی اسباب ہیں۔ خصوصاً آبی وسائل کی قلت ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلب اور رسد میں عدم تعاون، مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ اگر اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہوجائیں تو مہنگائی عفریت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
ہمارے سماجی رویے بھی مہنگائی کا سبب بنتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے لوگوں میں خرچ کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ فضول خرچی بڑی حد تک قومی مزاج بنتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر خوراک ضایع کرنے کے معاملے میں شاید ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ تقریبات میں اتنا کھایا نہیں جاتا جتنا بے دردی سے برباد کردیا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ایک طرف ریستورانوں میں کھانے والوں کا ایسا ہجوم ہے کہ بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی تو دوسری طرف تھر میں معصوم بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔ ہمارے بازاروں میں رشوت، لوٹ مار اور بدعنوانیوں سے حاصل کی گئی رقم اپنا جلوہ دکھا رہی ہے تو غریب مزدور اور تنخواہ دار طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔
ایک غیر مرئی دائرہ ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ قصائی بن گیا ہے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں چھری ہے، کاٹ رہا ہے اور کٹ رہا ہے۔ مظلوم وہ ہے جو اپنی جائز تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اور اسے اپنا بدلہ چکانے کا موقع نہیں ملتا۔ رشوت لینے والا، رشوت کا ریٹ بڑھا دیتا ہے۔
دودھ والا دودھ مہنگا کردیتا ہے، قصائی گوشت کے دام بڑھا دیتا ہے، دودھ والا اپنی زائد آمدنی قصائی کے حوالے اور قصائی اپنی آمدنی سبزی والے کے حوالے کردیتا ہے یوں حساب برابر ہوجاتا ہے، مگر ناجائز منافع خوری کے اس تبادلے کے نتیجے میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے اس کا حقیقی بوجھ بے چارے تنخواہ دار طبقے پر آتا ہے، جو اپنا بوجھ کسی دوسرے پر منتقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس غیر مرئی دائرے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر شخص دراصل اپنے آپ ہی کو لوٹ رہا ہے۔ جن جیبوں پر ہمارے ہاتھ ہیں وہ ہماری اپنی ہی جیبیں ہیں۔ مہنگائی کا یہ دائرہ جسے معاشرے کے مختلف طبقات نے پیدا کیا ہے اسی طرح پھیلتا رہے گا۔ مہنگائی ایک طبقے سے دوسرے طبقے میں منتقل ہوتی رہے گی اور آخرکار جس طبقے پر اس کا اختتام ہوگا، وہ ایسے افعال کی انجام دہی پر مجبور ہوگا جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے پسندیدہ نہیں سمجھے جاسکتے۔ا