امریکی انتخابات 2016ء الیکشن ڈائری تیسرا حصہ

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کےگورباچوف ثابت ہوسکتے ہیں اوریہاں ہجرت کرنیوالےخصوصاً مسلمانوں کوشاید دوبارہ ہجرت کا سامنا کرنا پڑے


سید عارف November 07, 2016
2016ء کا الیکشن شاید امریکی تاریخ کا پہلا الیکشن ہو جس میں انتخابی مہم انتہائی جارحانہ اور دونوں امیدواروں کی پالیسی اور انکے حامی بہت جذباتی لگاؤ کیساتھ اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے کوشاں اور پُرامید ہیں۔

Early Voting


 

امریکی نظام حکومت اور دوسرے اداروں کی کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہاں وفاقی اور مقامی حکومتیں اپنے تمام تر وسائل عام آدمی کو سہولت پہنچانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اسی لئے انتخابات کے دوران بھی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے میں کسی غیر ضروری مشقت سے نہ گزرنا پڑے۔ اس کے لئے عام انتخاب سے تقریباً 2 ہفتے پہلے ہر شہر میں کم از کم ایک پولنگ اسٹیشن قائم کیا جاتا ہے جہاں لوگ جا کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔

اس سال عام انتخابات کا دن 8 نومبر ہے لیکن 20 اکتوبر سے 5 نومبر تک Early Voting کا اہتمام کیا گیا ہے اس دوران لوگ اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن نتائج کا اعلان 8 نومبر کے بعد ہی کیا جائے گا۔ چونکہ یہاں انتخابات والے دن عام تعطیل کا رواج نہیں ہے اور اسکول و کالجز اور دفاتر کھلے ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے دوست ذیشان الحسن عثمانی کی ایماء پر سوچا کیوں نہ اس دفعہ اپنا ووٹ Early Voting کے دوران ہی ڈال دیا جائے۔ تو پچھلے ہفتے ذیشان کو ساتھ لیکر ہم نے بھی اپنے مقامی پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا جو کہ یہاں کمیونٹی سینٹر میں قائم کیا گیا ہے۔ پارکنگ لاٹ میں داخل ہوئے تو صرف ایک پولیس والا وہاں آنے والی گاڑیوں اور لوگوں کی رہنمائی کے لئے کھڑا تھا۔ پارکنگ لاٹ کا ایک حصہ جو کہ بلڈنگ سے قریب تھا بلاک کیا ہوا تھا اور صرف ان گاڑیوں کو وہاں جانے کی اجازت تھی جن میں بہت ضعیف یا وہ لوگ تھے جو کسی معذوری کی وجہ سے لائن میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ان کے لئے سہولت تھی کہ وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی اپنا ووٹ ڈال سکیں۔

وہاں موجود انتخابی عملہ ہر گاڑی میں بیلٹ پیپر پہنچاتا اور اس وقت تک انتظار کرتا جب تک ووٹر خود اس بات کا عندیہ دیتا کہ وہ بیلٹ پیپر پر نشان لگا چکا ہے اور اس کو واپس لیا جاسکتا ہے، اس طرح ووٹ ڈالنے کو یہاں Curbside Voting کہا جاتا ہے۔ خیر میں اور ذیشان گاڑی پارک کرکے بلڈنگ کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ بلڈنگ کے سامنے گھاس پر تقریباً ایک فٹ بائی دو فٹ کہ چھوٹے چھوٹے سائن بورڈ قطار اندر قطار لگے ہوئے ہیں جن پر اُمیدواروں کا نام اور ان کی پارٹی کا نام لکھا ہے۔ یہ سائن یہاں عام الیکشن والے دن یعنی 8 نومبر تک لگے ہوں گے یہ امیدواروں کی ذمہ داری ہوگی کہ یہ سائن بورڈ 9 نومبر کو یہاں سے اٹھالیں، ورنہ شہری حکومت ان امیدواروں پر جرمانہ بھی کرسکتی ہے۔



امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (پہلا حصہ)

امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (دوسرا حصہ)

ہم تھوڑا آگے بڑھے تو ایک سفید فارم خاتون جن کی عمر کوئی 30 سے 35 سال ہوگی ہمارے پاس آ کر ہم سے انتہائی شائستگی سے پوچھا آپ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کے بارے میں کسی معلومات کی ضرورت ہے تو میں آپ کی مدد کرسکتی ہوں کہ کون کس پوزیشن کے لئے امیدوار ہے۔ ہم نے اسے شکریہ کے ساتھ منع کردیا کیونکہ ہمارا ارادہ تھا کہ اس بار پورے ڈیموکریٹک پینل کو ہی ووٹ دیا جائے اس سے چند قدم آگے ہی ایک ساٹھ پیسٹھ سالہ گورے نے ہمیں روکا اور اتنی ہی شائستگی سے کہا، اگر آپ چاہیں تو میں ریپبلکن پارٹی یا ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے معلوماتی کتابچہ آپ کو دے سکتا ہوں۔ صرف اس ایک پولنگ اسٹیشن پر دونوں پارٹی کے ورکر دیکھ کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ریپبلکن پارٹی عام طور سےعمر رسیدہ سفید فام مردوں کی اور ڈیموکریٹک پارٹی نسبتاً جوان ورکنگ کلاس خواتین کی پسندیدہ پارٹی کی شناخت سے آگے بڑھ رہی ہے۔



پولنگ اسٹیشن کی بلڈنگ سے باہر تک کوئی 70، 80 مرد اور عورتیں اطمینان سے کھڑے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ لوگ انتخابی کتابچوں کے مطالعہ میں مگن تھے جو پارٹی ورکرز نے ان کو دیئے تھے۔ کچھ لوگ اپنے فون پر گفتگو میں مگن تھے۔ ہیلو، ہائے کرنے کے بعد ہم بھی لائن میں کھڑے ہوگئے۔ 2016ء کا الیکشن شاید امریکی تاریخ کا پہلا الیکشن ہو جس میں انتخابی مہم انتہائی جارحانہ اور دونوں امیدواروں کی پالیسی اور ان کے حامی بہت جذباتی لگاؤ کے ساتھ اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے کوشاں اور پُرامید ہیں۔ لیکن اِس وقت جو 60، 70 افراد ایک قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے وہ اس اطمینان، سکون اور شائستگی کے ساتھ آہستہ آواز میں ایک دوسرے سے گفتگو میں مشغول تھے جیسے ان لوگوں میں کوئی سیاسی اختلاف ہے ہی نہیں۔

یہ دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ اگر انسان کو اس بات کا فہم ہو کہ اختلاف رائے کے لئے ضروری نہیں کہ آواز بلند کی جائے یا مخالف رائے رکھنے والے کی بےعزتی کی جائے تو معاشرتی سطح پر قوت برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انتخابات کے دوران اپنے ووٹ کی طاقت سے آواز بلند کی جاتی ہے نہ کہ پولنگ کے دوران بے ہنگم شور شرابے سے۔

بہرحال تقریباً 40 منٹ کے انتظار کے بعد ہم بلڈنگ کے اس مرکزی ہال میں تھے جہاں پولنگ کا انتظام تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی تین چار ٹیبل لگی تھیں جن کے پیچھے بیٹھے ہوئے تین خواتین اور ایک حضرت ووٹروں کی مدد کے لئے موجود تھے۔ چونکہ یہاں ووٹ ڈالنے کے لئے شناختی کارڈ دکھانے کی پابندی نہیں ہے، اس لئے ہماری باری پر خاتون نے ہمارا نام و پتہ پوچھ کر اس بات کی زبانی تصدیق چاہی کہ ہم ابھی تک اسی پتہ پر قیام پذیر ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد اس خاتون نے ایک پرنٹ آؤٹ نکال کر ہمیں دیا تاکہ ہم اس بات کی تصدیق کرسکیں کہ ہمارا نام و پتہ اور دوسری معلومات درست ہیں۔ میں نے فارم پر دستخط کرکے اسکی تصدیق کی اور ان خاتون نے بھی دستخط کرکے ہمیں دوسری طرف بیٹھے ہوئے پولنگ اسٹاف کی طرف جانے کا کہا، وہاں پہنچ کر ہم نے وہ فارم ان کو دیا۔ اور اپنا بیلیٹ پیپر وصول کیا۔



بیلیٹ پیپر لیکر ہم ہال کے مرکز میں بنائے ہوئے پولنگ بوتھ کی طرف بڑھے تاکہ وہاں سکون سے اپنے امیدواروں کو ووٹ دے سکیں۔ نارتھ کیرولینا کے بیلیٹ پیپر پر صدارتی امیدواروں کے علاوہ 34 دوسرے امیدواروں کے نام تھے جن میں سینیٹرز سے لیکر ریاستی اسمبلی کے امیدوار اور اسکول بورڈ ممبران کے علاوہ مقامی عدلیہ کے امیدواروں کے نام بھی تھے۔ اس کے علاوہ آدھا سینٹ سیلز ٹیکس بڑھانے کے لئے سوال تھا اور ہاں یا نہ میں جواب دیکر ووٹر اس کو تسلیم یا مسترد کرسکتے تھے۔ ہم نے بھی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے ناموں پر نشان لگایا اور ٹیکس بڑھانے کی رائے کو مسترد کیا اور اپنا بیلیٹ پیپر لیکر دروازے کے پاس کھڑی خاتون کے پاس پہنچے جس کے ساتھ ہی ایک ATM جیسی مشین میں اپنا بیلٹ پیپر جمع کرایا اور خاتون سے ایک اسٹیکر حاصل کیا جس پر لکھا تھا۔

I have voted early



گوکہ عام انتخاب کا دن 8 نومبر ہے لیکن اب تک کئی ملین لوگ اپنا ووٹ Early Voting کے دوران ڈال چکے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا 2016ء کے الیکشن اس حوالہ سے تاریخی ہیں کہ یہاں بھی یورپ کی طرح قدامت پسندوں نے پہلی دفعہ کھل کر امیگریشن اور اقلیتی آبادی جس میں افریقی امریکی، ہسپانوی امریکی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ابھارا ہے۔ گوکہ شماریاتی جائزے اب بھی ہیلری کلنٹن کی کامیابی کے امکانات ظاہر کررہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ دنوں میں امریکہ کے دور دراز اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے سفید فام نسلی تعصب کے حامی گروہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں۔

2016ء کے انتخابی نتائج سے قطع نظر ایک بات طے ہے کہ اس الیکشن کے بعد امریکی معاشرہ میں ایک واضح تقسیم دکھائی دے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں امریکہ میں قائم جمہوری اورعدالتی ادارے ایک کڑی آزمائش سے دوچار ہوں گے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریات امریکی آئین میں دی گئی شخصی اور مذہبی آزادی سے متصادم نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں ان اداروں کی ناکامی کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے گورباچوف بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور تمام دنیا سے یہاں آکر بسنے والے خاص کر مسلمان یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایک اور ہجرت کا سامنا تھا ایک ہجرت کا مقابلہ کرکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں