وضعداری و اطوار

دنیا بھر کی زبانوں میں ایسے الفاظ ہوتے ہیں، جواس قوم کے جذبات کے عکاس ہوتے ہیں

دنیا بھر کی زبانوں میں ایسے الفاظ ہوتے ہیں، جواس قوم کے جذبات کے عکاس ہوتے ہیں اور قوم نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مختلف الفاظ کو چنا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس قوم کے اس لفظ کو وہی قوم زیادہ بہتر انداز میں استعمال بھی کرتی ہے مگر کبھی کبھی ایک زبان کے الفاظ دوسری قوم کے ''فرد'' پر اس طرح منطبق ہوتے ہیں کہ آپ حیران ہوجاتے ہیں، حالانکہ حیرانی کی کوئی خاص وجہ ہوتی نہیں چاہیے کیوںکہ الفاظ اور اظہارکا تعلق جذبات اور عمل سے ہوتا ہے اور اس سے ہی جذبے کے تحت الفاظ جنم لیتے ہیں۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ جذبات کا بھی ہر قوم میں ایک الگ مفہوم ہے سوائے چند جذبات اور ان سے منسلکہ الفاظ کے جو ہر قوم کی شاعری اور ادب میں یکساں مروج ملتے ہیں۔ مثلاً وفا، بے وفا، ایمان دار، بے ایمان، چالاک، عیار، ہوشیار، ذہین، خوبصورت، بد صورت، حسن، وغیرہ اور بھی مشترک الفاظ ہوںگے۔ ہوسکتے ہیں مگر ایک بات یہ ہے کہ ان لفظوں کے خصوصی حالات میں استعمال سے کیا مطلب اخذ کیا جاتا ہے یہ ایک الگ بات ہے، مثلاً عیاری ایک مسلمان کے نقطہ نظر سے عام طور پر بڑے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور سمجھی جاتی ہے مگر ایک یہودی یا ہندو کے لحاظ سے اسے ایک تکنیک سمجھا جائے گا اور قابل تعریف بھی۔

اب اس میں مثال دینے کی ضرورت ہے آپ خود جانتے ہیں کہ یہ دونوں قومیں اس لفظ کا کس طرح کہاں اور ان کے خیال کے مطابق بہتر استعمال کررہے ہیں اور شاید اتفاق بھی ہے اس پر، مگر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لکھی گئی ہیں مگر کتابوں سے صرف معلومات حاصل ہوتی ہیں اور زندگی کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کا ہر باب جدا اور الگ الگ سبق دیتا ہے۔ تو ہم بات کررہے ہیں زبانوں کے الفاظ اور استعمال کی۔

ہماری اپنی زبان میں وفا کو زیادہ تر انسانوں کے لیے مخصوص کیا گیا یعنی انسانوں کی انسانوں سے وفا مگر اس کی ایک اور بھی تشریح ہوسکتی ہے اور ضرور اس سے پہلے بھی ہوئی ہوگی وہ ہے عمل کی پاسداری اور اسے اگر ہم جانوروں میں بھی دیکھیں تو حیرت انگیز چیزیں دیکھنے کو ملیںگی کہ اگر ایک جوڑے کا ایک فرد دنیا میں نہیں رہا انسان کا شکار ہوگیا یا قدرتی آفات نے مارڈالا تو دوسرا بھی زیادہ عرصے زندہ نہیں رہتا۔

اسے آپ کیا نام دیںگے، یہ وفا ہی تو ہے اور نہ دوسرے کا انتخاب کیا مشکل تھا ہزاروں میں۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ وفا کا یہ سلسلہ جانوروں سے انسانوں تک پہنچا یا انسانوں کی وجہ سے جانوروں نے اپنی عادتیں خراب کرلی ہیں۔ اس پر ریسرچ اور تحقیق کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔

بے وفائی کے نظارے جانوروں یا دوسری مخلوقات میں کم اور انسانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں اب جانوروں کی ''بولی''ہوتی ہے جانوروں اور پرندوں کی بولی اور دوسرے جو کچھ قدرت نے انواع و اقسام کی مخلوقات پیدا کی ہیں ان سب کی بولی ہوتی ہے انسان کی زبان ہے کیونکہ یہ ضبط تحریر میں بھی ہوتی ہے مگر تعجب ہے کہ بغیرکہیں لکھے اور محفوظ کیے پرندے اور جانور نسلاً در نسل وہی عادات اور طرز زندگی اور یہاں تک کہ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ اس میں قدیم راستے پر کرتے ہیں جو ان کے پرکھوں نے مقرر کیا تھا۔

کبھی تو کسی نے، کسی پہلے جانور نے، پرندے نے یہ راستا دریافت کیا ہوگا، اختیار کیا ہوگا اسے سلام ہے اور اس کے مقلدوں کو سلام ہے ان پرندوں، ان جانوروں کی راسخ العقیدگی کو سلام ہے کہ ان کے پرکھوں نے جو کچھ ان کے لیے مقرر کیا اس پر یقین واثق ہے کہ درست ہے اورعمل کرتے ہیں ہر سال ہزاروں، لاکھوں جان بھی دیتے ہیں،اس سفر میں جگر وفا کا راستا ترک نہیں کرتے جو عمل کا راستا ہے۔


مضمون تو یہاں سے بہت قائم ہوجائیںگے بحث کرنے کو مگر بحث مقصود نہیں بات کہنے کو بنیاد رکھ رہے تھے کہ مدفون خزانہ مل گیا علم کا، سوچ کا تو آپ کی نذرکردیا کہ ہمارا تو اس جہاں میں کچھ ہے نہیں جو کچھ ہے جہاں کا ہے اورمالک جہاں کا ہے سو وہ جانے آپ جانیں۔

زبان کی بات تھی اور ہر زبان کے اپنے الفاظ اور اس کے مطابق جو ہر قوم کے لیے بہت مشترک تو ہیں مگر حالات ان کے معنی بدل دیتے ہیں جیسے امریکا کی دوستی (محض مثال کے طور پر عرض ہے) آپ کو ہر طرح مقروض کرسکتی ہے کبھی خوشحال نہیں کرسکتی جس قوم نے یہ دوستی اختیارکی اس کا انجام آخر میں بھکاریوں والا ہوا ہم کوئی مثال نہیں دے رہے سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔

اب اگر لغت میں لفظ ''امریکا'' لکھا جائے تو ہر قوم کی زبان میں اس کے معنی کچھ اور ہوںگے ''مالکوں'' یعنی برطانیہ کو شکست دے کر امریکا وجود میں آیا اب مالک اس کا دم بھرتے ہیں تو معنی تبدیل ہوگئے نا، مطلب یہ کہ بے وفائی سے اگر فریقوں کا فائدہ ہے تو اس کے نتائج کو مثبت سمجھنا چاہیے منفی نہیں۔

بات ہورہی ہے محض زبان کی ہر قوم کی زبان میں الفاظ کے معنی مشترکات کے باوجود الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ ''زبان انگریزی'' مستند یعنی برطانوی انگریزی کہ انگریزکو اصل وہی ہیں پہلے جابر، جنہوں نے برصغیرکا بیڑہ غرق کردیا۔ اب یہاں بھی عرض کردیں کہ ایک لفظ ہے بیڑہ یعنی لکھنؤ اور دوسرے علاقوں میں پان کا بیڑہ یعنی کھانے کے لیے تیار شدہ پان کتھا، چونا، چھالیہ وغیرہ سے مزین ہوتا تھا۔ اب بھی ہندوپاک میں ہے اسے کہتے ہیں اور قسم کھانے، عہد کرنے میں اسے استعمال کیا جاتا تھا کہ پان کا بیڑہ اٹھاکر منہ میں رکھ کر عہد کیا جاتا تھا کہ یہ کام کیا جائے گا۔

اسے ''بیڑہ اٹھانا'' کہتے ہیں، کہتے تھے ایک ''بحری بیڑہ'' ہوتا ہے SEA FORCE جو ہر اس ملک کی ہی ہوتی ہے جس کے پاس سمندر ہے جسے عام الفاظ میں آج کل تو بہت آسانی سے سمجھ میں آجائے گا ''بحریہ'' کہتے ہیں تو نیوز ریڈر، نیوز کاسٹر خیال رکھیں کہ سمندری جہاز اٹھانا ایک فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے پان البتہ وہ کھاسکتا ہے تو اٹھا بھی سکتا ہے۔ انگریزی زبان کے دو لفظ ہیں ''GRATEFULNESS'' اور ''ATTITUDE'' یہ الفاظ انسان کے عمل اور نیت کو ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے متعلق ہیں ''ATTITUDE'' سے ''GRATEFULNESS''ظاہر ہوتی ہے اور ''GRATEFULNESS''سے ''ATTITUDE''جنم لیتا ہے۔

''گریٹ فل نیس'' کا مطلب وضع داری، اعلیٰ کردار ہے اور مطالب کے علاوہ اور ''ATTITUDE'' کا مطلب رویہ یا سیدھا ''اطوار'' نکلتا ہے یہ تو ہم بات کرچکے کہ ہر قوم کے معیارات ان کے معنوں میں الگ ہوتے ہیں اور ہیں، ہزاروں کو مار کے کوئی قاتل نہیں ہزاروں کے مرنے پر کوئی مقتول نہیں، بات پھر کسی اور طرف نہ نکل جائے تو مکمل کرلیں کہ ہمیں ایک عظیم شخصیت یاد آگئی۔ ان الفاظ کے حوالے سے وہ تھے ایک بزرگ ''مفتی محمود'' جو ان الفاظ کی تمام تر POSITIVE V ALUESکے آئینہ دار تھے اور بھی تھے ہیں مگر مفتی محمود کے مذکور ہونے کا سبب ان کے صاحبزادے کا یہ بیان ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری آپس کی کشمکش کو ختم کریں۔

یہاں گریٹ فل نیس اور ATTITUDE کا موازنہ کتنا اچھا ہوسکتا ہے کہ مفتی محمود پاکستان کس کو سمجھتے تھے اور ان کے صاحبزادے شاید پاکستان مفاد کو سمجھتے ہیں کہ شکاریوں کو متحد کررہے ہیں کہ جلد شکار کیے حصے بخرے کروکہ باقی ماندہ مجھے مل جائے۔

یا یوں کہہ لیجیے کہ بازار میں جھگڑا ہو تو دکاندارکا نقصان ہوتا ہے، دکان بند ہوجاتی ہے تو کاروبار رک جاتا ہے، کاروبار رک جائے تو گزارہ نہیں ہوتا گاہک نہیں آتا نا طالبان، نہ مسئلہ کشمیر دو کاروبار الگ رک جائیںگے یا ختم ہوجائیںگے تو پاکستان خوشحال ہوجائے گا خطہ پر امن ہوجائے گا مگر دکاندار کا کیا فائدہ گاہکی ختم ہوجائے گی ان کا دوسرا بیان تھا۔ وزیراعظم کے خلاف تو سمجھ میں آگیا ناکہ ''GRATEFULNESS''اور ''ATTITUDE'' کے کیا معنی ہیں اور کس طرح اپنے مفاد کے لیے ان کے معنی تبدیل ہوتے رہتے ہیں سلسلہ جاری ہے پوری کتاب ہے پھر پڑھیںگے کبھی!
Load Next Story