سانحہ گڈانی
اس المناک سانحے میں انتظامیہ کی بدترین غفلت نظر آئے گی
کوئی چار چھ ماہ قبل کا ذکر ہے کہ جب ایک سماجی رہنما خاتون نے یہ انکشاف کرکے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ دنیا بھر میں ایک برس میں 20 لاکھ محنت کش کام کے دوران مختلف حادثات کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ یہ خاتون ایک نامور سماجی خاتون ہیں چنانچہ انھوں نے یہ بات پورے وثوق سے کی تھی چنانچہ ابہام کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس لیے اس خاتون کے انکشاف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک برس میں 20 لاکھ مزدور جاں بحق ہوتے ہیں تو ایک ماہ میں ان جاں بحق مزدوروں کی تعداد بنتی ہے ایک لاکھ 67 ہزار اور یومیہ ان بدنصیب محنت کشوں کی تعداد بنتی ہے تقریباً5 ہزار 5 سو سے زائد، مگر اس قدر محنت کشوں کی جانوں کے ضیاع کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ حفاظتی اقدامات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔
ایک سے ایک حادثہ آئے روز ہمارا منتظر ہوتا ہے باوجود اس کے کہ چھوٹے چھوٹے حادثات کے علاوہ سانحہ علی انٹرپرائزز، بلدیہ ٹاؤن کراچی جس میں 260 محنت کش شہید ہوئے۔ سانحہ سندر اسٹیٹ رائے ونڈ روڈ جس میں 55 سے زائد محنت کش شہید ہوئے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس قسم کے سانحات کے بعد ملک بھر میں سختی کے ساتھ سیفٹی قوانین پر عملدرآمد کرایا جاتا مگر ایسا نہ ہوسکا جس کے باعث یکم نومبر 2016 کو کراچی سے 50 کلومیٹر دوری پرگڈانی کے مقام پر شپ بریکنگ یارڈ میں پیش آیا ۔
اس المناک سانحے میں انتظامیہ کی بدترین غفلت نظر آئے گی ، گیس کٹنگ کے کام کے دوران وہ بھی اتنے بڑے سمندری جہازکی کٹنگ کے دوران ضرورت اس امر کی تھی کہ بھرپور طریقے سے حفاظتی اقدامات اٹھائے جاتے۔ اس موقعے پر ضروری تھا کہ ایک مستند HSE انسپکٹر ہمہ وقت کام کے دوران کام کی جگہ پر موجود ہوتا مگر غالب گمان یہ ہے کہ کام کے دوران اس جگہ HSE انسپکٹر موجود نہ تھا کیونکہ اگر اس وقت HSE انسپکٹر کام کی جگہ پر ہوتا تو ان حالات میں جب کہ کاٹے جانے والے سمندری جہازکی صفائی مکمل طور پر نہ ہوئی تھی کام کی اجازت نہ دیتا اوراگر کام کی جگہ HSE انسپکٹر موجود تھا اور ان حالات میں کہ سمندری جہاز کی صفائی نامکمل تھی اور اس HSE انسپکٹر نے کام کرنے کی اجازت دی ہے تو وہ انسپکٹر بدترین بلکہ مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوا ہے اور اس سانحے کا ذمے دار بھی ہے بہرکیف جیساکہ ہم سطور بالا میں ذکر کرچکے ہیں کہ یہ سانحہ یکم نومبر 2016 کی صبح 10 بجے پیش آیا کام کے دوران کوئی 150 محنت کش سمندری جہاز پر اپنے کام میں مصروف تھے۔
اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ نامکمل صفائی کے باعث کام کا آغاز کرنے سے محنت کشوں نے انکارکردیا تھا مگر ٹھیکیدار بضد تھا کہ آج ہی کام شروع کردیا جائے چنانچہ کام شروع ہوا اور سمندری جہاز کی کٹنگ کے دوران ایک جان لیوا چنگاری نکلی اور پٹرول زدہ جگہ پر جاگری اور آگ پکڑ لی اور پے درپے چھ دھماکے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بدترین آتشزدگی نے پورے سمندری جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، چار روز بعد بجھنے والی آگ کے نتیجے میں 20 محنت کش شہید ہوئے ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
60 سے زائد محنت کش شدید زخمی ہیں اور اکثر محنت کشوں کے جسم 70 فیصد جھلس چکے ہیں جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سمندری جہاز میں دھماکے ہوئے تو محنت کشوں کی کثیر تعداد جہاز کے عرشے پر موجود تھی جوکہ دھماکے کے باعث فضا میں گویا اڑگئی اور ایک بڑی تعداد نے سمندر میں کود کر اپنی جانیں بچانے کی کوششیں کیں البتہ ایک بات قابل ذکر ضرور ہے 24 گھنٹے بیت گئے کسی بھی سیاسی رہنما و حکومتی وزیر نے سانحہ گڈانی پر اظہار افسوس کرنا بھی گوارا نہیں کیا البتہ سانحہ رونما ہوئے کوئی 26 گھنٹے جب بیت گئے تو حکومت پاکستان کی جانب سے 2 نومبر 2016 کو ایک اظہار افسوس کا بیان سامنے آگیا اور ساتھ یہ بیان بھی کہ ایک کمیٹی بنادی گئی ہے اس کمیٹی کے ذمے یہ کام ہوگا کہ اس بات کا تعین کرے کہ سانحہ گڈانی کیسے پیش آیا گویا اب ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دو چار روز بعد لوگ سانحہ گڈانی کو بھول جائیں گے کیونکہ خدانخواستہ کوئی اور سانحہ ہمارا منتظر ہوسکتا ہے گزشتہ 70 سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔
یہ بات تسلیم کہ کام کے دوران حادثات کا تدارک گوکہ ناممکن ہے البتہ یہ تو ممکن ہے کہ اگر مناسب حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو کافی حد تک ان حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے وہ ضروری اقدامات یہ ہیں کہ جب ہاٹ ورک کہیں ہو رہا ہو تو ایک مستند HSE انسپکٹر ہمہ وقت کام کی جگہ پرموجود ہو اور کام کی جگہ پر آتشزدگی پر قابو پانے والامکمل سامان ہو جن میں آگ پر قابو پانے والاسلنڈر اہم ترین کردار ادا کرتا ہے جب کہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ کام کے دوران تمام محنت کش ڈھیلے لباس میں نہ ہوں بلکہ ڈانگری زیب تن کریں ہاتھوں پر دستانے استعمال کریں، سر پر ہیلمٹ پاؤں میں حفاظتی جوتے آنکھوں پر چشمہ اگر کام کی جگہ پر شور ہو تو کانوں میں ایئرپلگ لازمی استعمال کریں یوں بھی ہماری کوشش ہوگی کہ سیفٹی قوانین کے حوالے سے ایک الگ سے کالم تحریر کریں۔
بہرکیف اس موقعے پر لازم ہے کہ سانحہ گڈانی کی مکمل وغیرہ جانب داری سے تحقیقات ہو اور یہ تحقیقات کوئی حاضر سروس جج کرے نہ کہ کوئی وفاقی وزیر۔ جب کہ محنت کشوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ سیفٹی قوانین کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کریں اور اگر وہ کام کی جگہ پر حفاظتی اقدامات سے مطمئن ہوں تو کام کا آغازکریں بصورت دیگر وہ کام کرنے سے انکارکردیں کیونکہ سب سے پہلے انسانی جانیں ہیں ناکہ دنیا کے کام۔ آخر میں فیصل ایدھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ شب و روز ریسکیو کاموں میں مصروف رہے اور کئی قیمتی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک سے ایک حادثہ آئے روز ہمارا منتظر ہوتا ہے باوجود اس کے کہ چھوٹے چھوٹے حادثات کے علاوہ سانحہ علی انٹرپرائزز، بلدیہ ٹاؤن کراچی جس میں 260 محنت کش شہید ہوئے۔ سانحہ سندر اسٹیٹ رائے ونڈ روڈ جس میں 55 سے زائد محنت کش شہید ہوئے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس قسم کے سانحات کے بعد ملک بھر میں سختی کے ساتھ سیفٹی قوانین پر عملدرآمد کرایا جاتا مگر ایسا نہ ہوسکا جس کے باعث یکم نومبر 2016 کو کراچی سے 50 کلومیٹر دوری پرگڈانی کے مقام پر شپ بریکنگ یارڈ میں پیش آیا ۔
اس المناک سانحے میں انتظامیہ کی بدترین غفلت نظر آئے گی ، گیس کٹنگ کے کام کے دوران وہ بھی اتنے بڑے سمندری جہازکی کٹنگ کے دوران ضرورت اس امر کی تھی کہ بھرپور طریقے سے حفاظتی اقدامات اٹھائے جاتے۔ اس موقعے پر ضروری تھا کہ ایک مستند HSE انسپکٹر ہمہ وقت کام کے دوران کام کی جگہ پر موجود ہوتا مگر غالب گمان یہ ہے کہ کام کے دوران اس جگہ HSE انسپکٹر موجود نہ تھا کیونکہ اگر اس وقت HSE انسپکٹر کام کی جگہ پر ہوتا تو ان حالات میں جب کہ کاٹے جانے والے سمندری جہازکی صفائی مکمل طور پر نہ ہوئی تھی کام کی اجازت نہ دیتا اوراگر کام کی جگہ HSE انسپکٹر موجود تھا اور ان حالات میں کہ سمندری جہاز کی صفائی نامکمل تھی اور اس HSE انسپکٹر نے کام کرنے کی اجازت دی ہے تو وہ انسپکٹر بدترین بلکہ مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوا ہے اور اس سانحے کا ذمے دار بھی ہے بہرکیف جیساکہ ہم سطور بالا میں ذکر کرچکے ہیں کہ یہ سانحہ یکم نومبر 2016 کی صبح 10 بجے پیش آیا کام کے دوران کوئی 150 محنت کش سمندری جہاز پر اپنے کام میں مصروف تھے۔
اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ نامکمل صفائی کے باعث کام کا آغاز کرنے سے محنت کشوں نے انکارکردیا تھا مگر ٹھیکیدار بضد تھا کہ آج ہی کام شروع کردیا جائے چنانچہ کام شروع ہوا اور سمندری جہاز کی کٹنگ کے دوران ایک جان لیوا چنگاری نکلی اور پٹرول زدہ جگہ پر جاگری اور آگ پکڑ لی اور پے درپے چھ دھماکے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بدترین آتشزدگی نے پورے سمندری جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، چار روز بعد بجھنے والی آگ کے نتیجے میں 20 محنت کش شہید ہوئے ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
60 سے زائد محنت کش شدید زخمی ہیں اور اکثر محنت کشوں کے جسم 70 فیصد جھلس چکے ہیں جس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سمندری جہاز میں دھماکے ہوئے تو محنت کشوں کی کثیر تعداد جہاز کے عرشے پر موجود تھی جوکہ دھماکے کے باعث فضا میں گویا اڑگئی اور ایک بڑی تعداد نے سمندر میں کود کر اپنی جانیں بچانے کی کوششیں کیں البتہ ایک بات قابل ذکر ضرور ہے 24 گھنٹے بیت گئے کسی بھی سیاسی رہنما و حکومتی وزیر نے سانحہ گڈانی پر اظہار افسوس کرنا بھی گوارا نہیں کیا البتہ سانحہ رونما ہوئے کوئی 26 گھنٹے جب بیت گئے تو حکومت پاکستان کی جانب سے 2 نومبر 2016 کو ایک اظہار افسوس کا بیان سامنے آگیا اور ساتھ یہ بیان بھی کہ ایک کمیٹی بنادی گئی ہے اس کمیٹی کے ذمے یہ کام ہوگا کہ اس بات کا تعین کرے کہ سانحہ گڈانی کیسے پیش آیا گویا اب ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دو چار روز بعد لوگ سانحہ گڈانی کو بھول جائیں گے کیونکہ خدانخواستہ کوئی اور سانحہ ہمارا منتظر ہوسکتا ہے گزشتہ 70 سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔
یہ بات تسلیم کہ کام کے دوران حادثات کا تدارک گوکہ ناممکن ہے البتہ یہ تو ممکن ہے کہ اگر مناسب حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو کافی حد تک ان حادثات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے وہ ضروری اقدامات یہ ہیں کہ جب ہاٹ ورک کہیں ہو رہا ہو تو ایک مستند HSE انسپکٹر ہمہ وقت کام کی جگہ پرموجود ہو اور کام کی جگہ پر آتشزدگی پر قابو پانے والامکمل سامان ہو جن میں آگ پر قابو پانے والاسلنڈر اہم ترین کردار ادا کرتا ہے جب کہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ کام کے دوران تمام محنت کش ڈھیلے لباس میں نہ ہوں بلکہ ڈانگری زیب تن کریں ہاتھوں پر دستانے استعمال کریں، سر پر ہیلمٹ پاؤں میں حفاظتی جوتے آنکھوں پر چشمہ اگر کام کی جگہ پر شور ہو تو کانوں میں ایئرپلگ لازمی استعمال کریں یوں بھی ہماری کوشش ہوگی کہ سیفٹی قوانین کے حوالے سے ایک الگ سے کالم تحریر کریں۔
بہرکیف اس موقعے پر لازم ہے کہ سانحہ گڈانی کی مکمل وغیرہ جانب داری سے تحقیقات ہو اور یہ تحقیقات کوئی حاضر سروس جج کرے نہ کہ کوئی وفاقی وزیر۔ جب کہ محنت کشوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ سیفٹی قوانین کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کریں اور اگر وہ کام کی جگہ پر حفاظتی اقدامات سے مطمئن ہوں تو کام کا آغازکریں بصورت دیگر وہ کام کرنے سے انکارکردیں کیونکہ سب سے پہلے انسانی جانیں ہیں ناکہ دنیا کے کام۔ آخر میں فیصل ایدھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ شب و روز ریسکیو کاموں میں مصروف رہے اور کئی قیمتی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔