قصہ شہد کا
تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر سے برآمد ہونے والے بلیک لیبل شہد نے بڑی شہرت حاصل کرلی
KARACHI:
سندھ ہائی کورٹ کے اہم اور تاریخ ساز فیصلے نے شراب کی فروخت پر پابندی سے متاثر ہونے والوں کو ابھی پریشان ہی کر رکھا تھا کہ تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر سے برآمد ہونے والے بلیک لیبل شہد نے بڑی شہرت حاصل کرلی۔
اس شہد کے نام کی بازگشت اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی سنائی دی اور فاضل جسٹس نے طنزیہ کہا کہ موسم بدل گیا ہے، بلیک لیبل شہد بھی ضروری ہوگیا ہے۔ ملک میں جھوٹ کی سیاست عروج پر ہے، اس لیے پی ٹی آئی کے وزیر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میرے شہد کو شراب بھی وفاقی حکومت نے عمران خان کے وزیروں کو بدنام کرنے کے لیے بنا دیا ہے۔ جس وزیر کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں وہ اگر لائسنس والے اسلحے کے علاوہ دیگر جائز لوازمات لے کر اسلام آباد آرہے تھے تو انھیں پولیس کی تلاشی کے وقت فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے نے تو سندھ میں شراب فروخت کرنے والوں سے زیادہ شراب فروش کے لائسنس جاری کرنے والے محکمہ اور شرابیوں کی نیندیں حرام کردی ہیں کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ شراب فروشی سے حکومت کوکروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے سے سندھ حکومت کی آمدنی اور سرکاری محکمہ کا بجٹ متاثر ہوگا۔ اس ناپسندیدہ فیصلے پر سندھ حکومت سپریم کورٹ بھی جانے سے گریزکررہی ہے اور اسے خدشہ ہے کہ معاملہ سندھ سے نکل کر پورے ملک پر لاگو نہ ہوجائے، اگر سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھ کر فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر کردیا توکیا ہوگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جسٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں بھی شراب لائی لے جائی جاتی ہے یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں شراب ہی نہیں غیر قانونی اسلحہ اور منشیات بھی ادھر ادھرکی جاتی ہیں کیونکہ ایسا کرنے والوں کو پتا ہے کہ سرکاری گاڑی کوئی چیک نہیں کرتا اوراگر کوئی یہ گستاخی کر بھی لے تو سرکاری گاڑی غلط استعمال کرنے والوں کو تو کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا، بلکہ ان کی شکایت پرگاڑی چیک کرنے والے کی مصیبت آجاتی ہے۔ راقم کو میرے آبائی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیرکا قصہ ایک سابق صوبائی وزیر نے بتایا تھا کہ جس شخص کو وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے وزیر اعظم ہاؤس بلایا گیا تھا، تو جس گاڑی میں موصوف آئے تھے اس میں شراب کی بوتلیں پہلے سے موجود تھیں۔
وفاقی وزیرکے حلف اٹھانے کے دوران ان کی گاڑی پر قومی پرچم لگا دیا گیا اور وزیر موصوف واپس جا رہے تھے تو راستے میں گاڑیوں کی چیکنگ ہو رہی تھی جسے دیکھ کر گاڑی چلانے والے اپنے دوست کو گاڑی روکنے کے لیے کہا اور پوچھنے پر کہا کہ گاڑی میں شراب موجود ہے اور سامنے دیکھ چیکنگ ہو رہی ہے جس پر گاڑی روکنے کی بجائے کہا گیا کہ تو اب عام آدمی نہیں وزیر ہے اب گاڑی پر قومی پرچم لہراتا دیکھ کر چیکنگ والے روکیں گے نہیں بلکہ پروٹوکول دیں گے اور یہی ہوا گاڑی چیک کرنے پر مامور اہلکاروں نے گاڑی پر قومی پرچم لہراتا دیکھ کر وزیر موصوف کو سلوٹ کیا اور گاڑی نکل گئی۔
پاکستان میں شراب کا استعمال اب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ غریبوں کی شادی بھی شراب کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے اورکچی شراب پر ہی گزارا کرلیا جاتا ہے جب کہ بڑے لوگوں میں تو پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں جن کے مہمانان خصوصی اعلیٰ سرکاری افسران ہوتے ہیں اور بڑے لوگوں کی شادیوں میں تو رقص کی محفلوں کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور مجرے کرنے والیوں پر لاکھوں روپے نچھاور کیے جاتے ہیں۔
اعلیٰ سرکاری افسران خصوصاً پولیس افسران سے تعلقات بڑھانے کے لیے تاجروں، زمینداروں اور بڑے لوگوں کی طرف سے ایسی خفیہ محفلیں منعقد ہوتی ہیں جہاں بعض اوقات ہوائی فائرنگ ہی نہیں کرتے بلکہ لڑائی جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں مگر علاقہ پولیس کو اعتماد میں لیا ہوتا ہے۔ ایسا واقعہ حال ہی میں ڈیفنس کراچی میں پیش آیا، شکایت پر پولیس نے چھاپہ مار ایک شخص کو پکڑا ضرور مگر فوری بعد ہی تھانہ لے جاکر شخصی ضمانت پر رہا کردیا گیا کیونکہ یہاں قانون کا اطلاق بڑے لوگوں پر نہیں ہوتا۔
میڈیا میں اکثر خبریں آتی رہتی ہیں کہ رات کے وقت تھانوں پر موجود اہلکار نشے میں ہوتے ہیں ، جب کہ رات کو گشت کرنے والے اہلکار بھی بعض اوقات نشے میں چیکنگ کرتے ہیں۔ ان اہلکاروں کا لوگوں کی تلاشی لینا، لڑنا جھگڑنا اوراشارے پر نہ رکنے والی گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں پر فائرنگ کردینا بھی معمول ہے اور تھانوں میں آنے والوں کو بلاوجہ گالیاں دینا اور مارنا پیٹنا بھی ان اہلکاروں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔
بعض افسر یہ شوق اپنے گھر یا دوستوں کی محفل میں جاکر پوراکرلیتے ہیں، اس لیے ان کی شکایت نہیں ملتی جب کہ پولیس سے متعلق یہ شکایات میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ملک وقوم کی قیادت کرنے والے سیاستدان بھی کم نہیں ہوتے ہیں۔ایک سابق وزیراعظم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا تھا کہ ہاں میں شراب پیتا ہوں عوام کا خون تو نہیں پیتا۔ اس اعتراف نے تالیاں بہت بجائی تھیں۔
ایک سیاستدان کی شراب نوشی میں ایک صوبائی رہنما بھی موجود تھے جو شراب نہیں پیتے تھے مگر ان رہنما کو راقم نے خود دیکھا کہ مذکورہ محفل سے وہ شراب کا گلاس لے کر پریس گیلری میں آئے اور گلاس ایک صحافی کو پیش کیا تھا۔
حکومت نے ہر صوبے میں محکمہ ایکسائز قائم کر رکھا ہے، جس کا فرض منشیات کی فروخت روکنا ہے مگر ملک بھر میں منشیات کے غیرقانونی اڈے چلتے ہیں۔ ملک بھر میں ایکسائز پولیس اور ضلع پولیس موجود ہے جنھیں رشوت دے کر منشیات کراچی آتی ہیں اور بیرون ملک اسمگل ہوجاتی ہیں۔ منشیات روکنے کے لیے اے این ایس ایف اورکوسٹ گارڈ بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی سب کچھ ملتا ہے۔ شراب ام الخبائث قرار دی گئی ہے اور اسلام سمیت ہر مذہب میں حرام اور ممنوع ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ نہایت اہم اور تاریخی ہے جس کی تقلید پورے ملک میں ہونی چاہیے جس سے کرپشن اور جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے اہم اور تاریخ ساز فیصلے نے شراب کی فروخت پر پابندی سے متاثر ہونے والوں کو ابھی پریشان ہی کر رکھا تھا کہ تحریک انصاف کے ایک صوبائی وزیر سے برآمد ہونے والے بلیک لیبل شہد نے بڑی شہرت حاصل کرلی۔
اس شہد کے نام کی بازگشت اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی سنائی دی اور فاضل جسٹس نے طنزیہ کہا کہ موسم بدل گیا ہے، بلیک لیبل شہد بھی ضروری ہوگیا ہے۔ ملک میں جھوٹ کی سیاست عروج پر ہے، اس لیے پی ٹی آئی کے وزیر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میرے شہد کو شراب بھی وفاقی حکومت نے عمران خان کے وزیروں کو بدنام کرنے کے لیے بنا دیا ہے۔ جس وزیر کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں وہ اگر لائسنس والے اسلحے کے علاوہ دیگر جائز لوازمات لے کر اسلام آباد آرہے تھے تو انھیں پولیس کی تلاشی کے وقت فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے نے تو سندھ میں شراب فروخت کرنے والوں سے زیادہ شراب فروش کے لائسنس جاری کرنے والے محکمہ اور شرابیوں کی نیندیں حرام کردی ہیں کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ شراب فروشی سے حکومت کوکروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے سے سندھ حکومت کی آمدنی اور سرکاری محکمہ کا بجٹ متاثر ہوگا۔ اس ناپسندیدہ فیصلے پر سندھ حکومت سپریم کورٹ بھی جانے سے گریزکررہی ہے اور اسے خدشہ ہے کہ معاملہ سندھ سے نکل کر پورے ملک پر لاگو نہ ہوجائے، اگر سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھ کر فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر کردیا توکیا ہوگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جسٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں پتا ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں بھی شراب لائی لے جائی جاتی ہے یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ سرکاری گاڑیوں میں شراب ہی نہیں غیر قانونی اسلحہ اور منشیات بھی ادھر ادھرکی جاتی ہیں کیونکہ ایسا کرنے والوں کو پتا ہے کہ سرکاری گاڑی کوئی چیک نہیں کرتا اوراگر کوئی یہ گستاخی کر بھی لے تو سرکاری گاڑی غلط استعمال کرنے والوں کو تو کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا، بلکہ ان کی شکایت پرگاڑی چیک کرنے والے کی مصیبت آجاتی ہے۔ راقم کو میرے آبائی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیرکا قصہ ایک سابق صوبائی وزیر نے بتایا تھا کہ جس شخص کو وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے وزیر اعظم ہاؤس بلایا گیا تھا، تو جس گاڑی میں موصوف آئے تھے اس میں شراب کی بوتلیں پہلے سے موجود تھیں۔
وفاقی وزیرکے حلف اٹھانے کے دوران ان کی گاڑی پر قومی پرچم لگا دیا گیا اور وزیر موصوف واپس جا رہے تھے تو راستے میں گاڑیوں کی چیکنگ ہو رہی تھی جسے دیکھ کر گاڑی چلانے والے اپنے دوست کو گاڑی روکنے کے لیے کہا اور پوچھنے پر کہا کہ گاڑی میں شراب موجود ہے اور سامنے دیکھ چیکنگ ہو رہی ہے جس پر گاڑی روکنے کی بجائے کہا گیا کہ تو اب عام آدمی نہیں وزیر ہے اب گاڑی پر قومی پرچم لہراتا دیکھ کر چیکنگ والے روکیں گے نہیں بلکہ پروٹوکول دیں گے اور یہی ہوا گاڑی چیک کرنے پر مامور اہلکاروں نے گاڑی پر قومی پرچم لہراتا دیکھ کر وزیر موصوف کو سلوٹ کیا اور گاڑی نکل گئی۔
پاکستان میں شراب کا استعمال اب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ غریبوں کی شادی بھی شراب کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے اورکچی شراب پر ہی گزارا کرلیا جاتا ہے جب کہ بڑے لوگوں میں تو پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں جن کے مہمانان خصوصی اعلیٰ سرکاری افسران ہوتے ہیں اور بڑے لوگوں کی شادیوں میں تو رقص کی محفلوں کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور مجرے کرنے والیوں پر لاکھوں روپے نچھاور کیے جاتے ہیں۔
اعلیٰ سرکاری افسران خصوصاً پولیس افسران سے تعلقات بڑھانے کے لیے تاجروں، زمینداروں اور بڑے لوگوں کی طرف سے ایسی خفیہ محفلیں منعقد ہوتی ہیں جہاں بعض اوقات ہوائی فائرنگ ہی نہیں کرتے بلکہ لڑائی جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں مگر علاقہ پولیس کو اعتماد میں لیا ہوتا ہے۔ ایسا واقعہ حال ہی میں ڈیفنس کراچی میں پیش آیا، شکایت پر پولیس نے چھاپہ مار ایک شخص کو پکڑا ضرور مگر فوری بعد ہی تھانہ لے جاکر شخصی ضمانت پر رہا کردیا گیا کیونکہ یہاں قانون کا اطلاق بڑے لوگوں پر نہیں ہوتا۔
میڈیا میں اکثر خبریں آتی رہتی ہیں کہ رات کے وقت تھانوں پر موجود اہلکار نشے میں ہوتے ہیں ، جب کہ رات کو گشت کرنے والے اہلکار بھی بعض اوقات نشے میں چیکنگ کرتے ہیں۔ ان اہلکاروں کا لوگوں کی تلاشی لینا، لڑنا جھگڑنا اوراشارے پر نہ رکنے والی گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں پر فائرنگ کردینا بھی معمول ہے اور تھانوں میں آنے والوں کو بلاوجہ گالیاں دینا اور مارنا پیٹنا بھی ان اہلکاروں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔
بعض افسر یہ شوق اپنے گھر یا دوستوں کی محفل میں جاکر پوراکرلیتے ہیں، اس لیے ان کی شکایت نہیں ملتی جب کہ پولیس سے متعلق یہ شکایات میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ملک وقوم کی قیادت کرنے والے سیاستدان بھی کم نہیں ہوتے ہیں۔ایک سابق وزیراعظم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا تھا کہ ہاں میں شراب پیتا ہوں عوام کا خون تو نہیں پیتا۔ اس اعتراف نے تالیاں بہت بجائی تھیں۔
ایک سیاستدان کی شراب نوشی میں ایک صوبائی رہنما بھی موجود تھے جو شراب نہیں پیتے تھے مگر ان رہنما کو راقم نے خود دیکھا کہ مذکورہ محفل سے وہ شراب کا گلاس لے کر پریس گیلری میں آئے اور گلاس ایک صحافی کو پیش کیا تھا۔
حکومت نے ہر صوبے میں محکمہ ایکسائز قائم کر رکھا ہے، جس کا فرض منشیات کی فروخت روکنا ہے مگر ملک بھر میں منشیات کے غیرقانونی اڈے چلتے ہیں۔ ملک بھر میں ایکسائز پولیس اور ضلع پولیس موجود ہے جنھیں رشوت دے کر منشیات کراچی آتی ہیں اور بیرون ملک اسمگل ہوجاتی ہیں۔ منشیات روکنے کے لیے اے این ایس ایف اورکوسٹ گارڈ بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی سب کچھ ملتا ہے۔ شراب ام الخبائث قرار دی گئی ہے اور اسلام سمیت ہر مذہب میں حرام اور ممنوع ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ نہایت اہم اور تاریخی ہے جس کی تقلید پورے ملک میں ہونی چاہیے جس سے کرپشن اور جرائم میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔