پی ٹی آئی پی پی پی اور عوامی تحریک کا نیوز لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی پر عدم اعتماد

حکومتی کمیشن آئی واش کے سوا کچھ نہیں جسے کوئی بھی جماعت ماننے کو تیار نہیں، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ


ویب ڈیسک November 08, 2016
حکومتی کمیشن آئی واش کے سوا کچھ نہیں جسے کوئی بھی جماعت ماننے کو تیار نہیں، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ فوٹو؛ فائل

پاکستان تحریک انصاف کے بعد پیپلزپارٹی اور پاکستان عوامی تحریک نے بھی نیوز لیکس پر حکومت کی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے وزیر اطلاعات کو فارغ کرکے ثابت کردیا کہ سیکیورٹی لیکس میں حکومت کی کوتاہی اور حکومتی افراد ہی ملوث ہیں، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ انگریزی اخبارنے خبر لگانے سے پہلے ایک سینئر وزیر سے خبر کی تصدیق کی، اگر حکومت اس معاملے پرسنجیدہ ہوتی تو اپوزیشن سے ججز کے نام مانگے جاتے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ایسے اقدامات کیوں اٹھاتی ہے جس پر سوال اٹھتے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: تحریک انصاف کا سرل لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار

خورشید شاہ نے کہا کہ کمیشن کے لیے جس جج جسٹس رضا کا نام دیا گیا اس کی بیٹی شریف کالج میں وائس پرنسپل ہے اس لیے اس کمیشن کو کوئی بھی جماعت ماننے کو تیار نہیں جب کہ حکومتی کمیشن آئی واش کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ جوڈیشل کمیشن اس بات کو جھٹلائے گا کہ وزیرفارغ ہوا اور رپورٹر کا نام ای سی ایل سے نکالا گیا۔

دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک نے بھی کمیٹی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے جس میں کمیٹی کے سربراہ کی اہلیت اور اِس کمیٹی کے دائرہ کار کے بارے میں اعتراض کیا گیا ہے۔ عوامی تحریک کے وکیل اشتیاق چوہدری کا کہنا ہےکہ 1962 کے تحفظ پاکستان ایکٹ کے مطابق اِس معاملے کی تحقیقات سول ادارے نہیں بلکہ افواج پاکستان کر سکتی ہے۔ درخواست میں یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ پنجاب حکومت کے ملازم اور تنخواہ یافتہ شخص سے کیسے یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی کام کرے گا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سرل لیکس کی تحقیقات کیلیے کمیٹی تشکیل

واضح رہے کہ گزشتہ روز تحریک انصاف کے ترجمان نے بھی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم کی بجائے چیف جسٹس کو پیش کی جانی چاہیے اور اگر رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی گئی تو اس رپورٹ کا جسٹس باقر رپورٹ والا حال ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں