دیکھیںسیاست بچتی ہے یا ریاست

کچھ مقامی لوگ غیر ملکیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔وہ انھیں پناہ دیتے ہیں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

ayazkhan@express.com.pk

QUETTA:
حالات کس طرف جا رہے ہیں'کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ سیاسی جماعتوں نے غیرعلانیہ انتخابی مہم شروع کررکھی ہے، کہیں دھڑے بن رہے ہیں تو کہیں ٹوٹ رہے ہیں،یہ سرگرمیاں ظاہر کررہی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور الیکشن وقت پر ہوجائیں گے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے،کچھ پرانے چہرے پراسرار انداز میں سیاسی میدان میں کود رہے ہیں تو دوسری جانب دہشت گرد اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کراچی سے خیبر تک ہر طرف صرف تباہی اور بربادی کی نئی داستانیں لکھی جا رہی ہیں۔ خون کی روشنائی سے رقم ہونے والی یہ داستانیں مستقبل کی بہت بھیانک تصویر پیش کر رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے ملک کو جان بوجھ کر تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے ۔

پشاور اور خیبر پختونخوا کے دوسرے علاقوں میں خودکش حملے اور دھماکے یوں تو روٹین کی بات ہے لیکن ہفتے کی رات پشاور کے باچا خان ایئرپورٹ میں شدت پسندوں کے راکٹوں سے حملے نے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردوں کی فورس بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کی تیاری کیے ہوئے ہے، ان کا ہدف بھی اب واضح ہے۔پشاور ایئر پورٹ حملے میںمارے جانے والے 10دہشت گردوں کے بارے میں متضاداطلاعات ہیں۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ مارے جانے والے سارے ازبک تھے ، بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے نصف کا تعلق ازبک جنگجوئوں سے تھا، باقی دہشت گردوں کی شناخت ابھی ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ ان دہشت گردوں کا اصل ٹارگٹ پشاور ایئر پورٹ سے ملحقہ پاک فضائیہ کی ایئربیس تھی مگر وہ اس پر حملے میں ناکام رہے۔

سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ہم میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی کی تعریف کرنے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں کیونکہ ہمیں آدھا خالی گلاس تو نظر آجاتا ہے، آدھا بھرا ہوا نظر نہیں آتا۔ ایئرپورٹ پر حملے میں وسط ایشائی باشندوں کی شرکت یہ بتاتی ہے کہ ہمیں اس قسم کے یا شائد اس سے بھی زیادہ خوفناک حملوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ یہ سلسلہ کہاں جا کے تھمے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ماضی میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں وسط ایشائی باشندوں کی شرکت کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔کہیں کہیں عربوں کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے۔ان حقائق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غیرملکی پاکستان میں موجود ہیں، ظاہر ہے کہ انھیں یہاں پناہ دینے والے مقامی لوگ ہی ہوسکتے ہیں۔

یوں یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہمارے کچھ مقامی لوگ غیر ملکیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔وہ انھیں پناہ دیتے ہیں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ ان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر کوئی خود کش حملہ ہوسکتا ہے نہ دہشت گرد گروہ کی شکل میں کسی تھانے ، ایئر پورٹ یا حساس مقام پر دھاوا بول سکتے ہیں۔پاکستان کو بچانا ہے تو پھر غیرملکی دہشت گرد وں کے ساتھ ساتھ ان کے مددگار اپنوں کو سبق سکھانا پڑے گا۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر بقول جنرل مشرف پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے۔


ایک طرف دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں' دوسری طرف سیاسی منظر نامہ بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس پر بھی نئے سے نیا نقشہ ابھر رہا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور تیسری قوت یعنی عمران خان اپنی اپنی انتخابی مہم میں جتے ہوئے ہیں۔ صدر زرداری اور نواز شریف بڑی مہارت سے موجودہ جمہوری حکومت کی مدت پوری کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی حد سے زیادہ کمزور ہوا توگیم دونوں کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ نوے کی دہائی میں جتنی دوری بے نظیر اور نواز شریف میں تھی وہ اس دور میں نواز شریف اور صدر زرداری میں پیدا ہوجاتی توموجودہ جمہوری نظام کب کا اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکا ہوتا۔

الیکشن اب زیادہ دور نہیں ہیں لیکن آج بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وقت پر ہو جائیں گے۔ سال ڈیڑھ سال پہلے تک مڈ ٹرم یا وقت سے پہلے الیکشن کی بات کی جاتی تھی' اب زرداری صاحب اور ان کے ساتھی ہر روز یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ الیکشن مقررہ وقت سے ایک دن بھی آگے نہیں جائیں گے۔ بار بار کی یہ تکرار چغلی کھاتی ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں خوف کی کوئی کیفیت ضرور موجود ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک سال کے لیے الیکشن کا التواء چاہتی ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ن لیگ بھی ایسی ہی خواہش رکھتی ہے۔ ہو سکتا ہے ان باتوں میں تھوڑی بہت صداقت ہو یا ممکن ہے یہ محض قیاس آرائیاں ہوں۔ فوج کا اب تک جو کردار رہا ہے وہ تو یہی ہے کہ جمہوری نظام چلتا رہے۔ عدلیہ آزاد ضرور ہے لیکن وہاں سے بھی کوئی ایسا اشارہ اب تک نہیں ملا کہ وہ جمہوری سسٹم کو کوئی نقصان پہنچنے دے گی۔

عدلیہ کے کچھ فیصلے اور حکم ضرور قابل غور ہیں۔ بلوچستان حکومت اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں عبوری حکم سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ملک کے دو صوبوں کی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ اس نوٹس کے بعد کراچی اور اندرون سندھ ہونے والے احتجاج کے بعد بھی صورتحال کنٹرول سے باہر ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس احتجاج میں شدت پیدا ہوئی تو پھر الیکشن کیسے ہوں گے یہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا؟ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ الطاف حسین کا عدالت میں پیش ہونے کا امکان کم ہے۔ وہ پیش نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا' اس پر رائے نہ ہی دی جائے تو بہتر ہے۔ عدالت فیصلہ کرے گی تو ہی اس پر بات ہو سکتی ہے۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ایک دو سیاسی جماعتوں پر پابندی لگ جائے۔

کچھ اور پلیئر بھی میدان میں اترے ہیں یا اتارے جا رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل نے پاکستان بچانے کے لیے واہگہ تک مارچ بھی کر لیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کا بیڑہ غرق کرنے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ برابر کی شریک ہیں۔ چند دن بعد طاہرالقادری بھی واپس آنے والے ہیں۔ وہ سیاست کے بجائے ریاست بچانے آ رہے ہیں۔ گویا انھوں نے بھی موجودہ سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔ ان کے 23دسمبر کے جلسے کو تاریخی بنانے کے لیے بڑی محنت کی جا رہی ہے۔ سندھ میں قوم پرست جماعتیں اپنا علیحدہ علم اٹھائے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہیں۔ ابھی اور سرپرائز بھی عوام کے منتظر ہیں۔ دیکھیں سیاست بچتی ہے یا ریاست۔
Load Next Story