پالیسیاں کون بناتا ہے…
معاشی میدان میں صرف تعلیم پر توجہ ہی سے بہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
KARACHI:
پاکستان میں بظاہر ایک سول طرز حکمرانی ہے،جو پیپلزپارٹی کی مرہون منت ہے،مگر ہزارہا لوگ یہ بات سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری پالیسیاں بناتا کون ہے؟ اور دیگر اہم فیصلے کہاں ہوتے ہیں، ان سوالات کا تعلق براہ راست عوام کی روزمرہ کی زندگی، ان کے روزگار اور آنے والی نسلوں کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے اور یہ سوالات اہم سوالات ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے اب تک چار بجٹ آچکے ہیں یا پیش کیے جاچکے ہیں، چاروں ہی میں تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے لیے مختص کی گئی رقم کم سے کم ہوتی چلی گئی۔
غربت بذات خود صنعتی، زرعی، تجارتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتی ہے، معاشی میدان میں صرف تعلیم پر توجہ ہی سے بہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، ہم اپنے GDP کا صرف 1.7% حصہ تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں اور اس کے بعد صحت۔ میرے خیال میں ان دونوں شعبوں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ دیگر ممالک سے مقابلہ کرکے اپنی پیداواری اشیاء کو باہر کی منڈیوں تک رسائی دے جس سے زرمبادلہ میں اضافہ معاشی استحکام لائے گا،غیر ملکی سرمایہ کار وہیں اپنا پیسہ لگاتے ہیں جہاں مقامی لیبر پڑھا لکھا، صحت مند اور ہوشیار ہو، جہاں سماج میں رائج برائیاں کم ہوں، جہاں خود ترقی ہورہی ہو۔ جہاں سماجی انفرا اسٹرکچر یعنی سڑکیں، بجلی، گیس کا نظام بہترین ہو (کیا ایسا پاکستان میں ہے؟) ہمارے بجٹ میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم مختص ہی نہیں کی جاتی اس لیے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے بعد میں آزاد ہوئے ایشیائی ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں جن میں بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا کا نام قابل ذکر ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری پالیسیاں کسی خاص نقطے کو ذہن میں لے کر بنتی ہیں، اور بنتی ہیں تو ان کے اغراض و مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ کیا اسلام آباد میں بنتی ہیں؟ 'نہیں' کیا واشنگٹن میں بنتی ہیں؟ آواز آتی ہے ''جی''۔ امریکا کو یورپ والے بھی مہذب نہیں سمجھتے، ہماری اور آپ کی باری تو بعد میں آئے گی۔ کچھ عرصہ پہلے افغان جنگ سے متعلق امریکا کی ایک ویب سائٹ نے پینٹاگون کی خفیہ دستاویز دکھائی تھی جس پر بڑا شور بپا ہوا تھا، شاید آپ کو یاد ہو، ہلیری کلنٹن امریکی وزیر خارجہ نے برملا کہا تھا کہ یہ دستاویزات سرے سے منظر عام پر نہیں آنی چاہئیں تھیں ان سے امریکی فوجیوں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے اور سلالہ چیک پوسٹ پر جو ہمارے 26 فوجی بھائی مارے گئے تھے وہ ترقی یافتہ امریکا کو رات کی تاریکی میں دکھائی ہی نہیں دیے ، کہتے ہیں جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے، پینٹا گون کے سربراہ ہی نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کا رازوں سے پردہ ہٹانے کا مقصد جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔
امریکا کہاں ''جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے'' اور '' کہاں امن کا داعی ہے؟'' یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ریاست ہائے امریکا کے وجود کی بنیاد ہی مقامی آبادی کی نسل کشی ہے، یورپ سے جاکر ایک نئی دنیا پر قبضہ کرنے والوں نے وہاں کے مقامی اور اصلی باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا جن کو ہم اور آپ ''ریڈ انڈین'' کہتے ہیں وہ ہیں دراصل امریکا کے باشندے، اس کے بعد انھوں نے ہر قسم کے ظلم وستم کو اور تشدد کے ہر حربے کو اپنے لیے جائز قرار دیا اور کوئی دوسرا اپنے مذہب اور اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھائے تو وہ ''طالبان'' بن جاتا ہے۔ طالبان کو بھی امریکا نے روس کے خلاف جنگ میں استعمال کیا تھا جس کو اب وہ خطرہ قرار دے رہا ہے۔ گوانتاناموبے جیل میں ہونے والے قیدیوں پر تشدد کی تفصیلات جب کبھی سامنے آئیں گی انسانیت کا پرچار کرنے والوں کے چہروں پر ابلیسیت برسے گی اور عام لوگ ساری انسانیت پر ہونے والے مظالم کو بھول جائیں گے۔
بہرحال ہندوستانیوں کو تو 1857 کی جنگ آزادی کے دوران اور بعد میں مقامی لوگوں پر برطانوی سامراج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم تو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، کس طرح سے لوگوں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسی دیا کرتے تھے وہ ظلم وجبر ہماری غلامی کا حصہ ہے۔ دراصل امریکا کے دو رخ ہیں، ایک سامراج کا اور دوسرا عوام کا سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے امریکا حیوانیت کی سب سے نچلی سطح تک جاسکتا ہے اور جو بھی اس کے مقاصد میں آڑے آئے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے ، اس وقت ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جو 9/11 سے پہلے اتنی شدت سے نہیں تھا،اس وقت پاکستان میں بہت سے ایسے گروپ ہیں جن کی تربیت کشمیر میں لڑنے کے لیے کی گئی تھی اب پاکستان کے اندر وہ محاذ کھولے ہوئے ہیں اس میں تو دو رائے ہے ہی نہیں وہ اسکولوں، کالجوں کو تباہ کرتے پھر رہے ہیں، قبائلی علاقے میں حکومت کی رٹ اول تو موجود ہی نہیں ہے اگر ہے تو وہ حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، بھرے بازاروں میں، مساجد، مدرسوں پر خودکش حملے کر رہے ہیں۔ ضیاء الحق آمر کے دور سے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب اور ہندو دشمنی اور مسلسل ایسے لوگوں کو جو پاکستان کے اثاثے ہیں لیکن اقلیت میں ہیں تو ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جو غلط ہے ۔
لاکھوں ہندو پاکستان کے معزز شہری ہیں اور رہیں گے۔ڈاکٹر عبدالسلام نوبل انعام یافتہ سائنسدان جن کا تعلق قادیانی اقلیت سے تھا لیکن تھے تو وہ پاکستانی ہی، ان کو بھی سرے سے نظرانداز کردیا گیا ۔ نصاب تعلیم اب بھی پڑھایا بلکہ رٹایا جارہا ہے۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ یا دیگر صوبوں کے بک بورڈز کب آنکھیں کھولیں گے، ''دیکھ زمانہ چال قیامت کی چل گیا'' ایک دونی دو ، دو دونی چار سے باہر نکلیے اور وہ معیار تعلیم اپنایئے جو ساری دنیا میں رائج ہے، وہ نہیں جو پتھروں کے دور میں تھا، جو ہم پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں، آج وہی ہمارے بچے بھی پڑھ رہے ہیں۔
تعلیمی نصاب میں ہر مذہب سے پیار کا درس ملنا چاہیے، جیسے ہمارے آنحضرتؐ کی تعلیمات تھیں، ہم آغا خان بورڈ کو اچھا مان رہے ہیں، درحقیقت اس کی حقیقت آپ کو ابھی نہیں آیندہ دس سال کے بعد پتہ چلے گی، پیپلزپارٹی کی حکومت سے اور وفاقی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق صاحب سے استدعا ہے کہ وہ برائے مہربانی نصاب کو ترجیحی بنیادوں پر جدید اسلوب سے آراستہ و پیراستہ کریں۔ آج پاکستان جن مسائل کا شکار ہے ،وہ بے شمار داخلی اور خارجی عوامل کا نتیجہ ہے۔ لیکن ریاست کے نمائشی ہمدرد ادارے آئے دن صرف ایک پہلو پر زور دیتے رہے ہیں کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر تخلیق اور قائم ہوا ہے جو غیر مسلم دنیا بالخصوص ہندوستان کے لیے قبول نہیں ''نا ہو'' بلکہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد ان کی یہ خواہش مزید دو آتشہ ہوچکی ہے ،یہ سب کیا دھرا بیرونی قوتوں کا اور ان کی مداخلت کا ہے یا پھر کسی حد تک سول حکومتوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے، اسلام کی شیدائی مغربی طرز زندگی اپنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اسی لیے انھیں جیسے بھی ممکن ہو بدنام اور رسوا کیا جائے ۔
آزاد اقوام میں چین کے کردار پر کتابیں پڑھ رہا تھا ۔ جس میں ارتقائی کاوشوں سے لے کر سپر پاور بننے تک کے عوام کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس دور میں چین کے وزیر اعظم بس میں سوار ہوکر رعایا کی خیریت معلوم کیا کرتے تھے ہمارے یہاں کیا یہ ممکن ہے؟ قطعاً نہیں۔ ہماری معیشت تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی طرف سے ملنے والی امداد کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی اشرافیہ کے مفادات دن بدن امریکا کے لیے بڑھ رہے ہیں اور انھوں نے جب بھی جہاز ڈوبتے دیکھا تو فوراً ٹکٹ کٹوا کر امریکا یا یورپ کے دیگر ممالک بھاگ جائیں گے، یہ ہیں ہمارے سیاستدان، آخر دہری شہریت کب کام آئے گی؟ یہی ہماری اشرافیہ کا دوغلا پن ہے جو ہمیں ایک باعزت ملک اور باوقار قوم بننے نہیں دیتا، بقول انعام اللہ خان یقین:
دل چھوڑ گیا ہم کو' دلبر سے توقع کیا
اپنے نے کیا یہ کچھ ' بیگانے کو کیا کہیے
نظیر اکبر آبادی:
ہشیار یار جانی' یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
پاکستان میں بظاہر ایک سول طرز حکمرانی ہے،جو پیپلزپارٹی کی مرہون منت ہے،مگر ہزارہا لوگ یہ بات سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری پالیسیاں بناتا کون ہے؟ اور دیگر اہم فیصلے کہاں ہوتے ہیں، ان سوالات کا تعلق براہ راست عوام کی روزمرہ کی زندگی، ان کے روزگار اور آنے والی نسلوں کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے اور یہ سوالات اہم سوالات ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے اب تک چار بجٹ آچکے ہیں یا پیش کیے جاچکے ہیں، چاروں ہی میں تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے لیے مختص کی گئی رقم کم سے کم ہوتی چلی گئی۔
غربت بذات خود صنعتی، زرعی، تجارتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتی ہے، معاشی میدان میں صرف تعلیم پر توجہ ہی سے بہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، ہم اپنے GDP کا صرف 1.7% حصہ تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں اور اس کے بعد صحت۔ میرے خیال میں ان دونوں شعبوں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ دیگر ممالک سے مقابلہ کرکے اپنی پیداواری اشیاء کو باہر کی منڈیوں تک رسائی دے جس سے زرمبادلہ میں اضافہ معاشی استحکام لائے گا،غیر ملکی سرمایہ کار وہیں اپنا پیسہ لگاتے ہیں جہاں مقامی لیبر پڑھا لکھا، صحت مند اور ہوشیار ہو، جہاں سماج میں رائج برائیاں کم ہوں، جہاں خود ترقی ہورہی ہو۔ جہاں سماجی انفرا اسٹرکچر یعنی سڑکیں، بجلی، گیس کا نظام بہترین ہو (کیا ایسا پاکستان میں ہے؟) ہمارے بجٹ میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم مختص ہی نہیں کی جاتی اس لیے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے بعد میں آزاد ہوئے ایشیائی ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں جن میں بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا کا نام قابل ذکر ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری پالیسیاں کسی خاص نقطے کو ذہن میں لے کر بنتی ہیں، اور بنتی ہیں تو ان کے اغراض و مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ کیا اسلام آباد میں بنتی ہیں؟ 'نہیں' کیا واشنگٹن میں بنتی ہیں؟ آواز آتی ہے ''جی''۔ امریکا کو یورپ والے بھی مہذب نہیں سمجھتے، ہماری اور آپ کی باری تو بعد میں آئے گی۔ کچھ عرصہ پہلے افغان جنگ سے متعلق امریکا کی ایک ویب سائٹ نے پینٹاگون کی خفیہ دستاویز دکھائی تھی جس پر بڑا شور بپا ہوا تھا، شاید آپ کو یاد ہو، ہلیری کلنٹن امریکی وزیر خارجہ نے برملا کہا تھا کہ یہ دستاویزات سرے سے منظر عام پر نہیں آنی چاہئیں تھیں ان سے امریکی فوجیوں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے اور سلالہ چیک پوسٹ پر جو ہمارے 26 فوجی بھائی مارے گئے تھے وہ ترقی یافتہ امریکا کو رات کی تاریکی میں دکھائی ہی نہیں دیے ، کہتے ہیں جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے، پینٹا گون کے سربراہ ہی نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کا رازوں سے پردہ ہٹانے کا مقصد جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔
امریکا کہاں ''جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے'' اور '' کہاں امن کا داعی ہے؟'' یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ریاست ہائے امریکا کے وجود کی بنیاد ہی مقامی آبادی کی نسل کشی ہے، یورپ سے جاکر ایک نئی دنیا پر قبضہ کرنے والوں نے وہاں کے مقامی اور اصلی باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا جن کو ہم اور آپ ''ریڈ انڈین'' کہتے ہیں وہ ہیں دراصل امریکا کے باشندے، اس کے بعد انھوں نے ہر قسم کے ظلم وستم کو اور تشدد کے ہر حربے کو اپنے لیے جائز قرار دیا اور کوئی دوسرا اپنے مذہب اور اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھائے تو وہ ''طالبان'' بن جاتا ہے۔ طالبان کو بھی امریکا نے روس کے خلاف جنگ میں استعمال کیا تھا جس کو اب وہ خطرہ قرار دے رہا ہے۔ گوانتاناموبے جیل میں ہونے والے قیدیوں پر تشدد کی تفصیلات جب کبھی سامنے آئیں گی انسانیت کا پرچار کرنے والوں کے چہروں پر ابلیسیت برسے گی اور عام لوگ ساری انسانیت پر ہونے والے مظالم کو بھول جائیں گے۔
بہرحال ہندوستانیوں کو تو 1857 کی جنگ آزادی کے دوران اور بعد میں مقامی لوگوں پر برطانوی سامراج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم تو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، کس طرح سے لوگوں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسی دیا کرتے تھے وہ ظلم وجبر ہماری غلامی کا حصہ ہے۔ دراصل امریکا کے دو رخ ہیں، ایک سامراج کا اور دوسرا عوام کا سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لیے امریکا حیوانیت کی سب سے نچلی سطح تک جاسکتا ہے اور جو بھی اس کے مقاصد میں آڑے آئے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے ، اس وقت ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جو 9/11 سے پہلے اتنی شدت سے نہیں تھا،اس وقت پاکستان میں بہت سے ایسے گروپ ہیں جن کی تربیت کشمیر میں لڑنے کے لیے کی گئی تھی اب پاکستان کے اندر وہ محاذ کھولے ہوئے ہیں اس میں تو دو رائے ہے ہی نہیں وہ اسکولوں، کالجوں کو تباہ کرتے پھر رہے ہیں، قبائلی علاقے میں حکومت کی رٹ اول تو موجود ہی نہیں ہے اگر ہے تو وہ حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، بھرے بازاروں میں، مساجد، مدرسوں پر خودکش حملے کر رہے ہیں۔ ضیاء الحق آمر کے دور سے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب اور ہندو دشمنی اور مسلسل ایسے لوگوں کو جو پاکستان کے اثاثے ہیں لیکن اقلیت میں ہیں تو ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جو غلط ہے ۔
لاکھوں ہندو پاکستان کے معزز شہری ہیں اور رہیں گے۔ڈاکٹر عبدالسلام نوبل انعام یافتہ سائنسدان جن کا تعلق قادیانی اقلیت سے تھا لیکن تھے تو وہ پاکستانی ہی، ان کو بھی سرے سے نظرانداز کردیا گیا ۔ نصاب تعلیم اب بھی پڑھایا بلکہ رٹایا جارہا ہے۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ یا دیگر صوبوں کے بک بورڈز کب آنکھیں کھولیں گے، ''دیکھ زمانہ چال قیامت کی چل گیا'' ایک دونی دو ، دو دونی چار سے باہر نکلیے اور وہ معیار تعلیم اپنایئے جو ساری دنیا میں رائج ہے، وہ نہیں جو پتھروں کے دور میں تھا، جو ہم پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں، آج وہی ہمارے بچے بھی پڑھ رہے ہیں۔
تعلیمی نصاب میں ہر مذہب سے پیار کا درس ملنا چاہیے، جیسے ہمارے آنحضرتؐ کی تعلیمات تھیں، ہم آغا خان بورڈ کو اچھا مان رہے ہیں، درحقیقت اس کی حقیقت آپ کو ابھی نہیں آیندہ دس سال کے بعد پتہ چلے گی، پیپلزپارٹی کی حکومت سے اور وفاقی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق صاحب سے استدعا ہے کہ وہ برائے مہربانی نصاب کو ترجیحی بنیادوں پر جدید اسلوب سے آراستہ و پیراستہ کریں۔ آج پاکستان جن مسائل کا شکار ہے ،وہ بے شمار داخلی اور خارجی عوامل کا نتیجہ ہے۔ لیکن ریاست کے نمائشی ہمدرد ادارے آئے دن صرف ایک پہلو پر زور دیتے رہے ہیں کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر تخلیق اور قائم ہوا ہے جو غیر مسلم دنیا بالخصوص ہندوستان کے لیے قبول نہیں ''نا ہو'' بلکہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد ان کی یہ خواہش مزید دو آتشہ ہوچکی ہے ،یہ سب کیا دھرا بیرونی قوتوں کا اور ان کی مداخلت کا ہے یا پھر کسی حد تک سول حکومتوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے، اسلام کی شیدائی مغربی طرز زندگی اپنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اسی لیے انھیں جیسے بھی ممکن ہو بدنام اور رسوا کیا جائے ۔
آزاد اقوام میں چین کے کردار پر کتابیں پڑھ رہا تھا ۔ جس میں ارتقائی کاوشوں سے لے کر سپر پاور بننے تک کے عوام کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس دور میں چین کے وزیر اعظم بس میں سوار ہوکر رعایا کی خیریت معلوم کیا کرتے تھے ہمارے یہاں کیا یہ ممکن ہے؟ قطعاً نہیں۔ ہماری معیشت تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی طرف سے ملنے والی امداد کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی اشرافیہ کے مفادات دن بدن امریکا کے لیے بڑھ رہے ہیں اور انھوں نے جب بھی جہاز ڈوبتے دیکھا تو فوراً ٹکٹ کٹوا کر امریکا یا یورپ کے دیگر ممالک بھاگ جائیں گے، یہ ہیں ہمارے سیاستدان، آخر دہری شہریت کب کام آئے گی؟ یہی ہماری اشرافیہ کا دوغلا پن ہے جو ہمیں ایک باعزت ملک اور باوقار قوم بننے نہیں دیتا، بقول انعام اللہ خان یقین:
دل چھوڑ گیا ہم کو' دلبر سے توقع کیا
اپنے نے کیا یہ کچھ ' بیگانے کو کیا کہیے
نظیر اکبر آبادی:
ہشیار یار جانی' یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا