ہمالیائی چیلنج
بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ایسی قوم کے نمائندے ہیں جہاں اخلاقی اقدار پامال ہوتی جا رہی ہیں۔
SUKKUR:
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے فیصل آباد میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کے بعد جعلی ووٹوں اور ایجنسیوں کی معاونت سے انتخابات جیتنے والے بے نقاب ہوچکے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، دھونس، دھاندلی اور جعلی ووٹنگ نہیں ہوگی، انتخابات مکمل طور پر شفاف ہوں گے، اب تحصیل دار اور پٹواری کا دور ختم ہوگیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی سیاسی استحکام کے ضامن ہیں، اکثریت نہ ہونے کے باوجود آئینی مدت پوری کر رہے ہیں، کیونکہ صدر زرداری جمہوریت اور سیاسی مفاہمت کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کے نتیجے میں یہ حقیقت تو طشت ازبام ہوگئی کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کو سیاسی و انتخابی میدان میں شکست دے کر دیوار سے لگانے کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ملک کی خفیہ ایجنسیوں، مقتدر قوتوں اور ایوان صدر نے مشترکہ طور پر پلاننگ کے تحت پی پی پی مخالف قوتوں کو نوٹوں اور ووٹوں کی ''امداد'' فراہم کرکے مسند اقتدار پر بٹھایا۔ ن لیگ کا بھاری مینڈیٹ درحقیقت خفیہ ہاتھوں کی کارروائی کا ''کرشمہ'' تھا نہ کہ عام لوگوں کے ووٹوں کا نتیجہ اور اس ساری جادوگری کی ڈوریں ایوان صدر سے ہلائی جارہی تھیں۔ لیکن اب صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ ملک میں عدلیہ اور میڈیا مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی صورت میں ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن تمام اختیارات کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
سب سے اہم اور قابل فخر بات یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھا ہوا ہے اور کسی بھی سطح پر کسی بھی شکل میں فوج کا آج کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔ دوسری قابل بھروسہ بات یہ ہے کہ ایوان صدر میں غلام اسحاق خان کے قبیل کا کوئی بیورو کریٹ نہیں بلکہ ایک مکمل جمہوری و سیاسی شخصیت صدر آصف علی زرداری موجود ہیں جو جمہوریت سے گہری شعوری وابستگی رکھتے ہیں اورمفاہمت کی سیاست کے امین ہیں، ہرچندکہ وہ پی پی پی کے شریک چیئرمین ہیں لیکن انھوں نے ایوان صدرکو غیر جانبدار رکھنے کا دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے انتخابی مہم چلانے کی ذمے داری اپنے ہونہار سپوت بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کردی ہے جو اپنی والدہ اور ملک کے کروڑوں غریبوں، مفلوک الحال و پسماندہ طبقے کی نمایندہ آواز شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 27 دسمبر کو ہونے والی برسی کے موقعے پر پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ یعنی آیندہ انتخابات میں صدر زرداری الیکشن مہم میں کردار ادا نہیں کریں گے یوں مخالفین کو ان کے خلاف الزام تراشی کا موقع بھی نہیں مل سکے گا اور یہ ایک اچھی روایت کا آغاز ہوگا۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آیندہ الیکشن میں دھونس، دھاندلی اور جعلی ووٹنگ نہیں ہوگی، تحصیل دار اور پٹواری کا کردار ختم ہوگیا، الیکشن مکمل طور پر شفاف ہوں گے، عام انتخابات میں شفافیت کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ اسی حوالے سے جہاں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہوتا ہے وہیں امیدوار کے اثرورسوخ کے عمل دخل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی 65 فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں اورقصبوں میں آباد ہے اور خواندگی کی شرح بھی 50 فیصد سے کم ہے جس کے باعث لوگوں کے سیاسی شعوروآگاہی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ دیہی آبادیوں کی اکثریت آج بھی زمین داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر اثر ہیں، برادریاں اور گروپ بندیاں بھی انتخابی عمل میں اثرانداز ہوتی ہیں، بااثر لوگ ووٹروں کو ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر ڈرا دھمکا کے مجبور کرتے ہیں۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں پنجاب کے مختلف علاقوں کے نتائج اسی صورت حال اور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ کیا آیندہ انتخابات ایک پرسکون، پرامن اور آزادانہ و غیر جانبدارانہ ماحول میں ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کلی طور پر شفاف طریقے سے منعقد ہوسکیں گے؟ کیا شکست خوردہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو اخلاص نیت اور صدق دل سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلیم کرلیں گی؟ کیا چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم واقعی فسادات سے مبرا،گولیوں اور بارود کی گونج سے پاک، پرامن ماحول میں ایسے شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے جن پر ''جھرلو'' اور ''دھاندلیوں'' کے الزامات کا شائبہ تک نہ ہو؟ ان سارے سوالات کا موجودہ حالات میں جس کا مظاہرہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کیا گیا ہاں میں جواب دینا آسان نہیں ۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ایسی قوم کے نمائندے ہیں جہاں اخلاقی اقدار پامال ہوتی جا رہی ہیں سیاست سے صحافت تک اور قیادت تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ ظرفی، صبر، تحمل، برداشت کا فقدان ہے۔ مقابلہ کوئی بھی ہو شکست تسلیم کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں۔ گزشتہ عام انتخابات سال 2008 کے موقعے پر پاکستان آنے والی یورپی یونین مبصرین کی ٹیم کے سربراہ مشیل گالر سے جب پاکستان کے انتخابی عمل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے برملا کہا کہ یہاں ہارنے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں جس پارٹی کا امیدوار جیت جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ انتخابات درست ہوئے، کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، جب کہ شکست خوردہ امیدوار دھاندلی کے مبینہ الزامات لگاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے کے لیے مختلف طریقہ کار تو ہو نہیں سکتا لہٰذا امیدواروں کو شکست تسلیم کرنے کا کلچر اپنانا ہوگا۔ گویا ہمیں ایک ایسے شفاف نظام انتخاب کی ضرورت ہے جو ہر قسم کی دھاندلی کے امکانات سے پاک صاف ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ ووٹر لسٹوں سے لے کر بیلٹ پیپر کی ووٹروں تک فراہمی اور انتخابی عملے سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک کے جملہ انتخابی مراحل میں اصلاحات کی جائیں اور انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ پٹواریوں، تحصیل داروں، امیدواروں اور با اثر افراد کی انتخابی عمل میں مداخلت کو روکا جاسکے۔ موجودہ حکومت نے شفاف انتخابات کے انعقاد کا عزم کر رکھا ہے۔ صدر زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ ملک میں قطعی طور پر آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے اسی باعث اپوزیشن کی مشاورت سے الیکشن کمشنر کا تقرر کیا گیا ہے لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، جمہوریت کے تسلسل اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے شفاف و غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ضروری ہے جو حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کے لیے ''ہمالیائی چیلنج'' ہے۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے فیصل آباد میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کے بعد جعلی ووٹوں اور ایجنسیوں کی معاونت سے انتخابات جیتنے والے بے نقاب ہوچکے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، دھونس، دھاندلی اور جعلی ووٹنگ نہیں ہوگی، انتخابات مکمل طور پر شفاف ہوں گے، اب تحصیل دار اور پٹواری کا دور ختم ہوگیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی سیاسی استحکام کے ضامن ہیں، اکثریت نہ ہونے کے باوجود آئینی مدت پوری کر رہے ہیں، کیونکہ صدر زرداری جمہوریت اور سیاسی مفاہمت کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کے نتیجے میں یہ حقیقت تو طشت ازبام ہوگئی کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کو سیاسی و انتخابی میدان میں شکست دے کر دیوار سے لگانے کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ملک کی خفیہ ایجنسیوں، مقتدر قوتوں اور ایوان صدر نے مشترکہ طور پر پلاننگ کے تحت پی پی پی مخالف قوتوں کو نوٹوں اور ووٹوں کی ''امداد'' فراہم کرکے مسند اقتدار پر بٹھایا۔ ن لیگ کا بھاری مینڈیٹ درحقیقت خفیہ ہاتھوں کی کارروائی کا ''کرشمہ'' تھا نہ کہ عام لوگوں کے ووٹوں کا نتیجہ اور اس ساری جادوگری کی ڈوریں ایوان صدر سے ہلائی جارہی تھیں۔ لیکن اب صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ ملک میں عدلیہ اور میڈیا مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی صورت میں ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن تمام اختیارات کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
سب سے اہم اور قابل فخر بات یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھا ہوا ہے اور کسی بھی سطح پر کسی بھی شکل میں فوج کا آج کی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔ دوسری قابل بھروسہ بات یہ ہے کہ ایوان صدر میں غلام اسحاق خان کے قبیل کا کوئی بیورو کریٹ نہیں بلکہ ایک مکمل جمہوری و سیاسی شخصیت صدر آصف علی زرداری موجود ہیں جو جمہوریت سے گہری شعوری وابستگی رکھتے ہیں اورمفاہمت کی سیاست کے امین ہیں، ہرچندکہ وہ پی پی پی کے شریک چیئرمین ہیں لیکن انھوں نے ایوان صدرکو غیر جانبدار رکھنے کا دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے انتخابی مہم چلانے کی ذمے داری اپنے ہونہار سپوت بلاول بھٹو زرداری کے حوالے کردی ہے جو اپنی والدہ اور ملک کے کروڑوں غریبوں، مفلوک الحال و پسماندہ طبقے کی نمایندہ آواز شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 27 دسمبر کو ہونے والی برسی کے موقعے پر پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ یعنی آیندہ انتخابات میں صدر زرداری الیکشن مہم میں کردار ادا نہیں کریں گے یوں مخالفین کو ان کے خلاف الزام تراشی کا موقع بھی نہیں مل سکے گا اور یہ ایک اچھی روایت کا آغاز ہوگا۔
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آیندہ الیکشن میں دھونس، دھاندلی اور جعلی ووٹنگ نہیں ہوگی، تحصیل دار اور پٹواری کا کردار ختم ہوگیا، الیکشن مکمل طور پر شفاف ہوں گے، عام انتخابات میں شفافیت کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ اسی حوالے سے جہاں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہوتا ہے وہیں امیدوار کے اثرورسوخ کے عمل دخل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی 65 فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں اورقصبوں میں آباد ہے اور خواندگی کی شرح بھی 50 فیصد سے کم ہے جس کے باعث لوگوں کے سیاسی شعوروآگاہی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ دیہی آبادیوں کی اکثریت آج بھی زمین داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر اثر ہیں، برادریاں اور گروپ بندیاں بھی انتخابی عمل میں اثرانداز ہوتی ہیں، بااثر لوگ ووٹروں کو ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر ڈرا دھمکا کے مجبور کرتے ہیں۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں پنجاب کے مختلف علاقوں کے نتائج اسی صورت حال اور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ کیا آیندہ انتخابات ایک پرسکون، پرامن اور آزادانہ و غیر جانبدارانہ ماحول میں ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کلی طور پر شفاف طریقے سے منعقد ہوسکیں گے؟ کیا شکست خوردہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو اخلاص نیت اور صدق دل سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسلیم کرلیں گی؟ کیا چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم واقعی فسادات سے مبرا،گولیوں اور بارود کی گونج سے پاک، پرامن ماحول میں ایسے شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے جن پر ''جھرلو'' اور ''دھاندلیوں'' کے الزامات کا شائبہ تک نہ ہو؟ ان سارے سوالات کا موجودہ حالات میں جس کا مظاہرہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کیا گیا ہاں میں جواب دینا آسان نہیں ۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان ایسی قوم کے نمائندے ہیں جہاں اخلاقی اقدار پامال ہوتی جا رہی ہیں سیاست سے صحافت تک اور قیادت تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ ظرفی، صبر، تحمل، برداشت کا فقدان ہے۔ مقابلہ کوئی بھی ہو شکست تسلیم کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں۔ گزشتہ عام انتخابات سال 2008 کے موقعے پر پاکستان آنے والی یورپی یونین مبصرین کی ٹیم کے سربراہ مشیل گالر سے جب پاکستان کے انتخابی عمل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے برملا کہا کہ یہاں ہارنے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں جس پارٹی کا امیدوار جیت جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ انتخابات درست ہوئے، کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، جب کہ شکست خوردہ امیدوار دھاندلی کے مبینہ الزامات لگاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے کے لیے مختلف طریقہ کار تو ہو نہیں سکتا لہٰذا امیدواروں کو شکست تسلیم کرنے کا کلچر اپنانا ہوگا۔ گویا ہمیں ایک ایسے شفاف نظام انتخاب کی ضرورت ہے جو ہر قسم کی دھاندلی کے امکانات سے پاک صاف ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ ووٹر لسٹوں سے لے کر بیلٹ پیپر کی ووٹروں تک فراہمی اور انتخابی عملے سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک کے جملہ انتخابی مراحل میں اصلاحات کی جائیں اور انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ پٹواریوں، تحصیل داروں، امیدواروں اور با اثر افراد کی انتخابی عمل میں مداخلت کو روکا جاسکے۔ موجودہ حکومت نے شفاف انتخابات کے انعقاد کا عزم کر رکھا ہے۔ صدر زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ ملک میں قطعی طور پر آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے اسی باعث اپوزیشن کی مشاورت سے الیکشن کمشنر کا تقرر کیا گیا ہے لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، جمہوریت کے تسلسل اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے شفاف و غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ضروری ہے جو حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں کے لیے ''ہمالیائی چیلنج'' ہے۔