روی شنکر‘ ایک عہد ساز ستار نواز

دیگر ہندو فنکاروں کی طرح روی شنکر کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت بڑا ہاتھ مسلمان استادان فن کا تھا۔

S_afarooqi@yahoo.com

WASHINGTON:
بنارس جسے سنسکرت بھاشا میں واراں ڈسی کے نام سے پکارا جاتا ہے، دریائے گنگا کے کنارے آباد ہندوؤں کا ایک انتہائی مقدس شہر ہے۔ دنیا بھر کے عقیدت مند ہندو یہاں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے نہیں بلکہ نہانے کے لیے آتے ہیں تاکہ ان کے پاپ دھل جائیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے جو یاتری بنارس کے ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں وہ اپنے پاپوں (گناہوں) سے نہیں بلکہ اپنی نقدی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بنارس اپنے ٹھگوں کے علاوہ اپنے ذائقہ دار خوشبو والے پانوں کے لیے بھی بڑا مشہور ہے۔

مگر اس کی ایک اور وجہ شہرت یہاں کی منفرد اور دیدہ زیب ساڑھیاں ہیں جنھیں باذوق خواتین بے حد پسند کرتی ہیں۔ بنارس سے ہجرت کرکے آنے والے ساڑھیوں کے ماہرکاریگروں نے کراچی کے ایک علاقے میں ایک بستی آباد کردی ہے جس کا ایک چوراہا بنارس چوک کے نام سے مشہور ہے اور تو اور بعض لوگوں نے بنارس کی شہرت سے متاثر ہوکر اپنے نام بنارسی داس اور بنارس خان رکھ لیے ہیں۔ مگر روی شنکر اس باکمال فنکاری کا نام ہے جس نے اپنی کلا کے جادو سے بنارس کا نام چاردانگ عالم میں ہمیشہ کے لیے روشن کردیا ہے۔

چند روز قبل 92 سال کی عمر تک دنیا بھر میں اپنی فنکاری کا ڈنکا بجانے کے بعد اس دار فانی سے کوچ کرکے پرلوک سدھار نے والے اس عظیم فنکار کا جنم 1920 میں بنارس میں ہوا تھا۔ وہ مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی مہذب باپ شیام شنکر کے لائق وفائق سپوت تھے۔ اگرچہ ان کے والد کی زندگی کا بیشتر حصہ لندن، جنیوا اور نیویارک میں گزرا، لیکن روی شنکر کی زندگی کے ابتدائی سال بنارس کی پرکیف فضا میں بیتے۔

روح کی غذا موسیقی کی پہلی خوراک انھیں یہیں میسر آئی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب ان کے بڑے بھائی ادے شنکر نے جو لندن کے مشہور زمانہ رائل کالج آف آرٹ میں مصوری سیکھ رہے تھے، انھیں فن کی دولت سے مالا مال مغربی دنیا سے متعارف کرایا۔ 1930میں روی شنکر جی کا خاندان پیرس جاکر آباد ہوگیا جو فن و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ اس وقت روی شنکر کی عمر صرف 10 سال تھی، مگر پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں والی پرانی کہاوت ان پر حرف بہ حرف صادق آئی اور جلد ہی ان کے جوہر کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے، جن کا بھرپور مظاہرہ انھوں نے پیرس، لندن، پراگ، جرمنی اور نیویارک میں کیا۔

اگرچہ روی شنکر کو لازوال شہرت ستار نوازی کی وجہ سے ملی، لیکن انھیں ستار کے علاوہ دیگر سازوں مثلاً سرود، سارنگی اور طبلے وغیرہ پر بھی دسترس حاصل تھی اور وہ اپنے بھائی ادے شنکر کے رقاص طائفے میں بھی شامل تھے۔ مگر گلوکارہ لتا منگیشکر سمیت ہندوستان کے دیگر ہندو فنکاروں کی طرح روی شنکر کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت بڑا ہاتھ مسلمان استادان فن کا تھا۔ بابا علاؤالدین خان ان کے اصل گرو تھے۔ جی ہاں وہی استاد علاؤ الدین خان جو عظیم سرود نواز اور دنیا بھر میں مشہور فنکار علی اکبر خان کے والد تھے۔ راگ اور راگنیوں کی باریکیوں کو روی شنکر نے علی اکبر خان کے ساتھ علاؤالدین خان کی جوتیوں میں بیٹھ کر سیکھا۔


عظیم استاد کے ان دونوں نامور شاگردوں نے ستار اور سرود پر ایک ساتھ کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جگل بندی سے سامعین کے دل جیتے۔روی شنکر ترقی اور مقبولیت کے زینے تیزی سے طے کرتے ہوئے بام عروج پر پہنچے اور 1940 کے اواخر میں آل انڈیا ریڈیو کی ایکسٹرنل سروسز میں ڈائریکٹر آف میوزک کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیے گئے۔ 1960 کی دہائی میں روی شنکر نے یورپ اور امریکا کے موسیقی کے حلقوں میں دھوم مچادی۔ 1967 میں یہودی وائلن نواز مینوہن اور استاد اللہ رکھا خان کے ساتھ مل کر انھوں نے اقوام متحدہ میں سب پر وجد طاری کردیا۔ مغرب کے کلاسیکی اور جیز (Jazz) کلا کاروں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کے بعد چل سو چل والا معاملہ ہوا اور دنیا کے کونے کونے میں ان کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے جس میں کارنیگی ہائی کی یادگار محفل بھی شامل تھی۔انھوں نے 1954 میں روس میں اپنی پہلی سولو پرفارمنس سے سماں باندھ دیا۔

اس عرصے میں ان کی دوستی مغرب کے جارج ہیریسن اور بیٹلز جیسے موسیقاروں کے ساتھ ہوگئی جنہوں نے ان سے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے رجحان ساز فلم ساز ستیہ جیت رے کے لیے لافانی دھنیں کیں اور انورادھا اور گودان جیسی فلموںکے لیے موسیقی دی، جن کی شہرت کے چرچے آج بھی ہوتے ہیں۔ 1945میں انھوں نے علامہ اقبال کے تحریر کیے ہوئے ترانے ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' کو اپنی خوبصورت دھن سے سجا کر اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے، ان کی فنکاری کا دور ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔ یہ نصف صدی سے بھی بڑا قصہ ہے۔ اس دوران انھیں بے شمار ایوارڈ اور اعزازات ملے جن میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، ہندوستان کا سب سے بڑا صدارتی تمغہ پدم شری، پدم بھوشن، فلم گاندھی میں آسکر کے لیے نامزدگی اور دنیا بھر کے موسیقی کے اداروں سے جامعات سے ملنے والے ان گنت ایوارڈ اور اعزازات شامل ہیں۔ نئی دہلی میں ان کے نام پر قائم روی شنکر سینٹر ان کی عظمت کا جیتا جاگتا یادگار ادارہ ہے جہاں موسیقی کے طلبا کو کلاسیکی موسیقی پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے۔ بلاشبہ روی شنکر ایک نابغہ فنکار تھے جن کا نام رہتی دنیا تک باقی اور روشن رہے گا۔ بے قول غالبؔ:

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

مگر دنیا بڑے فنکاروں سے ابھی خالی نہیں ہوئی۔ عظیم ستار نوازوں کی صف میں ولایت علی خان، امرت خان، رئیس خان اور نکھل بنرجی جیسے نامی گرامی فنکار شامل ہیں جن کے دم قدم سے ستار کی جھنکار سے سارا سنسار گونج رہا ہے۔ ستار وہ ساز ہے جو دل کے تاروں کو چھو لیتا ہے اور سننے والے پر سحر کی سی کیفیت طاری کردیتا ہے۔

ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ استاد رئیس خاں جیسے لاثانی فنکار ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ یہ بہا خزانہ ہمیں نامور گلوکارہ بلقیس خانم کے توسط سے میسر آیا ہے ورنہ تو یہ قیمتی سرمایہ بھی ہندوستان میں ہی ہوتا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ان کے ورثے کی صورت میں ان کے باصلاحیت صاحبزادے فرحان خان اور اشرف شریف خان جیسے ستار نواز بھی موجود ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل تہذیب فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کراچی میں منعقدہ شاندار ستار فیسٹیول میں اپنے اپنے فن کا جادو جگایا تھا۔ مگر بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں فن اور فنکاروں کی وہ قدر و قیمت نہیں ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ اسی ناقدری کے ہاتھوں مجبور ہوکر استاد بڑے غلام علی خاں کو ترک وطن کرکے ہندوستان جانا پڑا جہاں انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ان کی قدر و منزلت ہوئی۔

روی شنکر بڑے باکمال آدمی تھے۔ ان کی رسمی اسکول تعلیم کا دورانیہ صرف چار سال تک محدود تھا لیکن لگتا تھا کہ وہ علم کا سمندر ہیں۔ 12 برس کی چھوٹی سی عمر میں جسے بالی عمریا کہا جاتا ہے انھوں نے اپنے رقص سے پوری محفل کو مبہوت کرکے رکھ دیا جس کی تعریف و تحسین امریکا کے مشہور اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے ریویو میں بڑے پرزور الفاظ میں کی تھی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی رقص کی تربیت نے ہی انھیں ایک منفرد ستار نواز بنایا، 1938میں شوبزنس کو ٹھکرا کر انھوں نے اپنے استاد علاؤالدین خان کی سرپرستی میں اپنی سات سالہ تربیت کا آغاز کیا اور ان کے روز و شب اپنے استاد کے ہی زیر سایہ گزرے۔ ان کی فنکاری کا ایک بہت بڑا اور قابل ذکر کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے کرناٹک (جنوبی ہندی) موسیقی کے کئی رنگ شمالی ہندکی موسیقی میں نہایت خوبصورتی سے سمو کر ایک دلکش قوس قزح تخلیق کردی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سر تال کو ریاضی کی ڈوری کے ساتھ باندھ دیا۔ ان کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ ان کی موسیقی کی محفلوں میں طبلہ نواز کو ایک خصوصی مقام حاصل ہوتا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انھیں ''ہندوستان کا خزانہ'' کہا ہے جب کہ ان کے ہم عصر اور مدمقابل استاد رئیس خان کا کہنا ہے کہ وہ بڑے ذہن اور باکمال فنکار تھے، جنہوں نے ستار کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا اور پروان چڑھایا۔
Load Next Story