نیابتی جمہوریت سے انقلاب فرانس تک
کہا جاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا، لیکن پاکستان کا مومن 1970 سے اب تک بار بار ڈسا جارہا ہے۔
ملک میں جمہوری کھیل کے آغاز کا باضابطہ اعلان ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ اور اسمبلیوں کے توڑے جانے کے بعد آئین کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا مشورہ بھی سنادیا ہے۔ اس اعلان کے بعد وہ شکوک و شبہات ختم ہوگئے ہیں جو وقت پر الیکشن ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے پائے جاتے تھے۔سیاسی، دانشورانہ اور صحافتی حلقوں میں اس بات پر حیرت اور خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ملک کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے اور ایک سول حکومت سے دوسری سول حکومت کو اقتدار پرامن طور پر منتقل کرنے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔
ویسے تو یہ اعزاز اور افتخار حکومت، اپوزیشن اور جی ایچ کیو میں تقسیم کیا جارہا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس اعزاز کی اصل مستحق ہمارے زرداری بھائی کی وہ ''مفاہمتی پالیسی'' ہے جو قدم قدم پر پتھروں کو پگھلا کر موم بناتی رہی ہے۔ مجھے اس موقعے پر شکتی کپور کا ایک جملہ بار بار یاد آرہا ہے جسے وہ ساری فلم کے دوران دہراتا رہتا ہے ''میں وہ بلا ہوں جو شیشے سے پتھر کو توڑدے۔'' سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی آگ ایسی تیز ہوتی ہے کہ پتھر کا جگر پانی کردیتی ہے اور یہ دولت 2013 کے انتخابات میں بھرپور طریقے سے استعمال ہوکر ایسے معجزے دکھائے گی کہ جمہوریت اور جمہور دونوں ہی نہال ہوجائیں گے۔
اگر 1970 سے 2008 تک ہونے والے انتخابات اور انتخابی مہموں کے دوران ہمارے محترم سیاستدانوں کے دعوؤں اور وعدوں کا ری پلے دیکھا جائے تو موجودہ انتخابات کے مقاصد نتائج اور''ڈلیوری'' کی اصل شکل سامنے آجائے گی اور بے چارے عوام کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا، لیکن پاکستان کا مومن 1970 سے اب تک بار بار ڈسا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟ سانپوں کی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں اور ان رنگا رنگ قسموں کو پسماندہ ملکوں کے انتخابات میں ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے، ہوسکتا ہے ان مقابلوں میں کچھ نیولے، کچھ گرگٹ وغیرہ بھی شامل ہوں، لیکن اصل مقابلہ تو ناگوں، دھامنوں کے درمیان ہی ہوتا ہے یہی سارے کیڑے سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ نظام کے سوراخوں سے باہر آتے ہیں اور عوام کے سامنے رقص کرکے انھیں ایسا بے خود بنا دیتے ہیں کہ انھیں یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
2013 کے الیکشن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے ایک ایسا سیدھا ایماندار اور ہٹ کا پکا چیف الیکشن کمشنر ملا ہے جس پر ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں اعتماد کا اظہارکررہی ہیں۔ فخرو بھائی اس حوالے سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ وہ غالباً پہلے چیف الیکشن کمشنر ہیں جنھیں ساری سیاسی مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ فخرو بھائی پورے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر صاف شفاف اور آزادانہ انتخابات کرائیں گے، فخرو بھائی اپنے ان دعوؤں میں یقینا مخلص ہوں گے لیکن ہمارے سیاسی فنکار بے ایمانیوں، دھاندلیوں میں جو مہارت رکھتے ہیں اس کے سامنے فخرو بھائی کا اعتماد فخرو بھائی کا یقین محکم شرمندہ ہوسکتا ہے۔
ملک کی بڑی پارٹیوں کے بڑے رہنما روایت کے مطابق ایسے خوش کن دعوے کر رہے ہیں جو وہ ہر الیکشن کے موقعے پر کرتے آئے ہیں، لیکن عوام کے موڈ کا اندازہ کرکے اس بار ان کے دعوؤں میں ایک دلچسپ دعویٰ یہ بھی شامل ہے کہ وہ عوام کی تقدیر بدل دیں گے اور انقلاب لائیں گے۔ اہل سیاست کا تو کام ہی عوام کو سبز باغ دکھانا ہوتا ہے لیکن ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے محترم فخرو بھائی بھی 2013 کے انتخابات کو ایسا انقلاب کہہ رہے ہیں جو ملک کو خوشحال کردے گا۔ فخرو بھائی ایک شریف آدمی ہیں اور اپنی سادہ لوحی میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی زیر نگرانی ہونے والے انتخابات ملک کو خوش حال بنا دیں گے، ہوسکتا ہے یہ شریفوں کے انقلاب کی دھمک کا اثر ہو، لیکن ہمارے شریف اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ 98 فیصد عوام کی خوش حالی 2 فیصد خواص کی بدحالی سے مشروط ہے اور کوئی بھی شریف ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ 98 فیصد بھوکوں ننگوں کی خوش حالی کے لیے اپنے آپ کو بدحال بنالے۔ موجودہ انتخابات کی ایک نئی بات یہ ہے عمران خان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا سونامی سارے چوروں لٹیروں کو بہالے جائے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ عمران خان کو ان چوروں لٹیروں کی انتخابی مہارتوں کا قطعی اندازہ نہیں، یہ وہ بلا ہیں جو شیشے سے پتھر کو توڑ دیتی ہے، دیکھتے ہیں عمران خان کا شیشہ پتھروں کا کس طرح مقابلہ کرتا ہے؟
دنیا کا کوئی عوام دوست انسان کسی ایسے نظام کی مخالفت نہیں کرسکتا جس میں عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہو، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایسی اشرافیائی جمہوریت میں عوام کی بھلائی، عوام کے مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں جو عوام کے خون پر پلتی ہے۔ مغربی ملکوں میں اگرچہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن پسماندہ ملکوں خاص طور پر پاکستان میں یہ جمہوریت چند لٹیرے خاندانوں کی میراث بن گئی ہے اور ان لٹیروں کی لوٹ مار کی داستانوں سے سارا میڈیا بھرا پڑا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ خود عوام اور خواص میں اس جمہوریت کے سیلاب میں بہے چلے جارہے ہیں کسی کی تو یہ ذمے داری ہے کہ وہ سیلاب کی قہر سامانیوں سے عوام کو باخبر کرتا رہے۔
جدید جمہوریت کا ماخذ روسو کا عمرانی معاہدہ ہے۔ روسو کے اس عمرانی معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت چونکہ خود براہ راست حکومت نہیں چلا سکتی اس لیے وہ ایک معاہدے کے ذریعے اپنے تمام اختیارات حکومت یا ریاست کو سونپ دیتی ہے۔ چونکہ یہ حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے اس لیے اختیارات عوام ہی کے پاس ہوتے ہیں اس نیابتی حکومت کو روسو نے جمہوریت کا نام دیا ہے۔ 1972 میں جنیوا میں پیدا ہونے والے روسو کو ملالہ یوسف زئی کی طرح شہرت اس کے معاہدہ عمرانی کی وجہ سے ملی۔ ہر نظریہ، ہر فلسفہ اپنے دور کے تقاضوں کا عکاس ہوتا ہے، ہوسکتا ہے اٹھارہویں صدی کی ابتدا میں روسو کا معاہدہ عمرانی ناگزیر حقیقت رہا ہو لیکن ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بھی نیابتی جمہوریت عوام کو معاشی انصاف سماجی مساوات نہ دے سکی، پسماندہ ملکوں کا تو ذکر ہی بے کار ہے۔
دنیا میں نیابتی جمہوریت کے حوالے سے شہرت کے امتحان پر پہنچنے والے اس روسو کو 1789 کے انقلاب فرانس کا بانی اور محرک بھی کہا جاتا ہے اور انقلاب فرانس اپنی اصل میں اشرافیہ کے خلاف وہ خونی بغاوت تھی جس میں فرانس کے عوام نے امراء اور جاگیرداروں کو چن چن کر قتل کیا۔ دنیا کے انقلابوں کی تاریخ میں انقلاب فرانس اسی لیے سب سے زیادہ مشہور انقلاب ہے جو اشرافیہ کی لوٹ مار کے خلاف عوام کی وہ ناگزیر بغاوت تھا جس کے بغیر لٹیروں سے نجات ممکن نہ تھی۔