کرپشن میں 33 واں نمبر ہمیں منظور نہیں

آخر کرپشن میں 33 واں نمبر کیوں؟ امپاسیبل، کہیں نہ کہیں کوئی گھپلہ ضرور ہوا ۔

barq@email.com

وہ خبر آپ نے بھی پڑھ لی ہو گی جس پر آج کل پاکستان کے کچھ حلقوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے، یہ خبر اس بین الاقوامی درجہ بندی سے متعلق ہے جس میں پاکستان کو کرپشن میں 33 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اکثر لوگ تو اسے صریح پاکستان دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں بلکہ کچھ حلقوں میں تو واضح طور پر ''یہود و ہنود'' کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔

آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی محنت اور کوششوں کے بعد ہمارا نمبر 33 واں ہو، جب کہ باقی بہت سارے معاملات میں ہمارا نمبر اچھا خاصا حوصلہ افزاء ہوتا ہے۔کرکٹ میں ہم اگر نمبر ون نہیں تو دوسرا یا تیسرا تو یقیناً ہے، ہاکی میں بھی تقریباً اتنے ہی نمبر ہمارے ہوں گے، ایٹمی طاقت ہونے والوں میں بھی ہمارا نمبر زیادہ سے زیادہ پانچواں یا چھٹا ہو گا، زیادہ وزیر رکھنے کے معاملے میں تو ہم (A-1) کے استھان پر ہیں، سکوائش میں بھی ہم نمبر ون نہیں تو اتنا پیچھے نہیں ہے تو پھر آخر کرپشن میں 33 واں نمبر کیوں؟ امپاسیبل، کہیں نہ کہیں کوئی گھپلہ ضرور ہوا بلکہ ہمیں تو اس میں یہود و ہنود کی سازش کی ''بو'' سنگھائی دے رہی ہے، یہود و ہنود ہر معاملے میں ہماری ٹانگ کھنیچنے سے نہیں چوکتے، چنانچہ اس نمبرنگ میں بھی ان کا ہاتھ یقیناً ہو گا، شبہ ہمیں اسلیے بھی ہے کہ ہم نے گذشتہ ساٹھ ستر سال میں جتنی محنت کرپشن بڑھانے کے لیے کی ہے، اتنی اور کسی بھی کام کے لیے نہیں کی۔ ہمارے لیڈر، ہمارے افسر، ہمارے محکمے اور ادارے ہمارے چھوٹے بڑے افسر بلکہ اوپر سے نیچے تک ہر اہل کار اس معاملے میں پیش پیش رہا ہے خصوصاً لیڈروں نے تو اپنے پورے پورے خاندان اس قومی کام میں جھونک دیے ہیں، پھر بھی نہ ایک واں نہ دسواں نہ بیسواں بلکہ تیتیسواں مقام؟یہ تو ہو نہیں سکتا... ناممکن... اتنا پیچھے اور بھی پاکستان۔ یہ ہوائی کسی دشمنی نے اڑائی ہو گی۔

جب سے یہ خبر آئی ہے تب سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہل پاکستان کچھ مایوس اور افسردہ سے دکھائی دے رہے ہیں خصوصاً کچھ لیڈران کرام اور خادمان عظام کو تو ہم نے بڑا ہی دل گرفتہ پایا، اکثر نے تو اپنے بینک کھاتے چیک کیے، اثاثوں کا جائزہ لیا اور اپنے خاندان کی سرزنش کی، آخر جب اتنی محنت کے بعد بھی کوئی اچھا مقام نہیں ملا تو تف ہے ہم پر اور ہماری ذات پر، وہ تو اچھا ہوا کہ ان دنوں پانی کی ذرا قلت ہے ورنہ کچھ زیادہ محب وطن تو چلو میں پانی لے کر اس میں اپنی ناک رکھ دیتے۔

ہمارا تو خیال ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، آخر قومی غیرت بھی کوئی چیز ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں فوراً بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھائے بلکہ ری چیکنگ کا مطالبہ کرے یا اقوام متحدہ سے تحقیقات کرائے یہ زیادہ بہتر رہے گا کیوں کہ تحقیق کے معاملات میں اقوام متحدہ خاصا مشہور ہے، بہت معمولی سی فیس کے بدلے اتنی زبردست تحقیقات کراتا ہے کہ دنیا عش عش کر اٹھتی ہے مثلاً ایک مرتبہ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم ان تحقیقات کے لیے مقرر ہوئی تھی کہ وہ یہ دیکھے کہ کس ملک میں کون رہتا ہے، آپ یقین کریں بہت کم مدت میں اس ٹیم نے رپورٹ دی کہ روس میں روسی رہتے ہیں، پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں پاکستانی اور ہندوستان میں ہندوستانی رہتے ہیں، ایک ملک میں وہاں کے وزیراعظم کے قتل پر تو بڑی زبردست تحقیق ہوئی تھی صرف چند ارب روپے کے عوض تحقیقاتی ٹیم نے ثابت کر دیا تھا کہ اس وزیراعظم کو کسی قاتل نے قتل کیا تھا، چنانچہ اس کو بھی اقوام متحدہ کے سپرد کرنا چاہیے۔

ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد دودھ کا پانی اور پانی کا دودھ ہو جائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ کا دہی، لسی اور مکھن بھی بن جائے، پاکستان کے عوام کو تو تشویش ہونا ہی تھی کیوں کہ کرپشن میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے جتنی محنت عوام نے کی ہے بلکہ یوں کہئے کہ جتنی قربانیاں پاکستان کے عوام نے دی ہیں، اتنی قربانیاں کسی ملک کے عوام نے کسی بھی سلسلے میں نہیں دی ہوں گی، سوئٹرز لینڈ کے عوام نے اتنی قربانیاں بینکوں اور گھڑیوں کے لیے نہیں دی ہوں گی، ہندوستان کے عوام نے اتنی قربانیاں مہیلاؤں کو کپڑوں کی قید سے آزاد کرنے کے لیے نہیں دی ہوں گی، افغانستان کے عوام نے اتنی قربانیاں اپنے ملک میں جنگ کو مستقل کرنے کے لیے نہیں دی ہوں گی بلکہ پاکستان کے لیڈروں نے اتنی قربانیاں جمہوریت کے لیے نہیں دی ہوں گی جتنی قربانیاں پاکستان کے عوام نے کرپشن کی نشوونما کے لیے دی ہیں، اپنی دو وقت کی روٹی اور تن کے دو کپڑے تک وار دیے لیکن کرپشن کو دن دونی رات چوگنی ترقی دی اور نتیجہ کہ صرف 33 واں استھان مل رہا ہے۔


اچھی بات یہ ہے کہ عوام کے ساتھ حکومت کو بھی اس ظلم اور حق تلفی کا احساس ہو گیا کیوں کہ اخباروں میں کچھ اشتہارات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں، ہمارا صوبہ کے پی کے (خیر پہ خیر) چونکہ تھوڑا نہیں بلکہ زیادہ حساس ہے اور حساس لوگوں، حساس وزیروں کے تحت محکمے بھی کچھ سپر حساس بن چکے ہیں، اس لیے اس صوبے میں کرپشن کے خلاف مہم چل نکلی ہے، شاید کوئی ہفتہ یا عشرہ بھی منایا جارہا ہے اور بڑے بڑے اشتہاروں کے ذریعے عوام کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ سامنے آئیں اور حکومت کے ساتھ مل کر کرپشن ختم کرنے کی مہم چلائیں، ممکن ہے آپ سوچیں کہ یہ تو الٹی بات ہوئی وہاں کرپشن میں پوزیشن لینے کی بات ہو رہی ہے اور یہاں کرپشن کے خاتمے کی مہم چل رہی ہے تو شاید آپ کے دماغ میں یہ باریک نکتہ نہیں آرہا ہے کہ یہاں کسی چیز کی مخالفت کر کے ہی ترقی دی جاتی ہے یا اگر آپ کو یاد ہو نسوار کے خلاف بھی شور اٹھا تھا جس کا مثبت نتیجہ نکلا اور نسوار کی پڑیا 5 روپے سے بڑھا کر دس روپے ہو گئی، یہ آج کل پبلسٹی کی نئی ترقی دادہ تکنیک ہے کہ ''منفی'' میں سے مثبت نکالا جاتا ہے، مخالفت کر کے حمایت کی جاتی ہے۔

آپ کو یاد نہیں ہو گا اس صوبے کے ایک سابق وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے ایک کتاب لکھی تھی ''گولڈ اینڈ گنز'' جب وہ وزیراعلیٰ بنا تو بتایا گیا کہ کتاب بک نہیں رہی ہے چنانچہ اس نے خود ہی اپنی کتاب پر پابندی لگا دی جس سے اس کتاب کی مشہوری ہو گئی اور اچھی خاصی بزنس کر گئی، کرپشن کے خلاف بھی ایسے ہی نتائج متوقع ہیں بلکہ ابھی سے نکلنا شروع بھی ہو گئے ہیں، ملازمتوں اور تبادلوں کے نرخ بڑھ گئے ہیں اور سرکاری محکموں میں رکے ہوئے کام اچانک اسٹارٹ ہو گئے ہیں۔

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اورمرکزی حکومت یعنی بڑی سرکار کو جمہوریت نافذ کرنے سے فرصت نہیں ہے لیکن ہمارا مشورہ یہی ہے کہ جیسے بھی ہو ''کرپشن'' کے خلاف کوئی مہم چلائے تاکہ اس ''فن عزیز'' کو اور زیادہ ترقی اور زیادہ وسعت ملے اور ہم بین الاقوامی طور پر 33 ویں نمبر کی شرمندگی سے بچ کر کوئی اچھی پوزیشن حاصل کر سکیں جو ہمارا حق ہے جو یہود و ہنود کی سازش سے ہمیں نہیں ملی، ویسے

موقع بھی ہے موسم بھی ہے دستور بھی ہے

اور ضرورت بھی ہے کیوں کہ الیکشن کی آمد آمد ہے، بہت کچھ اوپر نیچے ہو رہا ہے، اکثر چیزوں کے دام بڑھ رہے ہیں، ایسے میں کرپشن کو ڈویلپ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں اور یہ تو بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ سو لاٹھیاں ایک گٹھا بن جاتی ہے، مطلب یہ کہ وزیر ویسے بھی ہمارے ہاں باصلاحیت ہیں، اگر سب مل کر تھوڑی سی بھی ہمت دکھائیں تو کسی میں مجال ہی نہیں کہ کم از کم پانچویں پوزیشن تو ہم سے چھین سکے۔ ویسے حق تو ہمارا پہلا بنتا ہے کیوں کہ باقی بہت سارے علوم و فنون میں ہمارا نمبر یہی ہے بلکہ یوں کہئے کہ ہمارا لکی نمبر ہے اور یہ 33 واں نمبر تو کچھ زیادہ منحوس لگ رہا ہے، دو ہندسے جن کی تین تین انگلیاں ہیں اور ساری انگلیاں ایک ہی جانب اٹھی ہوئی ہیں نہ جانے اس طرف کون ہے خیر ہو
Load Next Story