ریاست بچاؤ

اب تو اس ملک کی بنیادوں پر وار کیے جار رہے ہیں جو ہماری امیدوں کا واحد سہارا تھا۔

ghalib1947@gmail.com

یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ میرا مسلسل تیسرا کالم بیرون ملک سے واپس آنے والوں کے بارے میں ہے، میں نے ری پبلکن پارٹی کے صغیراحمد طاہر کا ذکر کیا جو امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں لگا تارپانچ بار الیکشن جیتے، پھر میں نے شہزاد ملک کا تذکرہ چھیڑا اور اب میرا موضوع ڈاکٹر طاہر القادری ہیں، شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری۔ پہلے تو میں ان کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے نوجوان بیٹے نے مصر کی ایک یونیورسٹی سے چند ہفتے قبل ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، علم مسلمانوں کی عظیم متاع تھی، اسے ہم نے بھلا دیا توتاریخ نے بھی ہمیں فراموش کر دیا، غار حرا میں پہلا سبق تھا: اقرا، پڑھ۔ان دنوں روشن پاکستان کے پیسوں سے پڑھائی پر زور دیا جا رہا ہے، جتنے پیسے اس مہم پر خرچ کیے جا رہے ہیں ، ان میں سے ایک دھیلا بھی نیا اسکول کھولنے، درسی کتابیں چھاپنے، سردی میں طالب علموں کو گرم کپڑے فراہم کرنے پر صرف نہیں کیا گیا۔پتہ نہیں پشاور میں ایئر پورٹ پر حملے کے لیے راکٹوں کی خریداری کے لیے پیسہ کس نے خرچ کیا،اس سے پہلے کامرہ میں مایہ ناز دفاعی طیارے جے ایف تھنڈر بنانے والی فیکٹری کو تباہ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کس نے کی، اس سے بھی پہلے کراچی میں ایک نیول بیس کا محاصرہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کے پاس فنڈ کہاں سے آئے،اور اس سے بھی پہلے راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر چڑھائی کے لیے دہشت گردوں کو کس نے اکسایا۔ اسی طرح لاہور میں آئی ایس آئی اور نیول کالج کے پرخچے اڑانے کی کوشش کیوں کی گئی۔

ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ بلوچستان میںتخریب کاروں کو بھارت سے فون پر ہدایات دی جاتی ہیں ، اسی سے ملتی جلتی بات سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات میں کہی تھی اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر سخت احتجاج کیا تھا۔ یہ بات مشترکہ اعلان میں بھی درج کی گئی۔سلالہ چیک پوسٹ کے خلاف جس کسی نے جارحیت کی ، اس کا ہر کسی کو پتہ ہے اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کر کے ہمارے اقتدار اعلیٰ کی جس نے دھجیاں اڑائیں ، اس کو بھی ہر کوئی پہچانتا ہے، جانتا ہے۔اور اس پر کڑھتا بھی ہے۔پاکستان کے وہ دریا جو سندھ طاس معاہدے کے تحت صرف اور صرف ہمارے استعمال کے لیے تھے، ان کا پانی بھارت روک رہا ہے اور ایک سرسبزپاکستان کو بنجر بنانے کی سازش پروان چڑھا رہا ہے تو اس حقیقت کا بھی ہر کسی کو ادراک ہے۔یہ سب کچھ ریاست پاکستان کے خلاف ہو رہا ہے،1947 میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن بعض طاقتوں کو ہضم نہیں ہو سکا تھا۔

1971میں اسے دو لخت کر دیا گیا۔اب بقیہ ملک نشانے پر ہے۔قومی وحدت کو پارہ پارہ کیا جا رہاہے، ہال بروک اور اس کے گماشتوں نے معاشرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے، یہی نہیں ریاستی اداروں کو بھی ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے،ایک زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے ختم کیا گیا، پھر اسی کھیل نے بوسنیا میں خون کی ندیاں بہا دیں، اب پاکستان کی رگوں سے لہو نچوڑا جا رہا ہے اور شاید یہی وہ خطرات ہیں جن کے پیش نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے'' ریاست بچائو'' کا نعرہ بلند کیا ہے اور انھوں نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ترک کر کے پاکستان کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے واپسی کا عزم کیا ہے ،23 دسمبر کی صبح دس بجے لاکھوں افراد کو مینار پاکستان پر جمع کیا جائے گا، یہی وہ مقام ہے جہاں قیام پاکستان کے لیے قرارداد منظور ہوئی تھی اور اب اسی جگہ پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے عوام سے حلف لیا جائے گا۔طاہرا لقادری چاہتے تو آرام سے کینیڈا میں بیٹھے رہتے، ان کو وہاں کوئی تکلیف نہیں ہے،کسی نے انھیں تصنیف و تالیف اور تحقیق کے کام سے نہیں روکا۔وہ ملک ملک گھوم سکتے ہیں ،ہر طرح سے آزاد ہیں،وہ اوکھلی میں سر کیوں دے رہے ہیں ، اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے دل میں ملک کا دردہے۔


وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے خاموش تماشائی نہیں بننا چاہتے، اپنی سی کوشش کرنا چاہتے ہیں، بھلے ان کی کوشش سرے چڑھے یا نہ چڑھے لیکن وہ اپنے کردار سے غافل نہیں ہیں۔ان کی آنکھوں کے سامنے پاکستان کے لوگ بے دم ہو چکے ہیں ، معیشت کا جنازہ اٹھ چکا ہے، نیب کے سربراہ گواہی دے رہے ہیں کہ روزانہ اربوں کی کرپشن ہو رہی ہے، کرپشن کا یہ پیسہ بیرونی بینکوں کی تجوریوں میں جمع ہور ہا ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی کے کام نہیں آرہا، لوگ لوڈ شیڈنگ کے باعث اندھیروں میں گھر چکے ہیں ، صنعتیں دم توڑ رہی ہیں، کاروبار گہنا گئے ہیں، علاج کی سہولت کے لیے لوگ ترس رہے ہیں ، تعلیم جیسی بنیادی ضرورت محض ایک نعرے میں تحلیل ہو گئی ہے۔

وڈیروں ، جاگیر داروں کا راج ہے، سرمائے کے بل پر عوام کے ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔باری باری کے اقتدار نے ایک مخصوص ٹولے کو ملک پر مسلط کر رکھا ہے۔اس طبقے کے مفادات ، عوام کے مفادات سے متصادم ہیں،اس لیے عوام بھیڑ بکریوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ، وہ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، روٹی کے ایک ٹکڑے اور پانی کی ایک بوندکے لیے بلک رہے ہیں۔ مسئلہ یہیں تک ہوتا تو انسان امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتا اور یہ توقع کرتا کہ کبھی وہ وقت آہی جائے گا جب حالات بدلیں گے، جب راج کرے گی خلق خدا جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں مگر اب تو اس ملک کی بنیادوں پر وار کیے جار رہے ہیں جو ہماری امیدوں کا واحد سہارا تھا۔صدر زرداری نے 27دسمبر کی ایک گزشتہ تقریر میں خبر دار کیا تھا کہ افغان مہاجرین تو چند لاکھ تھے، کچھ بوجھ پاکستان نے سہار لیا اور کچھ ایران نے، مگر پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام مہاجر بنے تو ان کو خدا کی وسیع و عریض زمین پر پناہ دینے والا کون ہو گا۔آج پاکستان کی حفاظت کی قسم کھانے والے اداروں پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے،انھیں ہر طرح کے مظالم کا ذمے دار قرار دیا جا رہاہے، دہشت گردوں کی طرف سے ان کے اڈوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کے حوصلے کیوں توڑے جا رہے ہیں صرف اس لیے کہ وہ اپنا فرض نبھانے کی کوشش کریں تو عوام ان کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوں بلکہ ان کی پشت میں خنجر گھونپیں۔وہ میر جعفر اور میرصادق کا کردار ادا کریں۔فوج کے خلاف رٹیں ہو رہی ہیں، اس کو قیام امن کے لیے یک سو نہیں ہونے دیا جارہا۔پاکستان بننے کے مخالفین آج سیکیورٹی اداروں کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔بلوچستان علیحدگی کے راستے پر گامزن ہے، کراچی سلگ رہا ہے اور اس کی آگ پر تیل چھڑکا جا رہا ہے۔کچھ یہی عالم 1971 میں بھی تھا اور اس کا نتیجہ بھی ہم نے بھگتا۔ کیا ہم اس تاریخ کو دہرانے جا رہے ہیں، جواب ہاں میں ہے تو کیا اس ممکنہ سانحے کے سامنے بند باندھنے کے لیے کوئی متحرک نہ ہو۔کیا ڈاکٹر طاہر ا لقادری کو یہ حق بھی نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ریاست بچائو کا نعرہ ہی بلند کر سکیں۔ وہ لوگوں کو ملک کی حفاظت کے لیے جمع کرنا چاہتے ہیں تو ان کی تائید کی جانی چاہیے۔ وہ کیا کر پائیں گے ، کیا نہیں کر پائیں گے ، اس کا جواب مستقبل پر چھوڑیئے، سر دست ملک کو بچانا ہے، اس کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے، سلالہ جیسے سانحے کا زخم دوبارہ نہیں سہنا، ایبٹ آباد کی طرح اقتدار اعلیٰ اور ملکی آزادی کے چیلنج کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا تواس کے لیے طاہرا لقادری کی آواز میں آواز ملانا ہوگی، ریاست کو بچانے کے لیے ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔
Load Next Story