5 امریکی عورتیں ایک صدی پر پھیلا ہوا خواب
جمہوری جدوجہد کے لیے پاکستانی عورت نے جو لڑائی لڑی، وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔
1940ء میں تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو مسلمان خواتین سے کہا گیا کہ وہ اس سیاسی جدوجہد میں بڑھ چڑ کر حصہ لیں۔ پاکستان بننے کے بعد انھیں بھی ملکی نظم و نسق میں برابر کا حصہ ملے گا۔ یہ سننا تھا کہ کیا بنگال، یوپی، بہار اور کیا پنجاب، پختونخوا اور سندھ کی مسلمان عورت نے بڑھ چڑھ کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا، یہ تو انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ ملکی معاملات میں ان کا حصہ دور کا جلوہ رہے گا۔
تفصیل میں کیا جائیں لیکن یہ بات کیسے بھلا دی جائے کہ 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہوجانے اور 1977ء میں جنرل (ر) ضیاء الحق کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے، 1979ء میں بھٹو صاحب کے عدالتی قتل اور اس کے بعد ملک پر اپنے اقتدار کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے نفاذِ شریعت کے نام پر ضیا شاہی کا جو کھیل شروع ہوا، اس وقت یہ پاکستانی عورت تھی جس نے علمِ بغاوت بلند کیا اور کئی سیاسی جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جو جیل اور جبر کے خوف سے منقار زیر پر تھیں۔ جمہوری جدوجہد کے لیے پاکستانی عورت نے جو لڑائی لڑی، وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس جمہوری جدوجہد سے پاکستانی مردوں یا عورتوں کو کیا ملا؟ اس سوال کی تلخی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ روز اول سے جمہوریت دشمن عناصر ہر قدم پر جمہوریت کو رُسوا کرنے پر تلے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ 1958ء سے 2012ء تک ہمارے سیاسی منظرنامے پر کئی مسیحا اپنی مسیحائی دکھاتے رہے ہیں۔
اس سے بھلا کیسے انکار ہوسکتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر آج بھی نہ عام مردوں کے ہاتھ کچھ آیا ہے اور نہ عورتوں کے۔ آج جب کہ عورتوں کے لیے تشدد سے تحفظ کے قوانین وجود میں آچکے، اس کے باوجود ہر سطح پر ان کی توہین ہورہی ہے، وہ قتل کی جارہی ہیں، جرگے کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، کم عمری میں ان کی شادیاں ہورہی ہیں اور بیٹیاں رحم مادر میں ہی قتل کی جارہی ہیں، غیرت کے نام پر وہ ذبح ہورہی ہیں اور وٹے سٹے کی شادی سے انکار پر بھائی، نافرمان بہن کی آنکھیں حلقہ چشم سے کھرچ کر نکال رہے ہیں اور اس کی ٹانگیں کلہاڑی سے کاٹ رہے ہیں۔
پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بے آسرا عورتوں کے ساتھ کیا نہیں ہورہا، اس کے باوجود جب انتخاب کا موسم آتا ہے، وہ جوق در جوق ووٹ ڈالنے جاتی ہیں اور ان لوگوں کو ووٹ ڈال کر آتی ہیں جو ان کے خیال میں ان کا اور ان کی اولاد کا مقدر بدلیں گے۔ جمہوریت پر اصل ایمان ان عورتوں کا ہے۔ وہ سیاسی طور پر اتنی باشعور ہیں کہ جمہوریت کو جادو کی چھڑی نہیں سمجھتیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کی زندگی قدم بہ قدم بدلے گی اور آخرکار جمہوریت ہی ان کی زندگی کو سہل بنائے گی۔
یہ تمام باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ امریکا جہاں کی جمہوریت کا ساری دنیا میں شہرہ ہے، اگر وہاں جمہوریت کے لیے اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے لڑنے والی عورتوں کی جدوجہد کا جائزہ لیا جائے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ امریکا میں ہوا اور آج بھی ہورہا ہے۔
امریکی عورتوں اور بہ طور خاص سیاہ فام عورتوں نے ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے جو لڑائی لڑی وہ صدیوں پر محیط ہے۔ یہ 1872ء کی بات ہے جب سوزان انتھونی اس جرم میں گرفتار کی گئی کہ اس وقت کے صدارتی انتخابات میں اس نے ووٹ ڈالنے کی 'جرأت' کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت تک مساوی حقوق نہیں ملیں گے جب تک عورتیں قانون سازی میں حصہ نہیں لیں گی اور قانون بنانے والوں کو خود نہیں منتخب کریں گی۔
کہنے کو امریکا میں جمہوریت ہے، دنیا میں اس کی مثالیں دی جاتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب سے 97برس پہلے یہ 21 مئی تھی جب امریکی آئین میں 19 ویں ترمیم کی گئی جس کے تحت عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اس ترمیم کے باوجود اس کی راہ میں کتنے ہی روڑے اٹکائے گئے اور امریکا کی ہر ریاست نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا میں عورتوں بہ طور خاص سیاہ فام عورتوں سے مردوں کی نفرت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ انھیں صاف نظر آرہا تھا کہ اگر عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کا راستہ نہیں روکا گیا تو سماج میں ان کی بالادستی رفتہ رفتہ ایک بھولی بسری کہانی ہوجائے گی۔ انھوں نے ہر ہر قدم پر سیاسی طور سے باشعور عورتوں کا راستہ روکا۔ رفتہ رفتہ سفید فام امریکی عورتیں بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئیں۔ بااختیار مردوں کے سفاکانہ اور جابرانہ اقدام کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انیسویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد بھی 10 برس کے اندر گیارہ افریقی امریکی عورتیں سنگسار کی جاتی ہیں، کسی اخلاقی جرم کی پاداش میں نہیں بلکہ سیاسی شعور کو عام کرنے کے گناہ میں۔ ان گیارہ میں سے 3 عورتیں حاملہ تھیں۔
1918ء میں ایک سوشلسٹ سیاسی کارکن روز ہاسٹر اسٹوک ایک اخبار میں کھلا خط لکھتی ہے جس میں کہتی ہے کہ ''میں عوام کے ساتھ ہوں نہ کہ حکومت کے ساتھ جو منافع خوروں کی ہے''۔ اس کا یہ جملہ 'غداری' کے مترادف ٹھہرتا ہے اور اسے جاسوسی ایکٹ کے تحت 10 برس کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی جو اپنی جمہوریت پر نازاں تھے، وہاں افریقی امریکیوں، سیاہ فام عورتوں، سوشلسٹ سیاست میں حصہ لینے والی عورتوں اور حاشیوں پر زندگی بسر کرنے والے امریکی مردوں کے لیے زندگی کسی جہنم سے کم نہ تھی۔ جمہور کے خلاف اشرافیہ کے ان رویوں کے باوجود امریکیوں کا جمہوریت پر سے اعتماد کبھی متزلزل نہیں ہوا۔
اب جب کہ 2016ء کے امریکی انتخابات کے لیے ووٹنگ شروع ہوچکی ہے، برائن مکبرائیڈ 31 اکتوبر کو 5 امریکی عورتوں کے بارے میں ایک حیران کن کہانی سامنے لے کر آئی۔ یہ 5 عورتیں آئین میں انیسویں ترمیم سے پہلے پیدا ہوئیں۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کی سختیاں جھیلیں، امریکا میں کساد بازاری کے بدترین دن گزارے، ایک جمہوریت میں زندہ رہتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پامالی اور 18 امریکی صدور کا زمانہ دیکھا۔
ان میں سے ایک جیری ہے، جس کی عمر اس وقت 102 برس ہے اور جو کہتی ہے کہ اپنی تمام زندگی میں نے خدا سے بس یہی دعا کی کہ تو مجھے یہ موقع دے دے کہ بس ایک عورت کو صدارتی عہدے کے لیے نامزد ہوتے ہوئے دیکھوں۔ اگر ایسا ہوا تو میں کسی شور شرابے کے بغیر آسمان کا رخ کروں گی۔ جیری عمر بھر ٹیچر رہی ہے اور اب اس کے شاگرد اس کے لیے ایک شاندار جوڑے کا اہتمام کررہے ہیں جسے پہن کر وہ ہلیری کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوگی۔
اسی طرح گرٹریوڈ ہے جس نے 2016ء میں اپنی 100 ویں سالگرہ منائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو ووٹ ڈالنا چاہیے۔ جمہوریت ان ہی لوگوں پر منحصر ہے جو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں عملی طور سے حصہ لیتے ہیں۔ 98 برس کی شلٹنر کا کہنا ہے کہ میری پیدائش کو اب لگ بھگ 100 برس ہونے والے ہیں۔ میرے لیے یہ ناقابل یقین خوشی کی بات ہے کہ میں ہلیری کلنٹن کو ووٹ دوں جب کہ اب سے لگ بھگ سو برس پہلے کسی بھی عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق ہی نہیں تھا۔ اسی طرح 99 برس کی فیلس ہے جو عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملنے سے 2 برس پہلے پیدا ہوئی اور اب ایک عورت کو امریکی صدارت کے لیے کھڑے ہوتے دیکھنے کا موقع اس کے لیے ناقابل یقین مسرت کا ہے۔
103 برس کی مرولین کہتی ہے کہ میں 1917ء میں پیدا ہوئی جب عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا اور یہ 1935ء تھا جب میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کی لذت سے سرشار ہوئی۔ وہ کہتی ہے کہ جب میں ہائی اسکول میں پڑھتی تھی تو لڑکیاں صرف 2 کام کرسکتی تھیں۔ پہلا یہ کہ وہ اسکول ٹیچر ہوجائیں یا نرس بن جائیں لیکن اب وہ آسمان کو چھوسکتی ہیں، اب وہ صدر امریکا منتخب ہوسکتی ہیں۔
ایک صدی پر پھیلی ہوئی زندگی گزارنے والی پانچ امریکی عورتیں ہمیں کیا کچھ سکھاتی ہیں۔ یہ جمہوریت پر ہمارا ایمان پختہ کرتی ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے سیاہ فام اور سفید فام امریکی عورتوں نے جان توڑ جدوجہد کی ہے، اپنے سماج میں سیاسی شعور کو پرورش کیا ہے، لوگوں کو بتایا ہے کہ جمہوریت جادو کی چھڑی نہیں، ایسا پودا ہے جسے سینچنے کے لیے سنگسار ہونا پڑتا ہے، جیل کاٹنی پڑتی ہے، حد تو یہ ہے کہ جان دینی پڑتی ہے لیکن جمہوریت کے خواب کو آنکھوں سے جدا کرنے کا کوئی مرحلہ نہیں آتا۔ بس بڑھتے جایئے، لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم۔ آخرکار مساوی حقوق اور مساوی مواقع کے لیے آپ کا عشق سرخرو ہوگا۔ دیر ہوگی لیکن اندھیر نہیں ہوگی۔ پاکستانی عورت نے بھی یہی رویہ اختیار کیا ہے اور آخرکار جیت اسی کی ہوگی۔
تفصیل میں کیا جائیں لیکن یہ بات کیسے بھلا دی جائے کہ 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہوجانے اور 1977ء میں جنرل (ر) ضیاء الحق کے اقتدار پر غاصبانہ قبضے، 1979ء میں بھٹو صاحب کے عدالتی قتل اور اس کے بعد ملک پر اپنے اقتدار کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے نفاذِ شریعت کے نام پر ضیا شاہی کا جو کھیل شروع ہوا، اس وقت یہ پاکستانی عورت تھی جس نے علمِ بغاوت بلند کیا اور کئی سیاسی جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جو جیل اور جبر کے خوف سے منقار زیر پر تھیں۔ جمہوری جدوجہد کے لیے پاکستانی عورت نے جو لڑائی لڑی، وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس جمہوری جدوجہد سے پاکستانی مردوں یا عورتوں کو کیا ملا؟ اس سوال کی تلخی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ روز اول سے جمہوریت دشمن عناصر ہر قدم پر جمہوریت کو رُسوا کرنے پر تلے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو شاید یاد نہیں رہا کہ 1958ء سے 2012ء تک ہمارے سیاسی منظرنامے پر کئی مسیحا اپنی مسیحائی دکھاتے رہے ہیں۔
اس سے بھلا کیسے انکار ہوسکتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر آج بھی نہ عام مردوں کے ہاتھ کچھ آیا ہے اور نہ عورتوں کے۔ آج جب کہ عورتوں کے لیے تشدد سے تحفظ کے قوانین وجود میں آچکے، اس کے باوجود ہر سطح پر ان کی توہین ہورہی ہے، وہ قتل کی جارہی ہیں، جرگے کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، کم عمری میں ان کی شادیاں ہورہی ہیں اور بیٹیاں رحم مادر میں ہی قتل کی جارہی ہیں، غیرت کے نام پر وہ ذبح ہورہی ہیں اور وٹے سٹے کی شادی سے انکار پر بھائی، نافرمان بہن کی آنکھیں حلقہ چشم سے کھرچ کر نکال رہے ہیں اور اس کی ٹانگیں کلہاڑی سے کاٹ رہے ہیں۔
پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بے آسرا عورتوں کے ساتھ کیا نہیں ہورہا، اس کے باوجود جب انتخاب کا موسم آتا ہے، وہ جوق در جوق ووٹ ڈالنے جاتی ہیں اور ان لوگوں کو ووٹ ڈال کر آتی ہیں جو ان کے خیال میں ان کا اور ان کی اولاد کا مقدر بدلیں گے۔ جمہوریت پر اصل ایمان ان عورتوں کا ہے۔ وہ سیاسی طور پر اتنی باشعور ہیں کہ جمہوریت کو جادو کی چھڑی نہیں سمجھتیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کی زندگی قدم بہ قدم بدلے گی اور آخرکار جمہوریت ہی ان کی زندگی کو سہل بنائے گی۔
یہ تمام باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ امریکا جہاں کی جمہوریت کا ساری دنیا میں شہرہ ہے، اگر وہاں جمہوریت کے لیے اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے لیے لڑنے والی عورتوں کی جدوجہد کا جائزہ لیا جائے تو یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ امریکا میں ہوا اور آج بھی ہورہا ہے۔
امریکی عورتوں اور بہ طور خاص سیاہ فام عورتوں نے ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے جو لڑائی لڑی وہ صدیوں پر محیط ہے۔ یہ 1872ء کی بات ہے جب سوزان انتھونی اس جرم میں گرفتار کی گئی کہ اس وقت کے صدارتی انتخابات میں اس نے ووٹ ڈالنے کی 'جرأت' کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت تک مساوی حقوق نہیں ملیں گے جب تک عورتیں قانون سازی میں حصہ نہیں لیں گی اور قانون بنانے والوں کو خود نہیں منتخب کریں گی۔
کہنے کو امریکا میں جمہوریت ہے، دنیا میں اس کی مثالیں دی جاتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب سے 97برس پہلے یہ 21 مئی تھی جب امریکی آئین میں 19 ویں ترمیم کی گئی جس کے تحت عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اس ترمیم کے باوجود اس کی راہ میں کتنے ہی روڑے اٹکائے گئے اور امریکا کی ہر ریاست نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا میں عورتوں بہ طور خاص سیاہ فام عورتوں سے مردوں کی نفرت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ انھیں صاف نظر آرہا تھا کہ اگر عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کا راستہ نہیں روکا گیا تو سماج میں ان کی بالادستی رفتہ رفتہ ایک بھولی بسری کہانی ہوجائے گی۔ انھوں نے ہر ہر قدم پر سیاسی طور سے باشعور عورتوں کا راستہ روکا۔ رفتہ رفتہ سفید فام امریکی عورتیں بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئیں۔ بااختیار مردوں کے سفاکانہ اور جابرانہ اقدام کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انیسویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد بھی 10 برس کے اندر گیارہ افریقی امریکی عورتیں سنگسار کی جاتی ہیں، کسی اخلاقی جرم کی پاداش میں نہیں بلکہ سیاسی شعور کو عام کرنے کے گناہ میں۔ ان گیارہ میں سے 3 عورتیں حاملہ تھیں۔
1918ء میں ایک سوشلسٹ سیاسی کارکن روز ہاسٹر اسٹوک ایک اخبار میں کھلا خط لکھتی ہے جس میں کہتی ہے کہ ''میں عوام کے ساتھ ہوں نہ کہ حکومت کے ساتھ جو منافع خوروں کی ہے''۔ اس کا یہ جملہ 'غداری' کے مترادف ٹھہرتا ہے اور اسے جاسوسی ایکٹ کے تحت 10 برس کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی جو اپنی جمہوریت پر نازاں تھے، وہاں افریقی امریکیوں، سیاہ فام عورتوں، سوشلسٹ سیاست میں حصہ لینے والی عورتوں اور حاشیوں پر زندگی بسر کرنے والے امریکی مردوں کے لیے زندگی کسی جہنم سے کم نہ تھی۔ جمہور کے خلاف اشرافیہ کے ان رویوں کے باوجود امریکیوں کا جمہوریت پر سے اعتماد کبھی متزلزل نہیں ہوا۔
اب جب کہ 2016ء کے امریکی انتخابات کے لیے ووٹنگ شروع ہوچکی ہے، برائن مکبرائیڈ 31 اکتوبر کو 5 امریکی عورتوں کے بارے میں ایک حیران کن کہانی سامنے لے کر آئی۔ یہ 5 عورتیں آئین میں انیسویں ترمیم سے پہلے پیدا ہوئیں۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کی سختیاں جھیلیں، امریکا میں کساد بازاری کے بدترین دن گزارے، ایک جمہوریت میں زندہ رہتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پامالی اور 18 امریکی صدور کا زمانہ دیکھا۔
ان میں سے ایک جیری ہے، جس کی عمر اس وقت 102 برس ہے اور جو کہتی ہے کہ اپنی تمام زندگی میں نے خدا سے بس یہی دعا کی کہ تو مجھے یہ موقع دے دے کہ بس ایک عورت کو صدارتی عہدے کے لیے نامزد ہوتے ہوئے دیکھوں۔ اگر ایسا ہوا تو میں کسی شور شرابے کے بغیر آسمان کا رخ کروں گی۔ جیری عمر بھر ٹیچر رہی ہے اور اب اس کے شاگرد اس کے لیے ایک شاندار جوڑے کا اہتمام کررہے ہیں جسے پہن کر وہ ہلیری کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوگی۔
اسی طرح گرٹریوڈ ہے جس نے 2016ء میں اپنی 100 ویں سالگرہ منائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو ووٹ ڈالنا چاہیے۔ جمہوریت ان ہی لوگوں پر منحصر ہے جو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس میں عملی طور سے حصہ لیتے ہیں۔ 98 برس کی شلٹنر کا کہنا ہے کہ میری پیدائش کو اب لگ بھگ 100 برس ہونے والے ہیں۔ میرے لیے یہ ناقابل یقین خوشی کی بات ہے کہ میں ہلیری کلنٹن کو ووٹ دوں جب کہ اب سے لگ بھگ سو برس پہلے کسی بھی عورت کو ووٹ ڈالنے کا حق ہی نہیں تھا۔ اسی طرح 99 برس کی فیلس ہے جو عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملنے سے 2 برس پہلے پیدا ہوئی اور اب ایک عورت کو امریکی صدارت کے لیے کھڑے ہوتے دیکھنے کا موقع اس کے لیے ناقابل یقین مسرت کا ہے۔
103 برس کی مرولین کہتی ہے کہ میں 1917ء میں پیدا ہوئی جب عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا اور یہ 1935ء تھا جب میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کی لذت سے سرشار ہوئی۔ وہ کہتی ہے کہ جب میں ہائی اسکول میں پڑھتی تھی تو لڑکیاں صرف 2 کام کرسکتی تھیں۔ پہلا یہ کہ وہ اسکول ٹیچر ہوجائیں یا نرس بن جائیں لیکن اب وہ آسمان کو چھوسکتی ہیں، اب وہ صدر امریکا منتخب ہوسکتی ہیں۔
ایک صدی پر پھیلی ہوئی زندگی گزارنے والی پانچ امریکی عورتیں ہمیں کیا کچھ سکھاتی ہیں۔ یہ جمہوریت پر ہمارا ایمان پختہ کرتی ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے سیاہ فام اور سفید فام امریکی عورتوں نے جان توڑ جدوجہد کی ہے، اپنے سماج میں سیاسی شعور کو پرورش کیا ہے، لوگوں کو بتایا ہے کہ جمہوریت جادو کی چھڑی نہیں، ایسا پودا ہے جسے سینچنے کے لیے سنگسار ہونا پڑتا ہے، جیل کاٹنی پڑتی ہے، حد تو یہ ہے کہ جان دینی پڑتی ہے لیکن جمہوریت کے خواب کو آنکھوں سے جدا کرنے کا کوئی مرحلہ نہیں آتا۔ بس بڑھتے جایئے، لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم۔ آخرکار مساوی حقوق اور مساوی مواقع کے لیے آپ کا عشق سرخرو ہوگا۔ دیر ہوگی لیکن اندھیر نہیں ہوگی۔ پاکستانی عورت نے بھی یہی رویہ اختیار کیا ہے اور آخرکار جیت اسی کی ہوگی۔