بلاول اور تحریک

بلاول کی کوششوں سے قائم علی شاہ رخصت اور مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنے

tauceeph@gmail.com

''میاں صاحب ! بیرسٹر اعتزاز احسن کا پانامہ بل منظورکرنا پڑے گا، ورنہ عدالتی کمیشن نہیں چلے گا، عدالتی کمیشن نہیں چلے گا، تو آپ کی حکومت بھی نہیں چلے گی'' بلاول زرداری نے سندھ اور پنجاب کی سرحد پر بڑا جلسہ کیا، حکومت اور عمران خان پر سخت تنقیدکی اورکہا کہ مائنس ون فارمولا نہیں چلے گا۔ بلاول نے سندھ میں پیپلزپارٹی کو منظم کرنے کی مہم شروع کردی۔ انھوں نے گزشتہ ماہ کراچی میں ستمبرکے شہداء کی یاد میں ایک بڑی ریلی منعقدکی تھی اور پھرنثارکھوڑو کو سندھ پیپلز پارٹی کا نیا صدرمنتخب کیا تھا۔ ابھی صوبے کی سطح پراور شہروں میں تنظیم سازی کے مراحل باقی ہیں۔

بلاول کی کوششوں سے قائم علی شاہ رخصت اور مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنے، انھوں نے سندھ حکومت کو منظم کرنے اور میرٹ کی بنیاد پرحکومت چلانے کا عندیہ دیا۔ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ بلاول نے پہلی دفعہ پیپلزپارٹی سندھ کونسل کے اجلاس میں صدارت کے لیے تین امیدواروں میں ووٹنگ کروائی اور نثارکھوڑو کو سندھ پیپلزپارٹی کا نیا صدر مقررکیا۔ بلاول کے متحرک ہونے سے پیپلزپارٹی میں ہل جل نظر آتی ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں کچھ امنگ پیدا ہوتی نظرآرہی ہے مگر پختون خوا اوربلوچستان میں پیپلز پارٹی بالکل غائب ہے۔

پیپلزپارٹی 1988تک پورے ملک کی مقبول جماعت تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی ناقص کارکردگی کرپشن کو اپنے ایجنڈے میں اولیت دینے مزدوروں، کسانوں، طلباء، دانشوروں،خواتین اور اقلیتوں کے مسائل کو نظراندازکرنے کی بناء پراس کی مقبولیت کم ہونا شروع ہوئی۔ بینظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی نے پیپلزپارٹی کو بہت نقصان پہنچا، جب تک پنجاب اور خیبرپختونخواکے لوگوں کو پیپلزپارٹی کی متبادل جماعت میسر نہیں آئی تھی، پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت رکھتی تھی۔

2002کے انتخابات میں پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری ۔ جنرل مشرف کو اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو توڑکر پی پی پی پیٹریاٹ بنانی پڑی۔ 2007 میں محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت کے باوجود پیپلز پارٹی 2007کے انتخابات میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے آٖصف علی زرداری کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملا مگرکرپشن میرٹ کو پامال کرنے اور بد ترین طرز حکومت کے باعت پیپلز پارٹی سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں عوامی حمایت سے محروم ہوگئی۔

تحریک انصاف پنجاب کی دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھرکے سامنے آئی۔کراچی میں گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشنوں پر ایم کیو ایم والے قبضہ نہ کرلیتے تو تحریک انصاف کراچی کی دوسری جماعت کی حیثیت اختیارکرلیتی۔ 2013 انتخابات کے منفی نتائج کے باوجود آصف زرداری نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی سندھ میں قائم علی شاہ کے علاوہ تین سے چارافراد وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے رہے۔

کراچی شہرکوڑے دان میں تبدیل ہوا، سرکاری ملازمتیں بازاروں میں فروخت ہوئیں، سندھ کے چیف جسٹس سجادعلی شاہ کے سامنے لاڑکانہ کی زبوں حالی کے بارے میں عرض داشت پیش ہوئی ، اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کرنے کا انکشاف ہوا تو معزز چیف جسٹس نے یہ ریماکس دیے کہ ڈائن بھی دس گھروں کو چھوڑکر واردات کرتی ہے۔ رینجرز نے ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے پس پشت سرمایہ فراہم کرنے والے عناصر کی پائپ لائن کا کھوج لگایا تو فشریز بلڈنگ کنڑول اتھارٹی اوردوسرے محکموں کے اربوں روپے کے اسکینڈل سامنے آئے، ڈاکٹر عاصم پکڑے گئے، شرجیل میمن، مظفرٹپی ودیگر ملک چھوڑکرچلے گئے۔اس چپقلش کا نقصان یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی اوروفاقی حکومت میں جھگڑا شروع ہوگیا، یہ جھگڑا ایک خاص سطح پرابھی تک جاری ہے۔


عمران خان، میاں نوازشریف اورآصف زرداری کو ایک ہی بلے سے ہانکتے تھے، مگر پاناما لیکس کے ذرایع ابلاغ کی زینت بننے کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن اور شیخ رشید کی کوششوں سے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے ورمیان فاصلے کم ہوئے۔ بلاول اور شیخ رشیدکی ملاقات ہوئی ۔ اعتزاز احسن نے شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پارلیمانی کمیٹی میں ٹی او آرز کے بارے میں سخت موقف اختیارکیا، جس کی بناء پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے۔اس کے بعد بیرسٹر اعتزازاحسن نے سینیٹ میں پانامہ بل پیش کیا۔

اگر پارلیمنٹ یہ بل منظورکرلے تو میاں نواز شریف بقیہ زندگی کے لیے سیاست سے نااہل ہوجائیں گے، مگر پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی جانب سے عرضداشت داخل کرنے اور وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے لیے عمران خان کے دھرنے کی حمایت نہیں کی۔ عمران خان کے دھرنے کی کامیابی کے نتیجے میں جمہوری نظام کا خاتمہ یقینی تھا اورٹیکنوکریٹ کی ایسی حکومت قائم ہوسکتی تھی کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ بدترین سلوک ہوتا۔

زرداری صاحب کو یہ بھی خدشہ تھا کہ تیسری قوت کو مداخلت کا موقع مل سکتا ہے یہی وجہ تھی کہ خورشید شاہ نے عمران خان کے موقف کے خلاف سخت رویہ اختیارکیا۔ عمران خان نے زرداری اورخورشید شاہ پر جوابی گولہ باری کردی۔ انھوں نے اس ضمن میں بیرسٹراعتزازاحسن کے مشورے پر بھی کان نہ دھرے، بلاول بھٹو نے گھوٹکی میں دوسرے دن جلسے میں کہا کہ اگر چچا عمران اور وہ ایک پیج پرآجاتے ہیں تو پھر میاں برادران کو رخصت کرنے کی تحریک چل سکتی ہے۔ بلاول بھٹوکا المیہ یہ ہے کہ ان کی جماعت پربدترین طرزحکومت کے بڑے بڑے الزامات ہیں۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زراداری نے انتخابات سے صرف 18ماہ پہلے قائم علی شاہ کو رخصت کیا اور مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ کا قلم دان دیا۔ مراد علی شاہ صبح آٹھ بجے اپنے دفتر پہنچ جاتے ہیں جس کی بناء پرکچھ افسران جلدی آتے ہیں حکومتی مشینری پہلے کی طرح سست رفتاری کا شکار ہے۔ نئے وزیراعلیٰ نے شادی ہال اور بازار جلد بندکرنے کا اچھا فیصلہ کیا وہ پریشر گروپ کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور یہ فیصلہ فروری تک موخرکردیاگیا۔

حکومت کی کمزوری عیاں ہوگئی ۔سندھ حکومت اب تک منتخب بلدیاتی اداروں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، حکومت نے بلدیاتی اداروں کے فنڈ منجمدکردیے، جس کی بناء پر ملازمین کے فنڈز، پنشن اور ٹھیکیداروں کو فنڈزکی ادائیگی رک گئی تھی۔اب تنخواہوں اور پنشن کے لیے فنڈز جاری ہوئے مگر باقی معاملات التواء کا شکار ہوئے ۔کراچی شہر میں پھرکوڑے کے ڈھیر لگ گئے ہیں، لوگ چیخ چیخ کر وزیراعلیٰ کو ان کا وعدہ یاد دلا رہے ہیں حکومت نے نوے ہزارآسامیوں پر تقرری کا اعلان کیا، مگر ابھی تک ملازمتوں کے لیے کوئی شفاف نظام نافذ نہیں ہوا۔

کراچی شہر میں امن وامان کی صورتحال پھر سے خراب ہورہی ہے، یوں محسوس ہورہا ہے کراچی کو فرقہ وارانہ فسادات کی طرف دھکیلا جارہا ہے، اگر حکومت نے فریقین کے رہنماؤں کوگرفتارکرنے کا اقدام کیا ہے مگر امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے ۔

بلاول کو موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے بجائے سندھ کو ماڈل صوبہ بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہییں، انھیں پنجاب اورکے پی میں مزدوروں ،کسانوں ،طلباء تنظیموں اور اقلیتی نمایندوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایک نئی پالیسی بنانی چاہیے۔انھیں بدعنوانی کرنے والے عناصرکو پارٹی سے خارج کردینا چاہیے، تاکہ آیندہ پارٹی کے رہنما احتیاط کریں، برداشت کے اصول سے نہ صرف پارٹی امیج بہتر ہوسکتا ہے اور سندھ میں ترقی ہوسکتی ہے ۔ بلاول کو اب یہ فیصلہ کرہی لینا چاہیے کہ مستقبل میں وہ اپنے نانا کی سیاست کی پیروی کریں گے یا اپنے والدکی پالیسی کی۔ ان کے نانا کی پالیسیوں کے نتیجے میں پیپلزپارٹی پورے ملک کے غریبوں کی آواز بن گئی تھی۔
Load Next Story