اب میں پٹھان نہیں …

ریاستی اداروں کا فرض تھا کہ وہ ریاست کو بے توقیر ہونے سے بچاتے اور یلغاری ٹولے کو روکتے۔


[email protected]

اسلام آباد پر یلغار (لاک ڈاؤن) کی کال غلط اور غیرقانونی تھی اس لیے اس کے اعلان پر ہر شخص تشویش اور اضطراب میں مبتلاتھا۔ اس کے خاتمے پر پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ حکومتی فریق مگراس پر خوشی کے شادیانے بجانے کے بجائے گورننس کے کمزور پہلوؤں پر توجہّ دے اور اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی میں سابقہ کوتاہیوں کا ازالہ کرے۔

دوسرے فریق کو، جسے پسپائی اختیار کرنا پڑی، اپنی طرزِ سیاست بدلنا ہوگی۔ مگر اسے احساسِ ہزیمت میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ اسوقت حکمران جماعت کے مقابلے میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اس کے سربراہ پورے ملک میں ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھوں نے نوجوانوں کو بڑی کامیابی سے mobiliseکیا ہے۔ انھیں اپنی اور اپنے ورکروں کی قوت اور صلاحیت بے سمت اور بے سود adventures پر ضایع کرنے کے بجائے آیندہ الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے۔

عدالتِ عظمیٰ کا جو بھی فیصلہ آئے فریقین کو تسلیم کرلینا چاہیے، عدالت کو چاہیے کہ اب اس موضوع پر اخبارات اور ٹی وی پر ہر قسم کے تبصروں پر پابندی لگادے۔ دارلحکومت پر قبضے کے خواہشمند لیڈروں کی بہت سی باتوں پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن میں ان کے زخموں پر نمک نہیں چھڑکنا چاہتا۔ مگر ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ نے ایسی باتیں کیں کہ کانوں پر یقین نہیں آتا کہ کوئی پڑھا لکھا، باشعور شخص آج بھی ایسی سوچ رکھتاہے۔

موصوف سیکڑوں مرتبہ اسلام آباد پورے دھوم دھڑلے سے آئے ہیں انھیں کبھی کسی نے نہیں روکا۔ مگر جب وہ دارلحکومت کا کاروبارِ زندگی بند کرنے اور حکومت کو مفلوج کرنے کی غرض سے یلغار کریں گے (اور ایسا کرکے دنیا بھر میں ایٹمی قوت پاکستان کو بے وقار کریں گے) تو ریاستی اداروں کا فرض تھا کہ وہ ریاست کو بے توقیر ہونے سے بچاتے اور یلغاری ٹولے کو روکتے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے بڑی دردمندی سے آج لکھا ہے کہ''موجودہ دھرنا لاقانونیت کی مثال تھا۔ میرے ساتھیوں اور میں نے ملک کو اس لیے ایٹمی قوت نہیں بنایا تھا کہ باہر کے بجائے اند سے اسے تباہ کردیا جائے'' وزیرِاعلیٰ صاحب کے جلوس کو روکنے کے لیے پولیس نے آنسوگیس کی شیلنگ کی تو کسی چینل کے رپورٹر نے ان کی گاڑی کے پاس جاکر ان سے پوچھا ''آپ کے ورکر آگے پولیس کا مقابلہ کررہے ہیں مگر آپ ایئرکنڈیشنڈ گاڑی کے اندر ہی بیٹھے ہوئے ہیں، آپ ورکروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے آگے نہیں جائیں گے؟'' تو انھوں نے غصّے سے کہا ''آپ چاہتے ہیں کہ میں آگے جاؤں اور دھوئیں سے بے ہوش ہوجاؤں''۔ واہ سبحان اﷲ کیا اعلیٰ پائے کے جرنیل ہیں۔

اس کے گزشتہ روز موصوف نے فرمایا کہ ''ہم پٹھانوں کے مقابلے میں ایف سی کو کھڑا کردیا گیا، وہ بھی پٹھان ہیں انھیں چاہیے تھا کہ پٹھان ہوتے ہوئے پٹھانوں پر ہتھیار نہ اٹھاتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔انھیں شرم آنی چاہیے''۔ جب ہم کچھ سینئر سول سرونٹس کے ساتھ ایک جگہ ٹی وی پر موصوف کا خطاب سن رہے تھے تو کئی حضرات کے منہ سے بیک وقت نکلا Has he lost his senses? (کیا یہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے ہیں)۔

یاد رہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری مرکزی حکومت کے ماتحت ہے اس کے ملازمین کی تنخواہیں بھی مرکزی حکومت دیتی ہے، یہ کسی زمانے میں اسٹیٹس اینڈ فرنٹیرریجن کی وزارت کے ماتحت ہوتی تھی مگرکچھ عرصے سے یہ وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے، فرنٹیر کانسٹیبلری کی پلاٹونیں صرف خیبرپختونخوا میں ہی نہیں، سندھ، کراچی، اسلام آباد، بلوچستان اور پنجاب میں بھی تعینات رہی ہیں اور اسلام آباد کے زیادہ تر سفارتخانوں پر تو کئی سالوں سے حفاظتی فرائض یہی فورس انجام دے رہی ہے۔ اس کے جوان بڑے بہادر اور فرض شناس ہیں اور فرائض کی انجام دہی میں جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

دہشتگردی کے خلاف ایف سی کے جوان فوج کے شانہ بشانہ بڑی بے جگری سے لڑرہے ہیں اس جنگ میں ان کے سپاہی اور ایس پی سے لے کر آئی جی تک نے جانیں قربان کی ہیں۔ مگر ملک میںامن و امان قائم رکھنے کے لیے ان کی قربانیوں اور خدمات کے باوجود ان کی تنخواہ تمام فورسز سے کم ہے اور دوسری فورسز کے برعکس انھیں اسپیشل ڈیوٹی الاؤنس بھی نہیں ملتا، ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے چاہئیں اور تنخواہ میں تو بہت پہلے اضافہ ہوجانا چاہیے تھا۔

خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے کہنے کے مطابق اگرپولیس یا ایف سی کا ملازم پٹھان ہے تواسے کسی پٹھان کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہیے، چاہے وہ قانون شکنی کا مرتکب ہورہا ہو۔ حضورِ والا! اگر ایسا ہو تو آپکے صوبے میں قاتلوں، اغواکاروں، ڈاکوؤں، چوروں اور دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کون کریگا؟۔کیا اس کے لیے چین اور جاپان سے فورس لائی جائے گی؟۔ اگر موصوف کا کہا مان لیا جائے تو اسلام آباد ، پنجاب اور کراچی میں ہزاروں پٹھان چوکیدار نوکریوں سے محروم ہوجائیں گے کیونکہ ان کے مالکان سمجھیں گے کہ یہ تو کسی پٹھان ڈاکویا چور کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے اس لیے یہ تو ہمارے لیے بیکار ہیں۔

موصوف صوبے کے لاء سیکریٹری یا ایڈووکیٹ جنرل کو بلا کر پوچھیں، وہ انھیں بتائیں گے کہ کسی بھی ڈسپلنڈ فورس میں علاقائی، لسانی یا فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینا ایک سنگین جرم ہے۔مگر میں موصوف کے خلاف کسی قانونی کاروائی یا غداری کا مقدمہ درج کرانے کے حق میں ہرگز نہیں ہوں نہ ہی ملک کے آئین کے مطابق منتخب ہونے والے سیاسی لیڈروں پر غدّار ی کے لیبل لگانا کوئی اچھی بات ہے۔ ہم تو آئینِ پاکستان کو ماننے والی اُس صوبے کی اُس جماعت کے لیڈروں کو بھی صحیح پاکستانی سمجھتے ہیں جن کے بڑے اور بانی پاکستان بننے کے مخالف تھے اور جنہوں نے اس ملک میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔

پشاور ایئرپورٹ کا نام بہرحال پاکستان کے کسی مخالف کے نام پر رکھنا ایک ناپسندیدہ فعل اور شہدائے پاکستان کی روحوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ پشاور ایئرپورٹ کانام اگر کسی شخصیت کے نام پر ہی رکھنا ہو تو سردار عبدالرب نشترؔ سے بہتر کوئی اور نام نہیں ہوسکتا، جو تحریکِ پاکستان کے انتہائی مخلص رہنما اور اس صوبے سے قائدؒکے سب سے قابلِ اعتماد ساتھی تھے اور اپنی دیانتداری اور اجلے کردار کے باعث انتہائی نیک نام تھے۔ پشاور ایئر پورٹ کے موجودہ نام پر اس صوبے کی دوسری جماعتوں کے رہنماؤں نے بجا طو پر اعتراض کیا ہے۔ حکومت کو سیاسی ضروریات نہیں ملکی مفادات کے مطابق فیصلہ کرناچاہیے۔

بہرحال خٹک صاحب کی علاقائی عصبیّت ابھارنے والی تقریرکو میں غدّارانہ نہیں جاہلانہ سمجھتا ہوں، اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ موصوف کو صحت اور عقل دونوں سے نوازیں۔ مگر ان کے خلاف کسی قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں۔انھیں بھی وفاقی حکومت کے وزراء کے خلاف مقدمہ درج کرانے جیسے احمقانہ اقدام سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمیں سیاست میں برداشت اور رواداری کو پروان چڑھانا چاہیے۔ موصوف کو اپنی تقریر پر معذرت کرلینی چاہیے۔ وہ معذرت کرتے وقت اپنے دفاع میں کئی عذر پیش کرسکتے ہیں مثلاً وہ کہہ سکتے ہیں کہ ''زہریلی گیس ناک سے ہوتی ہوئی دماغ تک جاپہنچی اور توازن قائم نہ رہ سکا۔ اس دوران میرے منہ سے نہ جانے کیا کیا نکلتا رہا''۔

ایک خفیہ ایجنسی کیمطابق انھوں نے حقائق پر مبنی اسطرح کا دفاع تیار کر رکھا ہے کہ '' ایک تو ہمیں منزل پر نہ پہنچنے کی پریشانی تھی دوسرا میں چوبیس گھنٹے گاڑی میں بیٹھا رہا، آپ تقریر میں خطا کی بات کرتے ہیں ایسے حالات میں تو بہت کچھ خطا ہو جاتا ہے۔ صبر اور ضبط کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ نوجوان تو حوائج ضروریہ کے لیے جھاڑیوں میں چلے جاتے تھے مگر میں سیٹ پر ہی بیٹھا رہا کیونکہ مجھے شک تھا جھاڑیوں میں بھی پنجاب پولیس کے جوان چھپے ہوئے ہیں۔ بس اسی پریشانی اور آس پاس کی بدبونے حواس کو متاثر کیا اور زبان پھسل گئی"۔

بدقسمتی سے احتیاط کسی طرف سے بھی روا نہیں رکھی جاتی۔ وزیرِ داخلہ کو پولیس لائینز میں جاکر پولیس کو شاباش ضرور دینی چاہیے تھی ( انھیں پچھلے دھرنوں میں زخمی ایس ایس پی کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اسپتال بھی جانا چاہیے تھا) مگر پولیس لائینز میں کوئی سیاسی بات نہیں ہونی چاہیے تھی۔ میڈیا پر کوئی ایسی تقریر نشر نہیں ہونی چاہیے تھی جس سے یہ تاثر ابھرے کہ پولیس ملازمین کسی سیاسی پارٹی کے سپورٹرہیں یا انھوں نے کوئی کام کسی سیاسی جماعت کے لیے کیا ہے یا ایف سی کی تنخواہ اسلام آباد پر یلغار روکنے کے صلے میں بڑھائی گئی ہے۔

ان کی دہشتگردی کے خاتمے کے لیے بے مثال قربانیاں ہیں اس لیے ان کی تنخواہ بہت پہلے بڑھا دینی چاہیے تھی۔ پولیس کو ہمیشہ آئین اور قانون کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت اور دوسری تمام پارٹیوں کو بھی پولیس کا سیاسی استعمال ہمیشہ کے لیے ختم کرکے اسے غیر جانبدار قومی ادارے میں تبدیل کرنے کی نیک نیّتی سے کوشش کرنی چاہیے۔

آخر میں یہ بھی سن لیں کہ پٹھان وزیرِاعلیٰ کے طعنے کا ایف سی میں کیا ردعمل ہوا۔ راقم خود بھی ایف سی شبقدر کو کمانڈ کرچکا ہے اس لیے اس بہترین فورس کے افسروں اور جوانوں سے رابطہ رہتا ہے۔ کسی نے ایف سی کے صوبیدار میجرسے کہا کہ" وزیرِ اعلیٰ صاحب کہتے ہیں انھیں شرم آنی چاہیے تھی پٹھان ہوکر انھوں نے پٹھانوں پر بندوقیں اٹھالیں"۔ پٹھان صوبیدار میجرنے جواب دیا کہ میری طرف سے وزیرِاعلیٰ صاحب کو بتادیں کہ" جس دن سے وردی پہنی ہے اس دن سے میں پٹھان نہیں پاکستانی ہوں"۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔