کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے

نظریۂ پاکستان اور ملک و قوم سے مثالی وفاداری کا دعویدار طبقہ بھارت کی بربادی کا حساب کتاب لگائے بیٹھا ہے۔

gmohyddin@express.com.pk

ہر برس 16 دسمبر کا دن اسی انداز میں گزر جاتا ہے جیسے ہمارے قومی اور معاشرتی زندگی میں خوشی یا دُکھ کا حوالہ بن جانے والے دوسرے دن گزرتے ہیں۔ ایسے دنوں کے لیے ایک طے شدہ معمول ہوتا ہے جس پر سہولت سے یا ناگواری سے عمل کر کے فراغت حاصل کر لی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز دستاویزی فلمیں دکھاتے ہیں اور مذاکروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن شایع کرتے ہیں' نجی سطح پر بھی بحث مباحثے اور فکری نشستوں کا اہتمام کرلیا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں یقیناً مثبت سرگرمیاں ہیں۔ ان کے ذریعے عوام کی آگاہی کا اہتمام ہوتا ہے اور کسی اہم واقعے کے تجزیے کے لیے نئے نئے نقطہ ہائے نظر سامنے آتے ہیں لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس جیسے عظیم سانحے کے رد عمل میں زندہ اقوام میں جو تبدیلیاں پیدا ہو جایا کرتی ہیں ہم ان سے پوری طرح مبرا ہیں۔

آج سے تقریباً 40 برس پہلے 16 دسمبر کو پاکستان کی مسلح افواج کو سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں حملہ آور بھارتی فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ اس روز ہم نے فاتح بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ پاک فوج کی اس شکست کا بدترین پہلو یہ تھا کہ ہماری عاقبت نااندیشی کے باعث پاک فوج کے بنگالی افسروں اور جوانوں نے بغاوت کر دی تھی اور وہ بھارتی فوج کے ساتھ مل کر پاک فوج سے لڑ رہے تھے۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آیندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ پاکستان کی اس شکست پر ملک کے دانشور حلقوں کی رائے میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اسے بین الاقوامی سازش قرار دے کر سارا بوجھ عالمی طاقتوں پر ڈال دیتے ہیں اور یوں تاریخ کے اس اہم واقعے میں شامل کرداروں کو بری الذمہ قرار دینے کی سبیل کر تے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک پاکستان اپنی بنیاد میں ایک غیر فطری تخلیق ہے اور اسے جلد یا بدیر ختم ہو جانا ہے۔ دانشوروں کا یہ طبقہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر اس انداز میں کرتا ہے جیسے انھوں نے جس بات کا اوائل میں ذکر کر دیا تھا وہ وقوع پذیر ہو کر رہی اور یوں وہ خود کو ذہنی اعتبار سے دیگر لوگوں سے صدیوں آگے تصور کرتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ اس خطے کے بارے میں ان کے تجزیوں پر مبنی دیگر پیش گوئیاں کب درست ثابت ہوتی ہیں۔

نظریۂ پاکستان اور ملک و قوم سے مثالی وفاداری کا دعویدار ایسا طبقہ بھی بہت نمایاں نظر آتا ہے جو بھارت کی بربادی کا حساب کتاب لگائے بیٹھا ہے۔ ان کی اُمیدوں کا محور وہ زیادتیاں اور تکالیف ہیں جو آزادی کے بعد بنگلہ دیشی عوام کو سہنا پڑ رہی ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کی جانب سے کوئی بدسلوکی ہو یا تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جائے تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ ''ہم سے الگ ہو کر بنگالیوں نے کیا حاصل کر لیا ہے' پہلے سے بھی بدتر حالات کا شکار ہیں''۔ اگر کوئی بنگالی شخصیت یا 1971ء کے پُرآشوب دور کا کوئی بنگالی کردار ان واقعات پر پچھتاوے اور تاسف کا اظہار کردے تو وہ اسی کو اپنے نظریات کی کامیابی تصور کر لیتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب پست ذہنی معیار کی نشانیاں ہیں۔ ان باتوں میں چند لوگوں کی ذہنی آسودگی اور انا کی تسکین کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان کے معتبرماہنامہ جریدے اردو ڈائجسٹ کی حالیہ اشاعت میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی اور بعد میں مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کو ٹھکانے لگانے کے آپریشن کے اہم کردار میجر شریف الحق دالیم (بعد میں لیفٹیننٹ کرنل )کا انٹرویو شایع ہوا ہے۔ جریدے کے مطابق یہ کسی پاکستانی رسالے کو ان کا پہلا انٹرویو ہے۔ وہ پاک فوج سے فرار ہو کر بھارت پہنچنے والے پہلے بنگالی افسر تھے۔ اور بھارت میں انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا، انھیں وزیراعظم اندرا گاندھی تک رسائی حاصل تھی۔ ان کے اس انٹرویو میں پاکستان میں مختلف اور باہم متصادم آراء رکھنے والے دانشور حلقوں کے لیے بہت کچھ ہے لیکن مجھے ایک چھوٹے سے واقعے نے یہ سب لکھنے پر اُکسایا۔ اس ایک واقعے میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہم نے تو آج تک سانحہ مشرقی پاکستان پر زیادہ سے زیادہ یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ '' ہم نے اس سانحے سے کچھ نہیں سیکھا''۔ دالیم نے واقعہ کچھ یوں بیان کیا۔ کچھ عرصہ پہلے دوستوں کی ایک دعوت میں شریک تھا جس میں فوج' انٹیلی جنس افسر' تاجر اور کچھ سیاسی لوگ موجود تھے۔ پاکستان ٹوٹنے پر بات چل نکلی۔ دعوت کے میزبان نے مجھ سے کہا ''آپ ضرور کچھ کہئے''۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ''وجہ تو ساری دنیا جانتی ہے' اصل وجہ اس سے مختلف ہے''۔ میں نے میزبان سے کہا' آپ نے مجھ سے ایک جملہ کہا ''آپ کچھ کہیں'' بنگلہ زبان میں اسے کیسے کہیں گے، میزبان پنجابی تھا، اس نے کہا ''میں کیسے بتا سکتا ہوں؟'' میں نے کہا آپ چھوڑیں' یہاں 20-15 آدمی ہیں کوئی بھی بتا دے کہ ان لفظوں کو بنگالی میں کیسے ادا کریں گے۔ ایسا کوئی نہ تھا۔ میں نے کہا کہ جو لوگ آپس میں بات نہیں کر سکتے وہ اکٹھے کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ وہ سادہ سی بات ہے جو اس سانحے کی بنیاد بنی اور اسی بات میں وہ حل بھی پوشیدہ ہے جسے اپنا کر ہم اپنے سارے خسارے پورے کر سکتے ہیں۔

کیا ہم یہ نہیں کر سکتے کہ اپنے ملک میں گریجویشن کی ڈگری کے اجراء کواس بات سے مشروط کر دیں کہ ہر طالب علم دسویں جماعت سے لے کر گریجویشن تک اپنی مادری زبان کے علاوہ پاکستان کی کسی ایک علاقائی زبان میں لکھنے اور بولنے کی مہارت حاصل کرے گا اور ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں اسے گریجویشن کی ڈگری نہیں دی جائے گی۔


کیا ہم یہ نہیں کر سکتے کہ اسکولوں' کالجوں میں اس بات کو لازم کر دیں کہ طالب علم اپنے صوبے کے علاوہ ملک کے باقی چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کا کم از کم ایک مطالعاتی دورہ ضرور کریں گے۔

اس بات کو لازم بنا دیا جائے کہ یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے ہر صوبہ سے مخصوص تعداد میں طلباء کو دوسرے صوبوں میں تعلیم حاصل کرنا ہو گی۔

کلب کی سطح پر کھیلوں کو اس انداز میں منظم کیا جائے کہ نچلے درجے کی ٹیمیں اور کھلاڑی دوسرے صوبوں میں جا کر کھیل سکیں' یوں کھیلوں کو منظم کرنے کی ذمے دار ہماری تنظیموں کو بھی کوئی مصروفیت میسر آ جائے گی۔ ملک کے طول و عرض میں چلنے والی ریل گاڑیوں کے اندر سب سے نچلے درجے میں ایسی سرگرمیوں کے لیے رعایتی نرخوں پر تھوڑی سی جگہ مخصوص کی جا سکتی ہے۔

اس طرز کے ایسے بہت سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن کے نتیجے میں ہم آہستہ آہستہ ایک قوم کے سانچے میں ڈھلنے لگیں گے۔ اس حقیقت کو مزید نظر انداز کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں کہ ا قوام کے مزاج اور کلچر کی تشکیل کوئی خود ردعمل نہیں ہوتا بلکہ ملک کے بہترین دماغوں انٹیلی جنشیا' لوگوں پر اثر انداز ہونے والے اداروں' ادیبوں' دانشوروں اور ذمے داران کے درمیان قومی مقاصد کے حصول کے لیے ایک غیر محسوس اتفاق قائم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ہر فیصلے میں اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے قومی مقاصد کے حصول کے عمل کو نقصان نہ پہنچنے دیا جائے گا۔ عظیم فلسفی افلاطون نے کہا تھا، '' ریاستیں بھی افراد ہی کی طرح ہوتی ہیں،اور ان کے خدوخال بھی انسانی اوصاف و کردار کے ذریعے ہی تشکیل پاتے ہیں۔
Load Next Story